منتخب تحریریں

24 کروڑ کردار مصنف کی تلاش میں

Share

سویرے کے جھٹپٹے میں سفر آغاز کیا تو گفتہ غالب توشہ آرزو تھا۔ ’کہ جاگنے کو ملا دیوے آ کے خواب کے ساتھ‘۔ اب شام اس طور ہو رہی ہے کہ میر کی حیرت بار دوش ہے، ’جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں‘۔ گزرے برس کی آخری رات رائیگانی اور خسارے کی بے قراری سے عبارت تھی۔ سرسید احمد خان کی نثر کا ایک ٹکڑا خدا معلوم کہاں سے یاد آ گیا۔ ’برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات ڈرائونی اور اندھیری ہے۔ گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے۔ دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے۔‘چار صدی پہلے کے برطانیہ سے ایک بھولی بسری بازگشت نے بھی دستک دی۔ 6 ؍جنوری 1601 کی رات جب الزبتھ اول نے شیکسپیئر سے کرسمس کی مناسبت سے فرمائش کر کے Epiphany Eve کے تہوار پر بارہویں رات (Twelfth Night) کی تمثیل دیکھی تھی۔ وہی معروف مکالمہ، And tell Shakespeare something more cheerful next time for Twelfth Night. اسی پیش و پس میں آنکھ جھپک گئی۔ غالباً سال نو کی کوئی مجلس تھی۔ تنویر جہاں ہمراہ تھیں مگر قریب نہیں تھیں۔ تعجب ہوا کہ اردگرد کوئی شناسا چہرہ نہیں تھا۔ خور و نوش کا سامان بھی ناآشنا تھا۔ ایک آدھ ٹکڑا اٹھایا تو محسوس ہوا کہ میٹھے قتلوں میں psychedelic سا اثر پایا جاتا ہے۔ خیال آیا کہ ’اٹھ جائیں یاں سے تو اچھا کریں‘۔

تنویر کو ساتھ لے کر باہر نکلا۔ پیچ در پیچ گلیوں کا ایک سلسلہ تھا۔ نیم تاریک راستوں پر جہاں رک کر منزل کا پتہ پوچھا، یہی بتایا گیا کہ ابھی اسی کوچے میں ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تھا۔ دائروں کے اس لامنتہی سفر میں عجیب وحشت طاری ہوئی۔ آنکھ کھل گئی۔ کھڑکی کی طرف دیکھا۔ نئے سال کی پہلی روشنی نمودار ہو رہی تھی۔ دوبارہ نیند آنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ چٹختی ہڈیوں اور کچلے ہوئے اعصاب کو سمیٹا اور ’بجھتے جگوں کی راکھ میں لت پت‘ بستر سے نکل آیا۔ اتوار تھا اور کالم لکھنے کی ذمہ داری۔ مگر گزرے برس کی زیاں کاری کے خدوخال ایسے سنگین تھے کہ انہیں کس طور قابل فہم بیان میں ڈھالا جائے۔ خواب میں دیکھی پریشاں حال بستی سے تو بیدار ہوا جا سکتاہے۔ پون صدی کے اس کابوس کی کیا تعبیر کی جائے جہاں امیر علی ٹھگ اپنے کارندوں سمیت ہر رات یلغار کرتا ہے۔ ہر صبح گزشتہ شب کی حکایت بیان کی جاتی ہے مگر شب آئندہ کی پیش بندی نہیں کی جاتی۔ شہر پناہ کے دمدموں پر پہرہ نہیں بٹھایا جاتا۔ لٹنے والوں کی دادرسی نہیں کی جاتی۔ لوٹنے والوں کا احتساب نہیں ہوتا۔ سو فیصلہ ہوا کہ سیدی حیدر تقی سے معذرت کر لی جائے کہ آج کالم نہیں لکھا جا سکے گا۔ آج لوح خوناب ہے اور قلم گنگ۔

