آج کل انٹرنیٹ کے نہاں خانوں میں ایک معجزاتی آلے کا بہت چرچا ہے، طلسماتی توانائی سے لیس ایک ایسا آلہ جو بعض دعوؤں کے مطابق بہت سی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے، حتی کہ ان امراض کو بھی ختم کر سکتا ہے جن کے بارے میں آپ صرف سوچ سکتے ہیں۔
اس میڈیکل بیڈ (میڈ بیڈ) یا ’طبی بستر‘ کی شہرت اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ کچھ کمپنیاں یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے اپنے صارفین سے ہزاروں ڈالر وصول کر رہی ہیں، لیکن میڈ بیڈز کے بارے میں جو دعوے کیے جا رہے ہیں ان میں سچائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ میڈ بیڈز واقعی کوئی ایسی ٹیکنالوجی ہے جو دنیا کو بدل کے رکھ سکتی ہے، تو آپ کو یہ بات عجیب لگتی ہے کہ اس کا مرکز امریکہ کے دریائے مسیسپی کے کنارے ایک چھوٹے سے قصبے کا ایک سفری ہوٹل یا موٹل ہوگا۔ اس موٹل کے سنسان استقبالیہ میں رکھے ہوئے ایک میز پر پڑے اشتہار پہ لکھا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی ’سائسنی علاج کی دنیا میں ایک نئی لہر‘ سے کم نہیں۔
لیکن اس میں بھی کلام نہیں کہ اس انقلابی طریقۂ علاج کا دعوے کرنے والوں نے شکاگو سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ریاست الینائے کے قصبے ایسٹ ڈیبیوک کے اس موٹل میں ایسے طبی آلات نصب کر رکھے ہیں جن سے ان کے بقول ’زندگی کی توانائی سے بھرپور‘ ایسی لہریں نکلتی ہیں جو تمام مریضوں کو شفا بخشتی ہیں۔ اس موٹل میں نئے آلات گزشتہ برس موسم گرما میں نصب کیے گئے تھے اور انٹرنیٹ پر بہت سے لوگ ان سہولیات کے گن گا رہے ہیں، تاہم یہ وہ واحد عمارت نہیں ہے جہاں ’ٹیسلا بائیو ہیلِنگ‘ نامی کمپنی نے میڈ بیڈز لگائے ہیں بلکہ امریکہ میں کئی دیگر مقامات پر یہ سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ اس کمپنی کا بجلی والی گاڑیاں بنانے والی مشہور کمپنی ’ٹیسلا‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں ایک سہہ پہر میں بھی مذکورہ موٹل میں گیا تاکہ دیکھ سکوں کہ یہ ماجرا ہے کیا۔ وہاں موجود ایک خاتون ڈاکٹر نے علیک سلیک کے بعد مجھے اپنا ہاتھ ایک آہنی ڈبے میں رکھنے کو کہا تاکہ دیکھا جائے کہ میرے جسم میں اس وقت کتنی توانائی ہے۔
اس کے بعد مجھے ایک کمرے میں لیجایا گیا جو مجھے موٹل کے پرانے کمروں جیسا ہی دکھائی دیا کیونکہ مجھے اس میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ مجھے بتایا گیا کہ تھوڑی ہی دیر میں ’بائیو فوٹان کی شکل میں زندگی کی طاقت سے بھرپور توانائی‘ میرے جسم میں داخل کر دی جائے گی۔
گزشتہ کچھ عرصے سے میڈیکل بیڈز‘ یا ’میڈیٹیشن بیڈز‘ (مراقبے والا بستر) کا خیال خاصا مقبول ہو رہا ہے، خاص طور پر کچھ غیر معروف میڈیکل ٹی وی چینلز کے علاوہ سوشل میڈیا پر کئی لوگ اس نئے طریقہ علاج کی تعریفیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
لیکن یہ طریقہ علاج ہے کیا، اس حوالے سے مختلف لوگوں کی اپنی اپنی رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ایک راز ہے جس تک عام لوگوں کو رسائی حاصل ہونے کے امکانات کم ہیں۔ نہ صرف یہ کہ دنیا کے ارب پتی لوگوں نے اس جدید ٹیکنالوجی کو عام لوگوں کی نظروں سے دور رکھا ہوا بلکہ اس کے پیچھے خفیہ ریاستی اداروں یا ڈیپ سٹیٹ کا ہاتھ ہے۔ سازشی نظریات کے ماننے والے کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کسی دوسری خلائی مخلوق سے لی گئی ہے اور قاتلانہ حملے میں مارے جانے والے مشہور امریکی صدر جان ایف کینیڈی ابھی تک زندہ ہیں اورانھیں کسی مقام پر ’میڈ بیڈ‘ پر باندھ کے رکھا ہوا ہے جہاں انھیں طلسماتی توانائی فراہم کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میڈ بیڈز کے پیچھے کوئی سازش نہیں ہے بلکہ یہ سہولت عام لوگوں کو بھی دستیاب ہے اور فرق صرف اتنا ہے کہ عام ڈاکٹر اس کے بارے میں بات نہیں کرتے۔
