ذہنی سکون سے کہیں زیادہ اپنی آنکھوں کے تحفظ کے لئے گزشتہ کئی دنوں سے میں ٹی وی کے علاوہ سوشل میڈیا سے بھی دوری اختیار کرنے کو مجبور ہوں۔ کچھ دن پہلے سونے سے قبل مگر موبائل فون میں موجود ٹویٹر اکائونٹ پر نظر ڈالی۔ میری دیرینہ ساتھی نسیم زہرہ کے پروگرام کا ایک کلپ وہاں موجود تھا۔ میرا یار حامد میر اس میں تبصرہ آرائی کے لئے مدعوہوا تھا۔ حامد دل کی بات اکثر ضرورت سے زیادہ منہ پھٹ انداز میں بیان کردیتا ہے۔ اس کی وجہ سے آج بھی پیٹ میں گولیاں لئے بہادری سے جینے کی کوشش کررہا ہے۔ جو کلپ میں نے دیکھا اس میں البتہ مجھے پریشان کن ا نداز میں ’’محتاط‘‘ سنائی دیا۔نسیم زہرہ نے اس کی برتی احتیاط کا احترام کیا۔اسے مزید بولنے کو نہیں اکسایا۔ روانی میں تاہم حامد نے اعتراف کرلیا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران سابق آرمی چیف کے حوالے سے اس کے پاس کچھ ٹھوس خبریں آئی تھیں۔ وہ ان کے ذکر سے گریز کو ترجیح دے رہا ہے۔
حامد کے برعکس گزشتہ کئی برسوں سے میں متحرک رپورٹر نہیں رہا۔ صحافت کے حوالے سے ’’چوندی چوندی‘‘ بیان کرتے ہوئے خود کو جرأت وبہادری کی علامت ثابت کرنے کا ایک پنجابی محاورے کے مطابق ’’چا‘‘ یعنی شوق اترچکا ہے۔چند مہربان دوست مگر میری گوشہ نشینی سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ اپنی محبت کی مزاحمت کی گنجائش بھی رہنے نہیں دیتے۔ ان کی برپاکردہ محفلوں میں محض موجودگی کے سبب نہایت اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ گزشتہ برس کے اپریل سے نومبر کے اواخر میں ہوئی ’’تعیناتی‘‘ تک باجوہ صاحب نے ایک ضرب المثل والے اس ’’پیر‘‘ والا رویہ اختیار کئے رکھا جو اولاد نرینہ کے خواہش مندوں کو ہمیشہ پرامید رکھتا ہے۔اقتدار ہمارے سیاستدانوں کے لئے ’’اولاد نرینہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔اس تناظر میں باجوہ صاحب نے نظر بظاہر ’’تخت یا تختہ‘‘ والی جنگ میں مصروف ہر فریق کو اپنے تئیں مطمئن رکھا۔ اس تناظر میں ہوئی ملاقاتوں اور ’’پیغامبروں‘‘ کے ذریعے پہنچائی چند باتوں کی خبر مجھ تک بھی ’’باوثوق ذرائع‘‘ کی بدولت پہنچی تھی۔ میں انہیں بیان کرنے کی جرأت سے لیکن محروم رہا۔حامد کی ان دنو ں اپنائی ’’احتیاط‘‘ کے اسباب لہٰذا کھلے دل سے سراہتا ہوں۔
صحافت کو کسی زمانے میں ’’تاریخ کا پہلا ڈرافٹ‘‘ پکارا جاتا تھا۔عرصہ ہوااس پہچان سے وہ اپنی جند چھڑاچکی ہے۔اس ضمن میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے ہوئے بھی تاہم اکثر یہ خیال آتا ہے کہ ’’صحافی‘‘ اور ’’اخبارات‘‘ 1950ء کی دہائی میں بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ سوال اٹھتا ہے کہ ان دنوں مفلوج ہوکر بستر پر لیٹے گورنر جنرل غلام محمد سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے ذریعے ہمارے ان دنوں کے ہر قدآور سیاستدان کو جس انداز میں بہلاتے رہے اس تاریخ کا ’’ڈرافٹ‘‘ اخبارات میں لکھا جارہا تھا یا نہیں۔اگر وہ واقعتا من وعن لکھا جارہا ہوتا تو ریٹائرمنٹ کے بعد قدرت اللہ جیسے افسر کا لکھا ’’شہاب نامہ‘‘ 1980ء کی دہائی میں سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ہر پاکستان کیلئے “Must Read”کتاب کی صورت اختیار نہ کرپاتا۔
2022ء کے اپریل سے اس برس کے نومبر تک ہمارے ان دنوں کے ’’قد آور‘‘ سیاستدانوں کو باجوہ صاحب کی جانب سے جو بہلاوے دئے گئے اس کا علم رکھنے والوں میں تاہم قدر ت اللہ شہاب جیسی صلاحیتوں کا حامل کوئی شخص بھی نظر نہیں آرہا۔ وگرنہ ’’بلا سے ہم نے دیکھا تو اور دیکھیں گے‘‘ سوچتے ہوئے دل کو تسلی دے لیتا۔
