ٹیکنوکریٹ حکومت کی گونج: کیا آئین پاکستان ایسے کسی نظام کی اجازت دیتا ہے؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ’میڈیا رپورٹس‘ سن کر ٹیکنوکریٹ نظام لانے کے خلاف اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کو درپیش مسائل سیاسی ہیں نہ کہ معاشی۔ ٹیکنوکریٹ حکومت پاکستان کو مستحکم نہیں کر سکتی اور جلد انتخابات ان مسائل سے نمٹنے کا واحد حل ہیں۔‘
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں ٹیکنوکریٹ نظام لانے کے خلاف متعدد بیانات دے چکی ہے۔
اس سے پہلے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت کے چند ممبران نے ان سے ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کے بارے میں ’غیر رسمی گفتگو‘ کی تھی، جس سے انھیں یہ عندیہ ملا کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے لیکن پی ٹی آئی اپنے مؤقف پر اب بھی ڈٹی ہوئی ہے کہ وہ پاکستان میں معیشت کو بچانے کے لیے ایسے کسی سیٹ اپ کو قبول نہیں کرے گی۔
تاہم وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ موجودہ حکومت ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھا رہی اور اس قسم کی تمام تر باتیں بے بنیاد ہیں۔
ادھر فواد چوہدری یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’ٹیکنوکریٹ نظام کی آئین میں بھی اجازت نہیں۔ اس لیے اس کے بننے کی کوئی دلیل نہیں۔‘
ٹیکنوکریٹ حکومت ہوتی کیا ہے؟
دراصل ٹیکنوکریٹ حکومت میں سیاستدانوں کے بجائے ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنے شعبے کے ماہر ہوتے ہیں اور باقاعدہ طور پر انتخابات لڑ کر نہیں آتے۔
مثال کے طور پر اس نظام میں وزیرِ خزانہ ایسے شخص کو بنایا جا سکتا ہے جو ماہرِ معاشیات ہو اور بین الاقوامی ادارے جیسے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت کرنے کا اہل ہویا ان کی حکمتِ عملی کو سمجھتا ہو۔
دوسری جانب ایسے نظام کو لانے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب یا تو کسی ملک میں پارلیمان پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہو یا پھر عام انتخابات کروانے میں وقت درکار ہو اور اس مختصر دورانیے میں حکومت بھی چلانی ہو۔
ایسی صورتحال میں مختلف شعبوں سے ماہرین کو لایا جاتا ہے اور کچھ عرصے کے لیے سیاسی یا معاشی مسائل کے حل کے لیے حکومت ان کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔
’آئین پاکستان میں ایسے کسی نظام کو تسلیم نہیں کیا جاتا‘
اس بارے میں بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان کے آئین میں تو ایسے کسی نظام کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ہاں اگر مارشل لا لگا کر آئین شکنی کی جائے تب ایسا نظام آ سکتا ہے۔‘
بہت سے لوگ پاکستان میں سابق جنرل ایوب خان کے دور کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دور میں ٹیکنوکریٹ نظام بہت ’پائیدار‘ رہا لیکن تاریخ پر نظر رکھنے والے اس کے برعکس بتاتے ہیں۔
جنرل ایوب کے دور کے بارے میں ڈان اخبار کے کالم نگار عباس ناصر لکھتے ہیں کہ ’یہ وہ ہی دور تھا جب ملک کی معیشت کا ایک بڑا حصہ نام نہاد 22 خاندانوں کے ہاتھوں میں آ گیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان کا ایک بڑا طبقہ معاشی محرومیوں کا شکار ہونا شروع ہوا۔‘
بیرسٹر صلاح الدین بھی کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے دور میں ٹیکنوکریٹ نظام کے تحت حکومت چلانے کے کوئی خیر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔
اس کی بڑی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنوکریٹ یا بیوروکریٹ پارلیمان کو جوابدہ نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ایوب خان کے دور کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کے سیاسی و معاشی نتائج ’سمجھنے والوں کے سامنے ہیں۔‘
’سب سے اہم بات یہ کہ آپ سیاسی مسائل کو بند کمرے میں بیٹھ کر نہیں سلجھا سکتے۔ اگر ایسا ہو سکتا تو ایوب خان کے دور کے آخر میں مشرقی پاکستان کا کوئی حل نکلتا لیکن الٹ ہو گیا اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں پنپنے والی سیاسی و معاشی بے چینی ایوب دور سے شروع ہوئی تھی۔
’اس کا نتیجہ یہی نکلا کہ لوگ جب کھلے عام احتجاج نہیں کر سکے اور اپنے بنیادی و سیاسی حقوق نہیں حاصل کر سکے تو انھوں نے پاکستان سے علیحدہ ہونے کو ہی بہتر سمجھا۔‘
انھوں نے کہا کہ لوگوں کو سیاسی طور پر شامل کیے بغیر معاملات کا حل نہیں نکل سکتا ’اور اس نظام کو لانے کی بات اگر آج کے سیاسی طور پر گرم ماحول میں بھی کی جا رہی ہے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔‘