ہیڈلائن

وفاقی کابینہ نے آرمی ایکٹ کے ترمیمی مسودے کی منظوری دے دی ہے

Share

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ہے۔

نئے سال کے پہلے ہی روز وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس نے اس مسودے کی منظوری دی ہے اور اب اسے قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

وزارت قانون کے ایک اہلکار کے مطابق آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے برّی فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں 28 نومبر 2019 کو مشروط توسیع دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم 26 دسمبر کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی۔

وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اس ترمیمی بل کو قومی اسمبلی کے بدھ (آج) ہی سے شروع ہونے والے اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

حکومت نے وفاقی کابینہ کے اس اجلاس میں نیب ترمیمی صدارتی آرڈیننس کو پارلیمان میں پیش کرنے سے پہلے حزب مخالف کی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس ضمن میں وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں حکومتی کمیٹی حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقات کرے گی۔ اس سے قبل ایک تین رکنی کمیٹی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا جس میں وزیرِ دفاع کے علاوہ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی شامل تھے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت چھ ماہ کے عرصے میں موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی نہ کر سکی تو جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے۔

نیب

آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گذشتہ برس میں قانون سازی کے لیے ملک کی پارلیمان سے زیادہ صدارتی آرڈیننس پر انحصار کیا ہے۔

مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کا غیر سنجیدہ رویے اور پارلیمان میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان تعلقات ناخوشگوار ہونے کی وجہ سے اہم معاملات پر قانون سازی نہیں ہو رہی۔

حکمران جماعت نے پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران پارلیمان میں صرف 13 بل پیش کیے جن میں سے 10 قومی اسمبلی سے منظور ہوئے۔

ان میں انسداد منی لانڈرنگ بل کے علاوہ پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی اور کم عمر بچوں کے کیے سگریٹ نوشی کی ممانعت کے حوالے سے قوانین شامل ہیں۔

اس کے برعکس موجودہ حکومت نے گذشتہ ایک سال کے دوران 21 صدارتی آرڈیننس جاری کروائے جن کی منظوری صرف وفاقی کابینہ سے لی گئی۔ ان میں نیب کے قانون کے حوالے سے جاری کیا جانے والا ترمیمی آرڈیننس بھی شامل ہے۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کے پہلے پارلیمانی سال میں، یعنی 13 اگست 2018 سے لے کر 12 اگست 2019 تک، قومی اسمبلی سے دس بل منظور ہوئے جبکہ اس عرصے کے دوران سینیٹ سے صرف پانچ بل منظور کروائے گئے۔ ان میں سے دو بل سگریٹ نوشی پر پابندی کے حوالے سے تھے، دو الیکشن سے متعلق جبکہ ایک بل ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا سے متعلق تھا۔

اس کے مقابلے میں دوسرے پارلیمانی سال میں محض تین ہی بل منظور ہو سکے جبکہ گذشتہ 16 ماہ کے دوران قومی اسمبلی سے چھ بل منظوری کے لیے سینیٹ کو بھجوائے گئے ہیں۔

اس عرصے میں حکومت کی سب سے اہم کامیابی 26ویں آئینی ترمیم سمجھی جاتی ہے جو کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے متعلق ہے۔

پارلیمان

یہ آئینی ترمیم بھی اتفاق رائے سے اس لیے ممکن ہو سکی کیونکہ حزب مخالف کی بڑی جماعتیں، جن میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں، پہلے سے ہی اپنے ادوار میں اس معاملے پر کافی کام کر چکی تھیں۔

پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والے صحافی ایم بی سومرو کا کہنا ہے کہ پارلیمان میں قانون سازی نہ ہونے کی وجہ حکومت کا حزب مخالفت کی جماعتوں مشاورت نہ کرنا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے پاس اپنے دور میں موجودہ حکمران جماعت سے بھی کم سیٹیں تھیں۔ لیکن اس کے باوجود اُنھوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بھی قانون سازی کے ذریعے پارلیمان سے منظور کروایا تھا۔

ان کے مطابق پیپلز پارٹی کسی بھی بل کو ایوان میں پیش کرنے سے پہلے اس کے مسودے پر حزب مخالف کی جماعتوں سے مشاورت کرتی تھی۔

ایم بی سومرو کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا رویہ ان روایات کے بالکل برعکس ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان، جنھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہفتے میں ایک دن ایوان میں اپوزیشن کے سوالوں کے جواب دیں گے، جب خود ہی ایوان میں نہیں آتے ’تو قانون سازی کیا ہو گی؟‘

اُنھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کے معاملے کو ایک سال ہونے کو ہے اور اس کے علاوہ گذشتہ برس چھ دسمبر سے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہے اور پاکستان کا الیکشن کمیشن غیر فعال ہے۔

لیکن اب تک نہ تو وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ملاقات کی اور نہ ہی ایسی خواہش کا اظہار کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ آئین وزیر اعظم کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ آئینی عہدوں پر تعیناتی کے لیے قائد حزب اختلاف سے بامقصد مشاورت کریں۔

ایم بی سومرو کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ایوان بالا یعنی سینیٹ کو بھی اہمیت نہیں دی جا رہی۔ اُنھوں نے کہا کہ سیینٹ جو کبھی سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی کے دور میں بڑا متحرک ہوتا تھا اب تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے سینیٹ کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔

پارلیمانی امور کی کوریج کرنے والے صحافی صدیق ساجد کے مطابق حکومت یہ نہیں چاہتی کہ قانون سازی کے معاملے میں اُنھیں اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کی درخواست کرنی پڑے اس لیے کسی بھی قانون کے مسودے کو پارلیمان میں لانے کی بجائے آرڈیننس کے ذریعے ہی کام چلا رہی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان خود اپوزیشن سے بات نہیں کرتے جبکہ ان کی طرف سے حزب مخالف کی جماعتوں سے قانون سازی سے متعلق مذاکرات کے ذریعے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس کو حزب مخالف کی جماعتیں سنجیدہ اس لیے نہیں لیتی کیونکہ حکومتی کمیٹی کے پاس فیصلے کا اختیار نہیں ہے۔

صدیق ساجد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق فیصلے کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا ہے لیکن اس کے برعکس حکومت اس فیصلے پر قانون سازی کرنے کی بجائے اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کر دی ہے اور اس اپیل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نظرثانی کی اپیل کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ابھی تک نظرثانی کی اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جس کی وجہ سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ایک مسودہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

صدیق ساجد کا کہنا تھا کہ وزیر اعٌظم عمران خان کے اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ تعلقات میں سردمہری کی وجہ سے قائمہ کمیٹیوں میں کوئی کام نہیں ہو رہا۔