نااہلی کے باوجود پارٹی چیئرمین رہنے پر عمران خان کو الیکشن کمیشن کا نوٹس
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیراعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہلی کے بعد بھی بطور سربراہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عہدے پر برقرار رہنے کی وضاحت کے لیے 11 جنوری کو طلب کرلیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عمران خان کو نوٹس جاری کیا گیا ہے کہ وہ 11 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے بذات خود یا اپنے وکیل کے ذریعے وضاحت پیش کریں۔
یہ نوٹس اسلام آباد کے ضلعی الیکشن کمشنر وقاص احمد ملک کے توسط سے چیئرمین پی ٹی آئی کو بھیجا گیا ہے، الیکشن کمیشن کے سامنے کیس کی سماعت 11 جنوری کو صبح 10 بجے مقرر کی گئی ہے۔
نوٹس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ’الیکشن کمیشن نے 20 دسمبر 2022 کو سماعت کی تھی جس کے تحت یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ درخواست گزار کو سننے کے بعد ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ عمران خان اپنے اثاثوں اور واجبات کے بارے میں غلط بیانات دینے اور غلط ڈیکلریشن کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی جانب سے 21 اکتوبر 2022 کو منظور کیے گئے حکم نامے میں این اے-95 میانوالی-ون سے نااہل/ڈی سیٹ کیے جانے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہیں‘۔
نوٹس میں مزید کہا گیا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید مشاہدہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پی ایل ڈی 2017 ایس سی 692کی روشنی میں عمران خان نااہل ہونے کی وجہ سے کسی سیاسی جماعت (یعنی پی ٹی آئی) کے چیئرمین کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے، لہٰذا جواب دہندہ کو 11 جنوری 2023 کو اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لیے نوٹس جاری کیا جارہا ہے‘۔
واضح رہے کہ توشہ خانہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے گزشتہ ماہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو چیئرمین پی ٹی آئی کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کارروائی شروع کی تھی، مذکورہ فیصلے میں عمران خان کو جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون)(پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ قانون کسی سزا یافتہ شخص پر سیاسی جماعت کا عہدیدار بننے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے فروری 2018 میں الیکشنز ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 62 (ون)(ایف)کے تحت نواز اشریف کو نااہل کیے جانے کے بعد اس فیصلے نے انہیں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے عہدے سے ہٹانے کی راہ ہموار کردی تھی۔