فی الحال تو ہمارے پاس جاوید چودھری صا حب کے لکھے چند کالم ہیں جو انہوں نے باجوہ صاحب سے چھ گھنٹوں کی ملاقات کے بعد تواتر سے لکھے۔کامل داستان ان میں بھی بیان نہیں ہوپائی ہے۔باجوہ صاحب کے ’’ورژن‘‘ کا کچھ حصہ البتہ ہمارے سامنے آگیا۔ان کے بیان کردہ ورژن کو فقط عمران خان صاحب ہی براہِ راست انداز میں نہیں بلکہ اپنی سیاست کو جارحانہ انداز میں زندہ رکھنے کے لئے الزامات کی بوچھاڑ سے للکار رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے طویل عرصے سے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔وزیر اعظم ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔آصف علی زرداری کو ویسے بھی ’’تاریخ نویسی‘‘ کی عادت نہیں۔کامل داستان لہٰذا عیا ں ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
صحافت اگر ’’تاریخ کا پہلا ڈرافٹ‘‘ ہوتی ہے تو گزشتہ چند مہینوں کے دوران ہوئی محلاتی سازشیں بے نقاب کرنے کو ترجیح دینا ہوں گی۔اس کے علاوہ آج کی واضح حقیقت پاکستان کا معاشی بحران ہے جو متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت کو مزید بہتری نہیں بلکہ روزمرہّ زندگی کے حوالے سے اپنا موجودہ Statusیا مقام برقرار رکھنے کی امید بھی نہیں دلارہا۔معاشی بحران کی سنگینی کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں مذہبی جواز پر مبنی دہشت گردی کی نئی لہر بھی ابھرنے کو مچل رہی ہے۔ ’’نئے‘‘ آڈیو یا ویڈیوز کی امید میں مبتلا اور سوشل میڈیا مگر اس پر کماحقہ توجہ نہیں دے پارہا۔
دو دن قبل خانیوال میں ہمارے حساس ترین ادارے کے ایک ذہین ودلیر افسر کی ہوئی شہادت ہمیں یہ سوچنے کو مجبور کرنا چاہیے تھی کہ امن وامان یقینی بنانے والے اداروں کے فرض شناس افسر کئی برس گزرجانے کے باوجود دہشت گردوں کی فہرست میں ’’نشان زد‘‘ ہوچکے ہیں۔’’بدلے‘‘ کی تڑپ ان کے تعاقب میں ہے۔اس کے علاوہ بدھ کے روز کالعدم ٹھہرائی ایک تحریک نے باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کردیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کے نام لے کر متنبہ کرتا یہ اعلامیہ واضح عندیہ دے رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کو اب ویسے ہی غضب کا سامنا کرنا پڑے گا جو 2008ء کی دہائی سے خدائی خدمت گار سے اے این پی ہوئی جماعت کے متحرک رہ نمائوں اور کارکنوں کا مقدر ہوا تھا۔
ہم پاکستانیوں کی اکثریت اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکہ کی ذلت آمیز شکست کی بابت بہت شاداں محسوس کررہی تھی۔عمران خان صاحب نے بطور وزیر اعظم ’’غلامی کی زنجیر‘‘ ٹوٹنے پر طمانیت کا اظہار بھی کردیا تھا۔ افغانستان سے مگر اب جو پیغامات آرہے ہیں ان کی زبان اور لہجہ ہمارے لئے ’’انتباہی‘‘ ہے۔معاشی گرداب میں محصور ہوئے پاکستان کے لئے یہ پیغامات خیر کی خبر ہرگز نہیں۔روایتی اور سوشل میڈیا مگر اس سے تغافل کو ترجیح دے رہا ہے۔ اس جانب بھی توجہ نہیں دے پارہا کہ جو الفاظ واصطلاحات ان دنوں افغانستان سے آئے پیغامات میں تسلسل سے استعمال ہورہے ہیں انہیں گزرے برس کے اپریل میں وزارت عظمیٰ کھودینے کے بعد عمران خان صاحب نے متعارف کروایا تھا۔بلاول بھٹو زرداری کے لئے اختیار کردہ الفاظ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے ’’بقراط عصر‘‘ سے مستعار لئے گئے ہیں۔