منتخب تحریریں

ایم کیو ایم کی بے سُود آنیاں جانیاں 

Share

مجھ سادہ لوح کو گماں تھا کہ عمران خان صاحب کی جارحانہ سیاست کے نتیجے میں گزشتہ دنوں کے دوران نمایاں ہوئی محدودات جان لینے کے بعد ہمارے ”ذہن سازوں“ نے بھی کچھ سبق سیکھ لئے ہوں گے۔ کلیدی پیغام ان محدودات کی بدولت یہ ملا ہے کہ وہ جنہیں ”مقتدر قوتیں“ کہا جاتا ہے وطن عزیز میں یقینا فیصلہ کن اثر کی حامل ہیں۔بوقت ضرورت وہ کسی سیاستدان کو یک وتنہا کرشمہ ساز تصور کرتے ہوئے اسے اقتدار بھی دلاسکتی ہیں۔اقتدار تک پہنچانے کے بعد کرشمہ ساز کی دلجوئی کافی عرصے تک جاری رکھی جاسکتی ہے۔ اقتدار مگر ”تخلیق“ میں خودمختاری کی تڑپ بھی اجاگر کرتا ہے۔یہ تڑپ ”مقتدر قوتوں“ ہی کو پریشان کردیتی ہے۔

”لاڈلوں“ کے دلوں میں فطری طورپر ابھری خودمختاری کی خواہش بالآخر جو خلفشار برپا کرتی ہے اسے ”مقتدر قوتوں“ کو ”سیاسی انجینئرنگ“ سے باز رہنے کو مائل کرنا چاہیے۔یہ خواہش مگر ”چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی“ والی علت کی صورت اختیار کرچکی ہے۔گزشتہ چند ہفتوں سے ایم کیو ایم کو ”متحد“ کرنے کی کاوشیں مذکورہ علت کا بھرپور اظہار ہیں۔

سازشی کہانیوں پر اعتبار کریں تو 1980ءکی دہائی میں پیپلز پارٹی کو اس کی اوقات میں رکھنے کے لئے جنرل ضیاءکے نورتنوں نے ایم کیو ایم کو ”ایجاد“ کیا تھا۔میں ذاتی طورپر ایم کیو ایم کا شدید ناقد رہا ہوں۔سندھ کے زمینی حالات کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے لیکن اسی جماعت کے قیام اور عروج کے اسباب کو کھلے دل سے جاننے کی کوشش بھی کی ہے۔”مہاجر شناخت“ کو اجاگر کرنے کی خواہش میری دانست میں بنگلہ دیش کے قیام کے فوری بعد فطری طورپر نمایاں ہوئی تھی۔خود کو آج بھی ”پاکستانی“ کہلانے کو مصر لاکھوں بہاری ہم مناسب انداز میں اپنے ہاں لاکر آباد نہیں کر پائے۔بنگلہ دیش نے انہیں کیمپوں میں محصور اور شہری حقوق سے محروم رکھا۔دریں اثناء”لسانی بل“ متعارف ہونے کی وجہ سے سندھ میں نسلی فسادات ابھرے۔ ریاست نے ان پر قابو تو پالیا۔”مہاجر شناخت“ کی وجہ سے ابھر ے سوالات کا مگر کماحقہ ازالہ نہ کرپائی۔سندھ میں ”شہری“ اور ”دیہی“بنیادوں پر ذہنی اور سیاسی تقسیم گہری سے گہری تر ہوتی چلی گئی۔ یہ تقسیم ایم کیو ایم کے عروج کا اصل سبب تھی۔

1988ءکے انتخابات کے بعد مذکورہ جماعت نے اپنی قوت کو بھرپور انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اپنے پہلے دور اقتدار میں اس کے روبرو کاملاََ بے بس نظر آئے۔1993ءکے بعد مگر ایم کیو ایم کی صفوں میں اختلاف ابھرنا شروع ہوگئے۔ ایم کیو ایم کے بانی ان سے گھبرا کر لندن روانہ ہوگئے۔اپنی جماعت کو مگر ریموٹ کنٹرول سے متاثر کن انداز میں زندہ اور توانا رکھا۔جنرل مشرف کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام نے اس جماعت کو مزید بااثر بنادیا۔

ہر عروج کا مگر زوال بھی ہوتا ہے۔ایم کیو ایم کی نقالی میں بتدریج کراچی میں آباد دیگر لسانی گروہ نے بھی ”ریاست کے اندر ریاست“ دکھتے کئی جزیرے بنالئے۔ اپنی رٹ بحال کرنے کو ریاست ان سب سے نبردآزما ہونے کو مجبور ہوگئی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہاجر کمیونٹی سے ابھرے نسبتاََ زیادہ پڑھے لکھے اور خوشحال نوجوان بھی ایم کیو ایم کی ”بھتہ خوری“ اور ”بوری بند لاشوں“ سے اکتانا شروع ہوگئے۔پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ انہیں اپنا نہیں پائی۔اسی دوران عمران خان صاحب بھی 2011ءکے بعد کرشمہ ساز کی صورت نمایاں ہونا شروع ہوگئے۔ ”اقتدار میں باریاں لینے والے موروثی سیاستدانوں“ کے خلاف ان کا تشکیل دیا بیانیہ ایم کیو ایم سے بیزار ہوئے طبقات میں بھی تیزی سے مقبول ہوا۔2013ءکے انتخابات کے دوران میں ایک ہفتے تک کراچی میں پیشہ وارانہ تقاضوں کی وجہ سے قیام پذیر رہا۔ 35سے 45سال کی درمیانی عمر والے کئی نوجوانوں سے ان دنوں ملاقات ہوئی جو دوبئی کے علاوہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک سے بھی فقط تحریک انصاف کے امیدواروں کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کراچی آئے تھے۔عارف علوی ایسے نوجوانوں کی وجہ سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔

2013ءکے انتخابی نتائج نے ایم کیو ایم کی قیادت کو مگر بوکھلا دیا۔ان کی بوکھلاہٹ مہاجر کمیونٹی میں طبقاتی تقسیم کا اظہار بھی تھی۔ ایم کیو ایم کی اپیل نسبتاََ نچلے متوسط طبقے تک محدود ہوتی نظر آئی۔بدلے حالات کو ایم کیو ایم کے بانی مگر تسلیم نہ کر پائے۔بالآخر انتہا پسندی کی ایسی حدوں کو چھونا شروع کردیا جنہوں نے ”مقتدر قوتوں“ کو ان سے کاملاََ بیزار بناڈالا۔ ایم کیو ایم کی صفوں میں بڑھتے انتشار اور بوکھلاہٹ کو ہماری نام نہاد مین سٹریم سیاسی جماعتوں نے سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی۔”سیاسی انجینئرنگ“ کی عادی قوتوں نے اگرچہ مصطفےٰ کمال کی قیادت میں ”پاک سرزمین پارٹی“ کو ایم کیو ایم کا متبادل بنانے کی تیاری شروع کردی۔

مذکورہ جماعت کے قیام کے پہلے دن سے میں اس کالم میں ”پاک سرزمین پارٹی“ کو ”کمال کی ہٹی“ پکارنا شروع ہوگیا تھا۔کراچی کے معروضی حقائق کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ ”ہٹی“ مجھے بارآور ثابت ہوتی محسوس ہی نہیں ہوئی۔ایم کیو ایم کی توڑپھوڑ اور اس کی صفوں میں مسلسل بڑھتے انتشار کا فقط تحریک انصاف نے 2018ءکے انتخابات کے دوران بھرپور فائدہ اٹھایا۔قومی اور سندھ اسمبلی میں بھاری بھر کم تعداد میں اپنے نامزد کردہ امیدوار بھجوادینے کے باوجود مگر عمران خان صاحب نام نہاد ”شہری سندھ“ کے لئے مو¿ثر اور قابل عمل بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہے۔اس ناکامی کے باوجود ایم کیو ایم ”متحد“ ہوجانے کے بعد بھی انتخابی میدان میں تحریک انصاف کا طاقت ور متبادل بن نہیں پائے گی۔

نام نہاد ”شہری“ سندھ اور خاص کر کراچی کا سیاسی زائچہ تیار کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ جاننے کی کوشش ہوکہ وہاں ”لسانی گروہوں“کے حوالے سے مل کر دیگر شہروں سے مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے کونسے نئے حقائق نمودار ہوئے ہیں۔مثال کے طورپر پشتو بولنے والے پشاور اور کوئٹہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں یہاں آباد ہیں۔2010ءکے سیلاب نے اندرون سندھ سے کئی ہنر مندوں اور دیہاڑی داروں کو یہاں منتقل ہونے کو مجبور کردیا۔کپاس کے بجائے گنا اُگانے کی ہوس نے جنوبی پنجاب کے بے تحاشہ گھرانوں کو بھی بالآخر نقل مکانی کو مجبور کردیا ہے۔فقط ”مہاجر شناخت“ کی بنیاد پر خود کو ”متحد“ کرلینے کے باوجود ایم کیو ایم نے ”نئے حقائق“ کی وجہ سے تحریک انصاف کا طاقت ور متبادل نہیں بن پائے گی۔ اس کی خاطر ہوئی ”آنیاں جانیاں“ میں کار بے سود ہی تصور کرتا ہوں۔