اب نئے برس کا غلغلہ برج سکون میں ہے۔ کچھ بات کرتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ میں اٹلی کو شکست تو نہیں ہوئی لیکن کامیابی کے ہدف بھی حاصل نہیں ہو سکے۔ الٹا جنگ کی تباہ کاری، معاشی بدحالی اور سماجی انتشار نے مسولینی کے فاشزم کو راستہ دے دیا۔ اس پس منظر میں اطالوی تمثیل نگار لیوگی پراندیلو (Luigi Pirandello) نے 1921 میں ایک کھیل لکھا۔ عنوان تھا Six Characters in Search of an Author۔ یہ کھیل بیک وقت ابسرڈ ڈرامے اور Metatheatre (ماورائے تمثیل) رجحانات کا نقیب سمجھا جاتا ہے۔ اسٹیج پر ایک ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی ہے۔ اچانک چھ اجنبی اسٹیج پر چڑھ آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہم دراصل چھ کردار ہیں جنہیں ان کے مصنف نے ادھورا چھوڑ دیا ہے۔

ہدایت کار اس بلائے ناگہانی پر جزبز ہوتا ہے لیکن بالآخر مداخلت کار چھ کردار اصل تمثیل کی جگہ مرکزی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سوتیلے باپ نے نوجوان خاتون کی آبروریزی کی ہے اور یہ قضیہ اپنے پایہ انجام کو نہیں پہنچ سکا۔ لیوگی پراندیلو کو 1934 میں ادب کا نوبل انعام ملا تھا۔ ڈرامہ تو خیر آپ پڑھ ہی لیں گے۔ ستار طاہر نے اردو میں اس کا ایک بھدا سا ترجمہ بھی کیا تھا۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی اسٹیج پر اصل تمثیل کیا ہے۔ مداخلت کار اداکار کون ہیں۔ کس کی عزت تار تار ہوئی ہے۔ ہدایت کار اپنے اصل کھیل کی خبر لے یا ان کرداروں پر توجہ دے جنہیں ان کے مصنف نے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ لیوگی پراندیلو کا ڈرامہ لکھے جانے کے کوئی نوے برس بعد 2010 میں چلی کے ہدایت کار Matias Lira نے ’ڈرامہ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنائی تھی جسے تجرباتی فلم کی صنف میں اہم مقام حاصل ہے۔ فلم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ نامور فرانسیسی ڈرامہ نگار Antonin Artaud کے مکتب فکر سے متاثر ایک ہدایت کار نوآموز اداکاروں کو سکھا رہا ہے کہ وہ اپنی ذات میں اتر کر اپنے کردار کو خود پر طاری کریں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان اداکاروں کا یہ مختصر سا گروہ اپنے بھیتر میں موجود جرم، پستی، تشدد اور کج روی کی ناقابل تصور جہتیں دریافت کرتا ہے۔ Antonin Artaud کے تصور اداکاری سے قطع نظر، یاد رہے کہ 2010 کا چلی جنرل پنوشے کی آمریت کے مابعد اثرات سے الجھ رہا تھا۔ ہمارے لئے یہی جاننا کافی ہے کہ جمہوریت انسانی خوشیوں، مفادات، تحفظات، خواہشات اور آزادیوں کو وسیع تر مفاہمت کے ضابطے میں لانے کا نام ہے۔ قوم پر ذاتی اغراض کی بھٹی سے نکال کر ایک بنا بنایا سانچا مسلط کر دیا جائے تو اجتماعی زندگی اپنی نامیاتی نمو سے محروم ہو کر سازش، لاقانونیت، جسمانی کجروی، اجارے اور تشدد کی تمثیل میں بدل جاتی ہے۔ دیکھئے، ہم نے ملکی سیاست، آڈیو ویڈیو لیکس اور حالیہ سازشوں کے انکشافات پر کوئی بات نہیں کی اور نہ کسی ادارے کے سیاست سے لاتعلق ہونے پر رائے دی ہے۔ البتہ رحیم یار خان کے نوجوان شاعر عمیر نجمی کا ایک شعر پڑھ لیجئے۔

نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ

اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے