Site icon DUNYA PAKISTAN

اسلام آباد پولیس میں 1667 آسامیاں، 32 ہزار امیدوار: اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کانسٹیبل کی نوکری کے لیے مجبور کیوں

Share

سہیل محمود ایک سرکاری محکمے میں 16 ویں گریڈ کے افسر ہیں۔ چند ماہ پہلے وہ اپنے دفتر کے باہر ایک کھلے میدان میں کرسی رکھ کر ایک ساتھی افسر کے ہمراہ بیٹھے تھے اور ان کے سامنے ایک ہزار کے قریب نوجوان تھے جو قاصد، نائب قاصد، باورچی اور خاکروب کی کل 15 آسامیوں کے ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے وہاں آئے تھے۔ 

’مجھے اپنے محکمے میں کچھ خاکروب بھرتی کرنے تھے جن کے لیے تحریری ٹیسٹ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ پاس ہونے والے امیدواروں کی ایک طویل فہرست تھی اور جب ان کے انٹرویو کا وقت آیا تو کسی کے پاس ایم فل کی ڈگری تھی اور کوئی ماسٹرز اور گریجویشن کر کے آیا تھا۔‘ 

اُنھوں نے بتایا کہ ان کے سامنے خاکروب کی نوکری کے لیے آنے والے نوجوانوں کی تعلیم خود ان کی تعلیم سے بھی زیادہ تھی اور یہ فیصلہ ان کے لیے مشکل تھا کہ وہ اس قدر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ان کی ڈگری سے کئی درجے نیچے کی ملازمت کے لیے بھرتی کریں۔  

’یہ ان کی تضحیک کے مترادف تھا۔ میں نے ان میں سے ایک سے پوچھا کہ اُنھیں اس ملازمت کے لیے ٹیسٹ دینے کی کیا ضرورت تھی، تو اُنھوں نے بتایا کہ پورا گھر چلانا ہے اور ایک روپے کی آمدن نہیں۔ بہنیں ہیں، چھوٹے بھائی ہیں جن کی تعلیم کا خرچہ ہے، باپ فیکٹری میں کام کرتا رہا ہے اور میں پچھلے ایک سال سے نوکری ڈھونڈ رہا ہوں، اس نوکری سے ہر مہینے تنخواہ تو ملے گی اور نوکری بھی سرکاری ہو گی، اور کچھ نہیں تو ماں باپ کے علاج اور دوائیوں کا خرچہ تو کم ہو گا۔ 

’میں نے کہا کہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر لو تو اس نے بتایا کہ ایک بار ایک سرکاری سکول میں کینٹین کے لیے بہت کوشش کی مگر وہاں تو بہت اوپر کی سفارش بھی چاہیے اور کمیشن کے نام پر لاکھوں روپے بھی۔ میرے پاس اتنے پیسے ہوتے تو پاکستان سے باہر چلا جاتا۔‘ 

سہیل محمود کے مطابق اُنھوں نے ان میں سے دو گریجویٹس کے نام خاکروب کے بجائے قاصد اور نائب قاصد کے عہدے پر نوکری کے لیے تجویز کر دیے۔

ملک میں جاری بے روزگاری اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ملازمت کے حصول میں مشکل کی بحث اتوار سے سوشل میڈیا پر جاری ہے اور اس کی وجہ اسلام آباد پولیس میں بھرتیوں کے لیے آنے والے ہزاروں نوجوانوں کی ایک ویڈیو ہے۔ 

اس ویڈیو میں اسلام آباد کے سپورٹس کمپلیکس میں تقریباً 32 ہزار افراد تحریری امتحان کے لیے جمع ہوئے۔ یہ درخواست گزار اسلام آباد پولیس میں کئی برسوں بعد اعلان کی گئی بھرتیوں کے لیے آئے تھے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہار کے مطابق اسلام آباد پولیس میں گریڈ سات کی کانسٹیبل کے درجے پر 1667 آسامیوں کے لیے امیدواروں سے ٹیسٹ لیا گیا۔ 

اسلام آباد پولیس نے اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اتنے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کا انعقاد کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے ٹویٹ کی کہ ’اسلام آباد کیپیٹل پولیس میں پاکستان کا سب سے بڑا کانسٹیبلان کی بھرتی کا عمل جاری ہے‘۔ 

اُنھوں نے ٹویٹ میں یہ بھی کہا۔ کہ یہ بھرتیاں گذشتہ پانچ سالوں سے نفری کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ 

سپورٹس کمپلیکس میں تحریری ٹیسٹ کی ویڈیوز کئی دیگر ٹوئٹر صارفین نے بھی شیئر کیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سٹیڈیم کی تمام کرسیوں پر امیدوار بیٹھے ہیں جبکہ کرسیاں کم ہونے کی وجہ سے سینکڑوں امیدوار زمین پر بیٹھے ٹیسٹ دے رہے ہیں۔ 