ٹیسلا بائیو ہیلِنگ اور اس قسم کی بے شمار کمپنیوں اپنے صارفین کو یہ سہولت فراہم کر رہی ہیں اور خوب پیسے بٹور رہی ہیں۔ مثلاً ٹیسلا بائیو ہیلِنگ والے 20 ہزار ڈالر میں ایسے جنریٹر فروخت کر رہے ہیں جنھیں آپ گھر میں لگا کر ’ زندگی کی طاقت سے بھرپور توانائی‘ حاصل کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ ان کے کسی موٹل میں جا کر یہ سہولت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہاں آپ کو یہ توانائی 160 ڈالر فی گھنٹہ میں ملے گی۔
لیکن وہ صارفین جو سازشی نظریات کو نہیں مانتے اور میڈ بیڈز کو صرف ایک نئی طبی ٹیکنالوجی سمجھتے ہیں، ان میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی آخر ہے کیا۔ سازشی نظریات اور غلط معلومات کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ایک مرکز سے منسلک تجزیہ کار، سارا انائنو کہتی ہیں لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوال بے وجہ نہیں ہیں۔
کیونکہ ’ ایک چیز جس کا کوئی وجود ہی نہیں، اس کو بیان کرنا بہت مشکل کام ہے۔‘
سارا انائنو گزشتہ کچھ عرصے سے انٹرنیٹ پر میڈ بیڈز کے حوالے سے ہونے والی باتوں پر تحقیق کر رہی ہیں، خاص طور پر میڈ بیڈز بنانے والی ایک کمپنی ’نائٹی ڈان ٹین‘ کی مصنوعات پر۔
وہ کہتی ہیں کہ جب مذکورہ کمپنی یہ کہتی ہے کہ ہمارے میڈ بیڈ کو آزما کے دیکھ لیں تو اصل میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ’بس آپ بستر پر لیٹ جائیں اور میڈ بیڈ کے بارے میں سوچتے رہیں۔‘
جہاں تک اس کمپنی کا تعلق ہے تو اگر آپ ان کی ویب سائیٹ پر جائیں تو جہاں وہ اپنی اس ٹیکنالوجی کے حق میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، وہاں نہایت چھوٹے حروف میں انھوں نے یہ بھی لکھ رکھا ہے کہ میڈ بیڈز کا مقصد کسی مرض کی تشخیص یا علاج نہیں ہے۔
سارا کی اس بات کے بعد جب ہم نے میڈ بیڈز فروخت کرنے والی مختلف کمپنیوں کی ویب سائیٹس کا بغور جائزہ لیا تو ہمیں ہر کمپنی کے ہاں کسی نہ کسی شکل میں ایسا ہی ’ڈِس کلیمر‘ ضرور دکھائی دیا۔
ان کمپنیوں کی ویب سائیٹس پر ایسے امراض کی ایک طویل فہرست دی ہوتی ہے جن کے بارے ان کا دعوے ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی سے ان بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپنیاں یہ بھی بتاتی ہیں کہ ان کے کتنے صارفین اس ٹیکنالوجی سے صحت مند ہو چکے ہیں، تاہم کپمنیاں یہ ضرور کہتی ہیں کہ ان کی ٹیکنالوجی کسی مستند ڈاکٹر سے علاج کا بدل نہیں ہو سکتی۔
باقی کمپنیوں کی طرح ٹیسلا بائیو ہیلِنگ کا بھی یہی کہنا ہے۔ ان کی ویب سائیٹ پر سب سے اوپر لکھا ہے کہ ’ہم نہ تو کسی مرض کی تشخیص کر سکتے ہیں، نہ علاج اور نہ ہی کسی بیماری کو ہونے سے روک سکتے ہیں۔‘
لیکن اس کے باوجود اگر آپ اس کمپنی کی اشتہاری مہم کو دیکھیں تو اس میں صاف لکھا ہے کہ ’بہت سے افراد کا کہنا ہے کہ انھیں ہمارے ٹیسلا میڈ بیڈ پر لیٹنے کے محض ایک گھنٹے بعد ہی محسوس ہو گیا کہ ان کی صحت بہتر ہو گئی ہے اور وہ اچھا محسوس کرنے لگے۔
میں جب ایسٹ ڈیبیوک میں کمپنی کے موٹل میں گیا تھا تو وہاں پر موجود عملے کے لوگوں نے بھی مجھے یہی بتایا کہ ان کے ہاں کئی ایسے مریض صحتیاب ہوئے ہیں جن کو طرح طرح کی بیماریاں تھیں۔ عملے کے بقول ان تمام لوگوں کو میڈ بیڈز کے استعمال سے بہت فائدہ ہوا۔
لیکن جب میں خود اس موٹل کے کمرے میں میڈ بیڈ پر لیٹے ہوئے، کھڑکی سے باہر کار پارکنگ کی طرف دیکھ رہا تھا تو تجسس اور ہلکی سی بے چینی کے سوا مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا۔
