پارلیمانی جمہوریت میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کو معمول کی سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ برس 9 اور 10 اپریل کی درمیانی رات عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے پہلے اور بعد سےملک ایک سیاسی بحران کا شکار ہے۔ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ڈالر کی قیمت 227 روپے اور افراط زر 24.5 فیصد ہے۔ مہنگائی کی شرح 35 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ پاکستان کے بیرونی قرضے 2006ءمیں صرف 37ارب ڈالر تھے جو اب 127ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔ رواں برس کے اواخر میں عام انتخابات منعقد ہونا ہیں لیکن سیاسی بے یقینی کا گرداب پارلیمنٹ سے لیکر عدلیہ تک پھیلا ہوا ہے۔ سیاست اور معیشت کے دہرے طوفان میں ملک کی کشتی بری طرح ڈگمگا رہی ہے۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ ہمارے تاریخی ارتقا میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوری بندوبست بجائے خود ایک متنازع سوال رہا ہے۔ سیاسی قوتوں اور رائے عامہ میں جمہوریت مخالف دھارا باقاعدہ وجود رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ملک چار مرتبہ براہ راست فوجی آمریت کا شکار ہوا اور اس سانحے کا دورانیہ 33 برس پر محیط ہے۔ جمہوریت پر قومی عدم اتفاق سے صدارتی اور پارلیمانی نظام حکومت کی بحث بھی منسلک ہے۔ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے چار متنوع وفاقی اکائیوں پر مشتمل ملک میں صوبائی حقوق کے نکتے پر بھی اتفاق نہیں پایا جاتا۔ نتیجہ یہ کہ چھ دہائی قبل درمیانے درجے کی ترقی پذیر معیشت کا حامل ملک اب کم و بیش تمام کلیدی اشاریوں میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔ 23 کروڑ آبادی کے ملک میں مسلسل سیاسی بے یقینی نے معاشی ترقی کا راستہ روک رکھا ہے۔ سیاسی بے یقینی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اور تمدنی قوتیں کمزور ہیں اور ریاستی اداروں نے اشرافیہ کے چند حصوں کے ساتھ غیر علانیہ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ محض 58 فیصد شرح خواندگی رکھنے والے ملک میں مذہب کے نام پر نقصان دہ پالیسیوں اور اشتعال انگیز اقدامات کی نامبارک روایت بھی موجود ہے۔ ہمسایہ ممالک میں چین کو چھوڑ کر مشرق میں بھارت، شمال میں افغانستان اور مغربی سرحد پر ایران کیساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ بیرونی امداد اور قرضوں کی مستقل احتیاج نے ملک کی جغرافیائی اہمیت اور پانچویں بڑی افرادی منڈی کے معاشی امکانات کو بے معنی کر رکھا ہے۔ اس تصویر کے مختلف ٹکڑے جوڑ کر دیکھے جائیں تو اصل لڑائی یہ ہے کہ پاکستان میں چند طبقات نے اپنے ناجائز معاشی مفادات کیلئےپوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس استحصالی بندوبست کو قائم رکھنے سے سیاسی عمل بے معنی ہو گیا ہے۔ ریاست کی عمل داری اور عدلیہ کی ساکھ پر گہرے سوالات ہیں۔ اقتدار کے متوازی سرچشموں کی مسلسل موجودگی میں عوام بے دست و پا ہیں اور ملک دستور کی بجائے سازشوں، حادثات اور پس پردہ جوڑ توڑ کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے۔
آج کل حالیہ برسوں کے سیاسی اور حکومتی حقائق کے انکشافات کا موسم ہے۔ ہمارے لئےیہ نیا تجربہ نہیں۔ دسمبر 1971 میں تیرہ سالہ فوجی آمریت ختم ہونے پر بھی ایسے ہی انکشافات کا طوفان اٹھا تھا۔ 77ء میں ساڑھے پانچ سالہ نیم جمہوری دور کے بارے میں سچی جھوٹی کہانیوں کا ایسا ہی ملغوبہ پیش کیا گیا تھا۔ 90ء کے عشرہ زیاں کے بارے میں بھی ایسی ہی کہانیاں سامنے آئی تھیں۔ ان انکشافات کے صحیح یا غلط ہونے سے قطع نظر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ملک میں شخصیات کو اداروں اور سازش کو دستور پر بالادستی حاصل رہی ہے۔ امید کی واحد کرن یہ ہے کہ 75 سالہ ملکی تاریخ میں جمہوری امنگوں کا نحیف چراغ مسلسل ٹمٹماتا رہا ہے۔ ابتدائی برسوں میں آزاد پاکستان پارٹی ہو یا نیشنل عوامی پارٹی، جگتو فرنٹ ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی، یا آئی جے آئی کی غیر جمہوری دستکاری ترک کر کے جمہوری بیانیہ اختیار کرنیوالی مسلم لیگ (نواز) ہو، پاکستان میں جمہوریت کیلئے جدوجہدکاسلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ سیاسی کارکنوں کی بے پناہ قربانیوں اور مٹھی بھر سیاسی رہنمائو?ں کی غیر متزلزل مزاحمت کو بھلے حتمی کامیابی نہیں مل سکی لیکن غیر جمہوری طاقتوں کیلئے میدان کبھی کھلا نہیں چھوڑا گیا۔ 1973 ءکا پارلیمانی دستور، مئی 2006ءمیں میثاق جمہوریت اور 2010میں اٹھارہویں آئینی ترمیم اہم ترین جمہوری کامیابیاں تھیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں جمہوری عمل پر اتفاق رائے ہی کی پاداش میں محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اور عمران خان کی صورت میں طویل دورانئے کے ایک غیر شفاف سیاسی کھیل کی بنیاد رکھی گئی۔ کچھ سیاسی مبصرین پروجیکٹ عمران کے سیاسی اور معاشی نقصانات کا تخمینہ لگاتے ہوئے ان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت کا احاطہ کرتے ہیں لیکن ’پروجیکٹ عمران‘ کی حقیقی تباہ کاری جانچنے کےلئے کم از کم چودہ برس کے سیاسی اور معاشی معاملات کا احتساب کرنا چاہئے۔ سیاسی قرائن بتاتے ہیں کہ پروجیکٹ عمران اپنا خراج وصول کر کے ناکام ہو چکا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت پسند اور شخصی سیاست کرائے کا تانگہ تھی جس میں غیر جمہوری پس منظر رکھنے والی سواریوں کو ہانکا کر کے جمع کیا گیا تھا۔ اب یہ سواریاں اپنی پوٹلیاں سنبھالے مختلف سمتوں میں نکلنے کی فکر میں ہیں۔ا سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ صرف یہ بتاتی ہے کہ عمران حکومت نے تین برس میں 150کھرب روپے کے قرضے لئے۔ بینکوں کے اعداد وشمار مگر سیاسی نقشہ بیان نہیں کیا کرتے جہاں صاف نظر آتا ہے کہ مٹھی بھر افراد کی کوتاہ نظری اور معاشی مفاد پسندی نے قوم کے چودہ برس ضائع کئےہیں۔ افتخار عارف نے ’جادہ خوش خبر کے رفیق‘ سے سوال پوچھا تھا کہ یہ کاروبارِ حیات کس کے حساب میں ہے؟ بدقسمتی سے پاکستانی عوام نہیں جانتے کہ انہیں یہ سوال عمران خان سے کرنا ہے یا کٹھ پتلی سیاست کی ڈوریاں ہلانے والے ان نادیدہ کرداروں سے جو قوم کی لٹیا ڈبو کر گمنامی کے اندھیروں میں غائب ہو جاتے ہیں۔