Site icon DUNYA PAKISTAN

’ہیموفیلیا‘ کے علاج کے لیے جین تھراپی کا کامیاب تجربہ

Share

خون کی موروثی بیماری ’ہیموفیلیا‘ کے علاج کے لیے امریکی دوا ساز کمپنی ’فائزر‘ کی جانب سے تیار کردہ جین تھراپی کے علاج کی آزمائش کے کامیاب نتائج کے بعد ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ مذکورہ طریقہ کار جلد اور سستے علاج کا سبب بنے گا۔

’ہیموفیلیا‘ خون کی ایک موروثی بیماری ہے جو عام طور پر والد یا اس سے پہلے کے آباؤ و اجداد سے نئی نسل میں منتقل ہوتی ہے۔

عام طور پر مذکورہ بیماری خواتین کو متاثر نہیں کرتی، تاہم اگر کسی خاتون کے والد اس مرض کا شکار ہوں تو اس خاتون کے بچے بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

اس بیماری کے شکار افراد کے خون میں (Factor IX) نامی کیمیکل کی کمی ہوتی ہے، جس وجہ سے انہیں بلڈ کلاٹنگ کا مسئلہ رہتا ہے اور ان کے جسم سے خون بہنے لگتا ہے۔

خون بہنے والے مرض کو ’ہیموفیلیا بی‘ کہتے ہیں جب کہ اس بیماری کی دوسری قسمیں بھی ہیں۔

ابھی تک دنیا بھر میں اس کے شکار مریضوں کو ہر دوسرے یا تیسرے دن (Factor IX) نامی کیمیکل سے لیس انجکشن لگوانے پڑتے ہیں، جن سے ان کے جگر کو تقویت ملتی ہے اور عارضی طور پر انہیں بلڈ کلاٹنگ سے نجات ملتی ہے۔

اس بیماری کے شکار افراد کو زندگی بھر انجکشن لگوانے پڑتے ہیں اور انہیں اس کی پابندی کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے، جس وجہ سے وہ آزاد زندگی نہیں گزار سکتے۔

تاہم اب امریکی کمپنی ’فائزر‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی تھراپی کی آزمائش کے نتائج حوصلہ کن آئے ہیں، جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ مذکورہ طریقہ سستا اور معیاری ہوگا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق فائزر کی جانب سے ’جین تھراپی‘ کے تیسرے اور اہم ٹرائل کے نتائج میں بتایا گیا کہ مریض کو صرف ایک بار علاج کروانے سے ہی فائدہ ملتا ہے اور اس کا جسم خود خون بنانا شروع کردیتا ہے۔

جین تھراپی کے طریقے کے تحت مریض کے جسم میں ایسی ادویات داخل کی جاتی ہیں جو کہ خراب یا تبدیل ہوجانے والے جینز کو بہتر بنانے کا کام کرتی ہیں۔

اس طریقہ علاج کے تحت انجکشن کے ذریعے مریض کے جسم میں ویکٹر کی مدد سے ادویات اس مقام تک پہنچائی جاتی ہیں جو بیماری یا وائرس سے متاثر ہوتا ہے۔

ویکٹر کا نظام ایک طرح سے گاڑی یا راستہ دکھانے کا کردار ادا کرتا ہے اور مریض کے جسم میں داخل کی گئی دوا کو اس جگہ پہنچاتا ہے، جہاں وائرس یا بیماری موجود ہوتی ہے۔

فائزر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مذکورہ طریقہ کار کے تحت مریض کو صرف ایک بار علاج کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے بعد انسانی جسم خود بخود خون میں (Factor IX) نامی کیمیکل پیدا کرنا شروع کردیتا ہے۔

خون میں موجود (Factor IX) نامی کیمیکل کی کمی ہی ہیموفیلیا کا سبب بنتی ہے اور انسانی جسم سے خون بہنا شروع کردیتا ہے مگر نئے طریقہ علاج کے تحت مذکورہ کیمیکل انسان خود ہی بنانا شروع کردے گا۔

اب تک فیوژن انجکشن یا ڈرپس کے ذریعے ہیموفیلیا کے مریضوں کو (Factor IX) کیمیکل دیا جاتا رہا ہے، تاکہ وہ خون کے بہنے سے محفوظ رہیں۔

Exit mobile version