میں وہاں بمشکل ایک گھنٹہ بھی نہیں لیٹا اور واپس ڈاکٹر کے کمرے میں آ گیا۔ وہاں موجود خاتون ڈاکٹر نے ایک مرتبہ پھر آہنی ڈبے میں میری انگلیاں رکھوا کر میرا ٹیسٹ کیا۔ جب ڈاکٹر نے یہ کہا کہ انھیں لیپ ٹاپ کی سکرین پر صاف نظر آ رہا ہے کہ میرے اندر توانائی میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، تو یقین مانیں مجھے یہ سن کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
لیکن نہ تو مذکورہ ڈاکٹر اور نہ ہی کمپنی کے کسی اور ملازم نے مجھے یہ بتایا کہ اس آہنی ڈبے کے اندر کیا تھا؟
لیکن شاید تمام لوگ مجھ جیسے نہیں ہوتے۔
مجھے جلد ہی ٹِک ٹاک پر ایک ویڈیو مل گئی جو میڈ بیڈ استعمال کرنے والی کسی خاتون نے لگائی تھی۔ خاتون نے اپنی ویڈیو میں دکھایا کہ جب انھوں نے بہت کوشش کے بعد آہنی ڈبے کو کھولا تو اس کے اندر کنکریٹ جیسے مادے کے علاوہ کچھ اور نہیں ملا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی شخص ٹیسلا بائیو ہیلرز کا میڈ بیڈ خریدنے کا سوچ رہا ہے تو اس کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ اپنے پیسے ضائع نہ کرے۔‘
جب ہم نے کمپنی سے پوچھا کہ اس ڈبے میں کنکریٹ کے علاوہ ایسی کیا چیز ہے جس سے توانائی نکلتی ہے، تو ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھا کہ ’ہماری ٹیکنالوجی میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں۔‘
اگرچہ کمپنی والے کہتے ہیں کہ ان کے (نہ نظر آنے والی توانائی) کے کنستر کسی مستند ڈاکٹر کا بدل نہیں ہیں، لیکن وہ اپنے اس دعوے پر قائم ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے ’فوائد انمول ہیں۔‘
جب ہم نے ٹیسلا بائیو ہیلِنگ اور نائٹی ڈاٹ ٹین سے پوچھا کہ ان کے پاس کیا ثبوت ہے کہ میڈ بیڈز سے واقعی کوئی ایسی توانائی نکلتی ہے جس سے مریض صحتیاب ہو جاتا ہے تو دونوں کمپنیاں ہمیں اپنے صارفین کے تعریفی تبصرے دکھاتی رہیں۔
نائٹی ڈاٹ ٹین کی ویب سائیٹ پر جلی حروف میں موجود اس دعوے کے باوجود کہ وہ ’کوانٹم فریکؤنسی والی تصدیق شدہ دوا فراہم کر رہے ہیں‘۔ کمپنی کے سربراہ اولیور شیکلے نے ہمیں بتایا کہ ’یہ کوئی دوا نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے کبھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم کوئی دوا فروخت کرتے ہیں۔‘
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنی مصنوعات کے معجزانہ اثرات کا دعویٰ کرنے والی وہ میڈ بیڈز کمپنیاں جو یوں سرعام کاروبار کر رہی ہیں، ابھی تک نگران اداروں کی نظروں سے کیسے اوجھل ہو سکتی ہیں؟
بغیر ثبوت کے اپنی مصنوعات کے بارے میں بلند وبانگ دعوے کرنے والی کمپنیوں پر تحقیق کرنے والے ایک ڈاکٹر اور دماغی امراض کے ماہر، ڈاکٹر سٹیون بیرٹ کہتے ہیں کہ اس کا کسی حد تک امریکہ کا ادویات کا نگران ادارہ بھی قصور وار ہے۔
ٹیسلا بائیوہیلِنگ اور اس جیسی دیگر کمپنیاں اپنے اشتہاروں میں کہتی ہیں کہ وہ فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، لیکن حقیقت میں ان کا یہ دعویٰ بالکل بے معنی ہے۔
ڈاکٹر بیرٹ کے بقول ’ایف ڈی اے کی رجسٹریشن میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہوتا کہ فلاں آلہ مفید ہے یا نہیں۔ اگر کوئی کمپنی یہ کہتی ہے کہ ان کی مصنوعات استعمال کرنے سے آپ کی توانائی میں اضافہ ہو جاتا ہے، تو ایسے دعوؤں کے حوالے سے سرکاری حکام ’کچھ بھی نہیں کرتے۔‘
’کیا میں یہ سمجھتا ہوں کہ میڈ بیڈز میں لٹا کر یہ لوگ آپ کو جو چیز دیتے ہیں اس سے جسم میں توانائی آ جاتی ہے تو میرا جواب یہی ہوگا کہ مجھے بہت شک ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر بیرٹ کی بات بالکل درست ہے کیونکہ جب میں اس ابر آلود سہ پہر کو ایسٹ ڈیبیوک کے موٹل سے نام نہاد توانائی کی خوراک لینے کے بعد کار میں واپس گھر آ رہا تھا تو مجھے اپنے اندر توانائی میں اضافے کی بجائے ’زندگی بخش توانائی‘ کی واضح کمی محسوس ہو رہی تھی۔