تقریباََ دو مہینے قبل چند دیرینہ دوستوں کے ساتھ میں ایک مہربان کی جانب سے دی دعوت میں موجود تھا۔وہاں ایک سینئر سیاستدان بھی مدعو تھے۔ تعلق ان کا جنوبی پنجاب سے ہے۔خود کو قومی سطح کا رہ نما بنانے کے بجائے وہ خود کو اپنے حلقے تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ اسی باعث 1990ء سے ہوئے ہر انتخاب میں جیت کر قومی اسمبلی پہنچ جاتے ہیں۔ عاجزی کم گوئی ان کی عادت ہے۔ میں انہیں زمینی حقائق سے آگاہ ایک زیرک سیاستدان شمار کرتا ہوں۔ ملاقات ہوجائے تو ایک آدھ سوال اٹھاتے ہوئے انہیں برجستہ رائے دینے کو اکساتا ہوں۔مذکورہ دعوت میں روایتی سلام دعا کے بعد میں نے ان سے یہ جاننا چاہا کہ ان کی دانست میں عام انتخابات کب منعقد ہوسکتے ہیں۔تفصیلات میں جائے بغیر انہوں نے محض ایک فقرہ کہا اور وہ یہ کہ انہیں 2025ء سے قبل عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ان کی صاف گوئی نے مزید سوالات کا موقعہ ہی نہ دیا۔
میں یہ فقرہ بھول چکا تھا۔ چند دن قبل مگر عمران حکومت کے دوران کچھ عرصے کے لئے ایف بی آر کے چیئرمین لگائے شبر زیدی ٹی وی چینلوں پر یہ ’’نوید‘‘ سناتے پائے گئے کہ وطن عزیز میں ’’ٹینکوکریٹ‘‘ حکومت متعارف کروانے کی کاوشیں شروع ہوگئیں ہیں۔ممکنہ حکومت کا دورانیہ موصوف نے دو سے ڈھائی برس تک پھیلتا بھی محسوس کیا۔ان کی دی ’’خبر‘‘ کم از کم دو دنوں تک شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی سکرینوں پر چھائے ’’ذہن سازوں‘‘ کی ہٹی چلاتی رہی۔
بعدازاں ہمارے ایک سینئر ساتھی جاوید چودھری نے جنرل باجوہ سے چھ گھنٹوں تک پھیلی ملاقات کے بعد پے در پے چند کالم لکھے۔ ان کے ذریعے ’’انکشافات‘‘ ہوئے کہ عمران خان صاحب کو اقتدار دلوانے اور اس کے بعد ان کی حکومت کو استحکام فراہم کرنے کے لئے باجوہ صاحب آئینی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عدالتی فیصلوں پر مسلسل اثرانداز ہوتے رہے۔ اپنے تئیں ان سے منسوب ’’انکشافات‘‘ چونکادینے کی حد تک دھماکہ خیز نہیں تھے۔ ان کی اہمیت کو تاہم اس لئے جھٹلایا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ چھ برس کے طویل عرصے تک ہمارے طاقت ورترین رہے فیصلہ ساز کی زبان سے ادا ہوئے تھے۔
جن فیصلوں پر انہوں نے اثرانداز ہونے کا دعویٰ کیا تھا انہیں تشکیل دینے کے عمل میں شریک چند قابل احترام افراد آج بھی اہم مناصب پر تعینات ہیں۔انہیں ازخود ’’توہین‘‘ کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ باجوہ صاحب کے دعوے نظرانداز کرنے کو مگر ترجیح دی گئی۔ خود کو ’’بابا ر حمتے‘‘ کہلانے کے جنون میں مبتلا ثاقب نثار نے بھی میڈیا کے ذریعے اپنا دفاع کرنے سے تغافل برتا۔ محض ایک رعونت بھرے پیغام سے ان دنوں ’’انکشافات‘‘ کو بے چین لوگوں کو ’’جرأت‘‘ سے محروم بتاکر کنی کتراگئے۔ عمران خان صاحب البتہ تواتر سے باجوہ صاحب کو ’’جواب آں غزل‘‘ کی زد میں رکھے ہوئے ہیں۔فوجی زبان میں لندن میں مقیم ایک یوٹیوبر عمران خان صاحب کو ’’کورفائر‘‘ کے ذریعے تقویت پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کی سنائی داستانیں چسکہ فروشی کی دکانوں کو مزید رونق فراہم کررہی ہیں۔ اس سوال پر غور ہی نہیں ہورہا کہ طویل عرصے کے بعد وطن عزیز میں ایک بار پھر ٹینکوکریٹس پر مشتمل حکومت کے قیام کا خیال کیوں گردش میں ہے۔
