موجودہ وفاقی کابینہ میں میرے سب سے پسندیدہ وزیر خواجہ سعد رفیق ہیں ،میں جب ایم اے او کالج میں لیکچرر تھا خواجہ صاحب وہاں زیر تعلیم تھے چنانچہ جب بھی ملتے ہیں استاد محترم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔مجھے یہ شخص کئی وجوہ سے اچھا لگتا ہے کالج کے زمانے سے اسٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر اسی نظریئے کے لئے کام کرتا رہا ہے جس کےلئے اس نے آج کی تاریخ تک اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے خواجہ صاحب ان تھک انسان ہیں انہوں نے وزیر ریلوے کے طور پر پاکستان ریلوے کو ایک مثالی ادارہ بنا دیا تھا ،اس سے بھی زیادہ مجھے ان کی یہ بات اچھی لگتی ہے کہ ان کا شمار خوشامدی وزیروں میں نہیں ہوتا یہ پارٹی کے جاں نثاروں میں ہیں مگر پارٹی قیادت کے سامنے حکومت کا کچا چٹھا بیان کرنے سے باز نہیں رہ سکتے خواجہ صاحب بہت تلخ لہجے میں پارٹی کی بعض پالیسیوں پر قیادت کی موجودگی میں شدید تنقید کرتے ہیں جبکہ ہماری سیاسی پارٹیوں میں عمومی طور پر قیادت کی خوشامد کے سوا کچھ نہیں ہوتا خواجہ صاحب کو وزارت کے عہدے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے شاید اس لئے کہ وہ جو کرنا چاہتے ہیں ان میں سے کچھ کاموں میں رکاوٹ آتی ہو چنانچہ اس بار انہوں نے وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا جس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے بجا طور پر کہا کہ مجھے دھکا دے کر جس کام پر مامور کر دیا ہے اب خود اس سے بھاگ رہے ہیں سو انہیں وزارت قبول کرنا پڑی!
اب اسی کالم کا دوسرا باب شروع ہوتا ہے ندیم اشرف ایک درویش صفت انسان ہیں اور مسلم لیگ (ن)کے بہی خواہ ہیں میں ان سے زندگی میں کبھی نہیں ملا ، نہ کہیں دیکھا مگر یہ شخص پاکستان کے دور دراز علاقوں میں سیلاب زدگان کے مکان بنانے اور ان کی دوسری ضروریات کے لئے انہیں رقم فراہم کرتا ہے ایسا کرتے ہوئے نہ اپنی تصویر اور نہ اس کی تصویر سامنے آنے دیتا ہے جس کی مدد کی جا رہی ہو، ان دنوں جھوٹ اور الزام تراشی اتنی عام ہو گئی ہے کہ میں اس نوع کے اکثر خط پڑھ کر پھینک دیتا ہوں مگر آج ذیل میں ندیم اشریف صاحب کاخط درج کر رہا ہوں جس کے مرکزی مخاطب خواجہ سعد رفیق ہیں ذیل میں یہ خط بھی تبصرہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! روزانہ کی بنیاد پر صرف ایک ہفتہ ریلوے کی ایپ کے ذریعے ٹرینز کو نوٹ کریں ریلوے کی تمام ٹرینیں بہت لیٹ ہیں سوائے فرید ایکسپریس،اپ ڈائون چھوڑ کر ڈرائیوروں، کنٹرولروں اور متعلقہ حکام کو پرائیویٹ آپریٹرز کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر دی جانے والی چند ہزار رشوت کے نتائج ملاحظہ فرمائیں۔ کیا نتیجہ ملا کہ تمام ٹرینیں پرائیویٹ کرنے سے صورتحال بہتر ہوگئی اور ریلوے کی انکم بھی زیادہ ہوگئی، ریلوے کی ٹرینز، گارڈ، ایس ٹی اور پولیس اسٹاف سب لوٹ مار میں مگن رہتے ہیں جبکہ پرائیویٹ آپریٹرز کی ٹرین میں پولیس کے بدمعاش تک یتیموں کی طرح گھوم رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں فرید ایکسپریس کی انتظامیہ کو اپنے اسٹاف پر شک تھا انہوں نے ایک ڈمی مسافر بنا کر کرپٹ اسٹاف کے پاس بھیجا جب کرپشن کنفرم ہوگئی تو مالک نے اچانک سامنے آکر اپنے گارڈ کے ساتھ کرپٹ اسٹاف کی خوب چھترول کی اور اپنی کمپنی کے اسٹاف کے گلے سے کارڈ اتارا، جیبوں سے سب پیسے نکالے اور کہا دوڑ جائو۔ بہت برا طریقہ ہے لیکن اس طریقے کے بغیر اب یہ ملک نہیں چل سکتا۔ ریلوے کے کمرشل افسران اچھے والے سائیڈ لائن ہیں اور جو سیٹوں پر ہیں وہ فیلڈ میں نکلتے نہیں، نتیجہ ریلوے ٹرین اسٹاف کی جیبیں کرپشن کی رقم سے اس طرح بھری ہوتی ہیں جیسے اکانومی کی کوچز مسافروں سے بھری ہوتی ہیں جبکہ ریلوے کے اکائونٹ خالی ہوتے ہیں۔
میں گزشتہ بیس دنوں سے سندھ میں اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں سفر میں ہوں پنجاب سے شروع کرکے آخری اسٹیشن کھوکھرا پار تک گیا ہوں کرپشن ہی کرپشن ہے۔ یہ منظر تو تاریخ بتاتی ہے، رومن ایمپائر کے ٹوٹنے سے پہلے کے حالات جیسا ہے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب کے سابقہ دور میں پاکپتن سیکشن کی ایک شکایت خواجہ صاحب کے خود اپنے فراہم کردہ نمبر پر ان کے پی اے جواد کو درج کروائی لیکن حیرت انگیز طور پر وہ کرپٹ مافیا تک میرے نمبر سمیت پہنچ گئی جنہوں نے مجھے اپنے پولیس کے کارندوں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنوایا اور دھمکیاں دیں کہ اگر آئندہ منسٹر تک شکایت پہنچائی تو دوران سفر آپ کے سامان سے منشیات اور اسلحہ برآمد کرنا ہمارے لئے بہت آسان کام ہے۔ میں بچپن سے خیراتیں کرنے اور بانٹنے والا اس بیتے کرب سے باہر نہیں نکل سکا۔ خواجہ صاحب سے کہئے گا کہ منسٹر بن کر اپنا موبائل نمبر اپنے اردگرد موجود خوشامدیوں کو مت تھما دیا کریں۔ بندہ سمجھتا ہے آپ خود فون پر ہیں لیکن فون کسی غلط بندے کے ہاتھ میں ہوتا ہے جسے خوشامدی افسر اور کارندے قابو کرچکے ہوتے ہیں اور وہ انسان صرف بہتری کے لئے کام کرنے والے بندے کا ڈیٹا کرمنلز کو شیئر کرکے ذلیل کروا دیتا ہے اور پھر خیر کرنے اور بانٹنے والے پر تشدد دیکھ کر بھلا کوئی کیوں ریلوے کی بہتری کے لئے دشمنیاں مول لے گا۔ جب بھی مسلم لیگ ن کے لوگ منسٹر بنتے ہیں ان کے رابطے مخلص لیکن خوشامد نہ کرنے والوں سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ جب یہ گورنمنٹ میں نہیں ہوتے اپنے فون نمبر خود اٹینڈ کرتے ہیں جب یہ جیلوں میں جاتے ہیں ہم جیسے تہجد کی نماز میں دعائیں کرتے ہیں، ان کے نام مشکلات سے نکلنے کے صدقے کرتے ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی بیماری سست طرز زندگی ہے۔ اللہ رب العزت واقف ہے دلی حالات سے ۔ا للہ انہیںمعاشی آسانیاں دے، کوئی ذاتی ضروریات ان سے وابستہ نہیں۔ اپنے ملک میں ترقی بہتری کے لئے روابط کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب جب یہ صاحب اقتدار میں آتے ہیں ساتویں آسمان سے اوپر چلے جاتے ہیں۔ میں نے 43 سالہ زندگی ، ان سے بغیر مانگے گزاری ہے لیکن ان کے اردگرد تلخ اور حقیقی حل بتانےوالوں کی بجائے خوشامد پسند جمع ہیں اور شاید انہی وجوہات کی بنا پر یہ حکومتوں سے سیدھا جیل یاترا پر چلے جاتے ہیں۔