اس ویڈیو میں سپیکر کے ذریعے ایک پولیس اہلکار امیدواروں کو خاموش رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ 

اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان آسامیوں کے لیے کل ایک لاکھ 41 ہزار شہریوں نے درخواستیں جمع کروائی تھیں جن میں سے 32 ہزار شارٹ لسٹ کیے گئے۔ شارٹ لسٹنگ کے بعد ان کا فزیکل ٹیسٹ ہوا اور پھر ان کا تحریری ٹیسٹ لیا گیا۔ اگلے مرحلے میں ان کے انٹرویوز کیے جائیں گے جس کے بعد فائنل ہونے والے امیدواروں کا میڈیکل ٹیسٹ ہو گا۔ 

ترجمان کے مطابق یہ تمام عمل اسی ماہ مکمل کیا جائے گا اور اتنی بڑی تعداد میں تحریری ٹیسٹ چیک کرنے کے لیے پہلے ہی ٹیمیں تشکیل دی جا چکی ہیں۔ 

ترجمان کے مطابق اس آسامی کے لیے درکار تعلیمی قابلیت تو میٹرک تھی تاہم ایک بہت بڑی تعداد ایسے درخواست گزاروں کی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ 

ملک میں ایسے نوجوان لاکھوں میں ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے بعد متعدد سرکاری اداروں میں نوکریاں ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں زیادہ بڑی تعداد ان افراد کی ہے جن کے پاس اعلیٰ تعلیم ہونے کے باوجود متعلقہ شعبے میں کام کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور یوں وہ بے روزگاری سے لڑتے ہوئے سرکاری محکموں میں ان آسامیوں کے لیے درخواستیں جمع کروانے پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کی ڈگری سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتیں اور درجن بھر آسامیوں کے لیے سینکڑوں ہزاروں درخواستیں وصول ہوتی ہیں۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے یہ ویڈیو ایک بڑے ٹیسٹ کے کامیاب انعقاد پر بظاہر ستائش حاصل کرنے کی غرض سے شیئر کی گئی مگر ٹویٹر پر صارفین نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ کئی صارفین ملک میں جاری معاشی عدم استحکام، مہنگائی اور غربت، نوکریوں اور نئے مواقع کے فقدان کا حوالہ دیتے اور حکومتوں پر تنقید کرتے نظر آئے۔ 

ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں گذشتہ برس بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا اور یہ اس وقت چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکانومکس کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 2021 میں 31 فیصد سے زائد نوجوان طبقہ بے روزگار ہے۔ ان میں سے 51 فیصد خواتین اور 16 فیصد مرد ہیں۔ ملک بھر میں گریجویٹ یا انڈر گریجویٹ خواتین میں سے 40 فیصد کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے جبکہ 2020 میں ملک میں 134 لوگوں نے بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کی۔ 

سوشل میڈیا پر اس موضوع پر بحث کرنے والوں میں کئی ایسے بھی ہیں جو سرکاری نوکریوں کے پیچھے بھاگنے کے اس رجحان کی نفی کر رہے ہیں۔ وہ اس سوچ کی مخالفت کرتے ہیں کہ نوکری ہی روزی کمانے کا واحد، محفوظ اور کامیاب ذریعہ ہے۔ 

محمد حسن نے لکھا کہ ’یہ اس لیے کیونکہ کسی نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ روزی کمانے کے سرکاری نوکری کے علاوہ بھی بہت سے طریقے ہیں۔‘ 

اسی طرح اسلام آباد کے سابق ڈپٹی کمشنر اور بلوچستان کے موجودہ سیکریٹری انفارمیشن حمزہ شفقات نے لکھا کہ ’اگر پرائیویٹ کاروبار کا پھلنا پھولنا بند ہو گا تو دباؤ پبلک سیکٹر پر پڑتا رہے گا۔ ملک میں سرکاری ملازمتوں میں 96 فیصد افراد نان آفیسر کیٹیگری کے ہیں، اس تعداد میں کمی کی ضرورت ہے۔‘

ایک اور صارف سہیل خان نے لکھا کہ ’سرکاری نوکریاں ہی سب کچھ نہیں ہیں اور نہ ہی سرکار ہر کسی کو ایکوموڈیٹ کر سکتی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اینٹرپرینیورشپ ہی لوگوں کے معاشی عدم استحکام کا حتمی حل ہے۔ اینٹرپرینیورز کی مدد کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔‘ 

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے ایک سرکاری افسر نے کہا کہ یوں تو ہر سرکاری نوکری کی جانب لوگ بھاگے چلے آتے ہیں مگر پولیس اور خاص طور پر اسلام آباد پولیس میں بھرتی ہونے کا رجحان اب بہت بڑھ گیا ہے، ’پولیس میں آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ استحصال کا شکار طبقے سے نکل آئیں گے اور پولیس کی نوکری کی صورت میں اُنھیں معاشرے میں طاقت حاصل ہوگی۔ 

’اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان اداروں کے ہاتھوں عام شہریوں کا کس قدر استحصال ہوتا ہے چاہے ناکوں اور چوکیوں پر ہو یا تھانوں اور جیل خانوں میں۔ جبکہ اسلام آباد پولیس میں بھرتی ہونے کی وجہ یہاں تنخواہوں اور مراعات کا زیادہ ہونا ہے۔‘ 

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ’حکومت کی ناقص پالیسیوں‘ کی وجہ سے ملک میں کاروبار ایک نہایت مشکل کام ہو گیا ہے۔ ’آپ نے دکان ڈالنی ہے، ریڑھی لگانی ہے یا کوئی بھی ذاتی کاروبار شروع کرنا ہے تو آپ کو 50 محکموں سے این او سی لانا ہوگا‘۔ 

خیال رہے کہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان ’ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس‘ یعنی کاروبار میں آسانی کی عالمی انڈیکس میں 108 ویں نمبر پر ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں اس پوزیشن میں قدرے بہتری آئی ہے مگر ماہرین کے مطابق حکومت کو ایسی پالیسیاں متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو کاروباری افراد کے لیے دوستانہ ہوں۔ 

،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ان اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ’دارالحکومت میں کسی جگہ ٹھیلا، ریڑھی لگانی ہے تو بڑی سے بڑی سفارش لائیں اور درجنوں این او سی بھی لے کر آئیں، کہیں دکان ڈالنی ہے تو وزیرِ اعلیٰ کی سطح کی سفارش لانی پڑے گی، کبھی آپ کے پاس لیبر والے آ جائیں گے، کبھی ایف بی آر والے اور کبھی بھتہ لینے والے۔ ایسے حالات میں کون اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ 

’اس کے بعد یہاں باہر کے لوگوں یا اداروں کی انویسٹمنٹ بھی ختم ہو رہی ہے یعنی پالیسیاں اتنی کم دوست ہیں کہ کوئی بھی یہاں کاروبار نہیں کرنا چاہتا، ہونا تو یہ چاہیے کہ بڑی کمپنیوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ یہاں کاروبار ہو اور لوگوں کے لیے پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتیں پیدا ہو سکیں اور سرکاری نوکریوں پر بوجھ کم ہو۔ مگر ایسا کچھ نہیں کیا جا رہا۔‘ 

ان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ آج انتہائی قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ میٹرک پاس کانسٹیبل کی پوسٹ یا خاکروب کے طور پر بھی سرکاری نوکری قبول کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ 

خیال رہے کہ گذشتہ کچھ برسوں میں کاروبار کرنے کے حوالے سے کچھ بہتری ہوئی ہے وہ اس لیے بھی کہ ایس ای سی پی اور ایف بی آر کی بہت سے سروسز آن لائن کر دی گئی ہیں۔ 

مثلاً اب کمپنیاں ایک ہی دن میں ان اداروں کی ویب سائٹس کے ذریعے رجسٹر ہو جاتی ہیں اور ان کا ڈیٹا لیبر محکمہ، سوشل سکیورٹی محکموں اور ای او بی آئی کو بھیج دیا جاتا ہے۔ تعمیر کے لیے اجازت نامہ اب 108 سے 134 دنوں میں مل جاتا ہے جو پہلے تقریباً نو ماہ میں دیا جاتا تھا۔ اسی طرح کمرشل پراپرٹی کی رجسٹریشن بھی قدرے جلد ہو جاتی ہے۔ اسی طرح آن لائن ادائیگیوں اور ٹیکسز کا نظام بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ 

تاہم ماہرین سمجھتے ہیں کہ ملک کی یونیورسٹیوں اور ٹیکنیکل تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کے لیے بہتر ذریعہ معاش کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ بحث بھی جاری ہے کہ بے روزگاری کی یہ لہر صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کئی ملک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ 

اسلام آباد میں کانسٹیبل کی نوکری کے لیے ٹیسٹ دیتے نوجوانوں کی ویڈیو دیکھ کر نائجیریا سے تعلق رکھنے والے ٹوئٹر صارف تایو براون نے لکھا کہ ’ویڈیو کے یہ مناظر کچھ دیکھے دیکھے لگ رہے ہیں‘۔ جبکہ کارائے نامی صارف نے کہا کہ ’میں سمجھتا تھا ایسا صرف نائیجیریا میں ہی ہوتا ہے‘۔ 

اسی طرح انڈیا سے ایڈووکیٹ وشال گدھاوے نے لکھا کہ ’یہ ایک خوفناک صورتحال ہے۔ حتی کہ انڈیا میں یہ صورتحال پاکستان کی نسبت بدتر ہے۔ آٹھ سالوں میں 22 کروڑ لوگوں نے نوکریوں کے لیے درخواستیں دیں اور صرف سات لاکھ 22 ہزار افراد کو نوکریاں ملیں۔‘

Exit mobile version