جس حکومت کے خواب دکھائے جارہے ہیں اس کا ذکر بہت شدت سے پہلی بار میں نے 1996ء میں سنا تھا۔اس برس کے اختتام پر پیپلز پارٹی کے منتخب کردہ سردار فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو فارغ کردیا تھا۔ان کی فراغت کے بعد جو عبوری حکومت بنی اس کی اکثریت ’’غیر سیاسی ٹیکنوکریٹس‘‘ پر مشتمل تھی۔ سردار صاحب نوکرشاہی سے سیاست کی جانب راغب ہوئے تھے۔لاہور میں افسروں کو تیار کرنے والی اکیڈمی سے ابھرے کئی سینئر افسر فاروق صاحب کے ’’بیچ میٹ‘‘ بھی تھے۔نہایت اعتماد سے مجھ جیسے رپوٹروں کو یہ بتایا گیا کہ ’’انتخاب سے قبل کڑا احتساب ہوگا‘‘۔ احتسابی عمل کے دوران پاکستان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے ’’سخت‘‘فیصلے لئے جائیں گے۔ ملکی تاریخ کا طالب علم ہوتے ہوئے تاہم میں ہمیشہ بضد رہا ہوں کہ ہمارے ہاں کا سیاسی بندوبست ’’مقتدر قوتوں‘‘ کے علاوہ عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کی حمایت اور اعانت کابھی محتاج رہتا ہے۔ واشنگٹن اس تناظر میں ایک اہم ترین مرکزہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو فارغ کردینے کے بعد فاروق لغاری صاحب نے صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ تعینات کیا تھا۔ ’’انتخابات سے پہلے احتساب‘‘ کے خیال کی پشت پناہی ڈھونڈنے وہ امریکہ روانہ ہوئے۔ ابھی ان کا جہاز فضا ہی میں تھا تو امریکی وزارت خارجہ سے ایک بیان جاری ہوگیا۔ مذکورہ بیان نے پاکستان میں ’’آئین کے احترام‘‘ پر اصرار کیا۔واضح مقصد اس بیان کا یہ تھا کہ پاکستان میں نوے دنوں میں عام انتخاب یقینی بنائے جائیں۔ بالآخر وہ ٹالے نہ جاسکے اور نواز شریف ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئے۔
ان دنوں ’’کڑے احتساب‘‘ کا ذکر تو نہیں ہورہا۔ ہمیں معاشی حقائق سمجھانے والے ’’ماہرین‘‘ کا گروہ مگر یکسو ہوکر اصرار کررہا ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچاکر خوش حالی کی راہ پر دھکیلنے کے لئے چند سخت مگر عوام کے لئے قطعاََ ناقابل برداشت اقدامات لینا پڑیں گے۔ عمران حکومت کو ہٹانے کے بعد آئی شہباز حکومت نے ان میں سے فقط چند فیصلے ہی لاگو کئے تو اس کا ووٹ بینک تیزی سے کریش ہونا شروع ہوگیا۔ مفتاح اسماعیل کو اس کی وجہ سے وزارت خزانہ سے فارغ کرنا پڑا۔ ان کی جگہ اسحاق ڈار تشریف لائے۔ڈالر کی اڑان مگر روکنے میں ناکام رہے۔آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کے اطلاق سے بھی گھبرارہے ہیں۔ واضح انداز میں لہٰذا ہمیں سمجھایا جارہا ہے کہ ووٹوں کی محتاج کوئی ایک سیاسی جماعت بھی وہ سخت فیصلے نہیں لے سکتی جو پاکستانی معیشت کی بقا اورتوانائی یقینی بنانے کے لئے اشد ضروری ہیں۔ جن فیصلوں کا تقاضہ ہورہا ہے وہ محدود آمدنی والے پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کی زندگی اجیرن بنادیں گے۔ہماری مختلف النوع اشرافیہ کی موٹی کھال پر وہ ہرگز اثر انداز نہیں ہوں گے۔’’ریاست کی بقائ‘‘کے نام پر فقط عوام کا مزید کچومرنکالنے کے ارادے ہیں۔ان پر عملدآمد کے لئے ’’معاشی ماہرین‘‘ کا خصوصی گروہ متحرک ہوچکا ہے۔’’مقتدر قوتوں‘ ‘ کی چھتری تلے وہ کرائے کے قاتلوں کی طرح عمل کرنے کو مرے جارہے ہیں۔ربّ کریم ہمیں ان سے محفوظ رکھے۔