”حرکت تیز تر ہے“ کا ماحول بناتا روایتی اور سوشل میڈیا میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو ابھی تک یہ سمجھا نہیں پایا کہ ہم محدود آمدنی والوں کا ”دیوالیہ“ تو کئی ماہ قبل ہی ہو چکا ہے۔25سے پچاس ہزار روپے کے درمیان ماہانہ آمدنی کے خانے میں اٹکے لاکھوں افراد زندگی برقرار رکھنے کے لئے لازم اجناس خریدنے کے لئے گزشتہ برس کے مقابلے میں 30فی صد زیادہ رقم خرچ کرنے کو مجبور ہیں۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ قوت خرید کے ٹھوس تناظر میں آپ کی جیب میں پڑا سو روپے کا نوٹ اب 70روپے کی قدر کا حامل ہے۔
اس حقیقت کے ہوتے ہوئے بھی تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ ہمارے حکمران وطن عزیز کو دیوالیہ سے ”بچانے“ کے لئے اپنی راتوں کی نیند حرام کررہے ہیں۔آئی ایم ایف کے روبرو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اڑی کسی کام نہ آئی تو ”ایٹمی قوت کے حامل واحد مسلمان ملک“ کے وزیر اعظم عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کی سربراہ سے ٹیلی فون پر چند دن قبل ”ہتھ ہولا“ رکھنے کی التجا کو مجبور ہوئے۔ جس ملک کے ساتھ ہماری ”ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی“ ہے اس کے وزیر اعظم سے بھی رجوع کرنا پڑا اور برادر سعودی عرب ملک کی شفقت کے حصول کے لئے نئے آرمی چیف کو تعیناتی کے فوری بعد اس ملک کے جانب سفرکرنا پڑا ہے۔
آئی ایم ایف سے رحم کی توقع رکھتے ہوئے مگر حقائق کا ادراک کرنے کو ہم قطعاََ رضا مند نہیں۔ یہ حقیقت فراموش کئے ہوئے ہیں کہ گزشتہ برس کے فروری میں روس کے یوکرین پر حملہ آور ہوجانے کے بعد دنیا میں ہم جیسے بے تحاشہ ممالک کو مذکورہ ادارے کی توجہ درکار ہے۔یہ ادارہ مگر کوئی خیراتی ادارہ نہیں بلکہ اپنی سرشت میں سفاک ساہوکار ہے۔ساہوکار معمولی قرض دینے سے قبل بھی اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ آپ اصل زرلوٹانے کو قابل ہوں یا نہیں قرض پر لگائے سود کو باقاعدگی سے ادا کرنے کے قابل ہر صورت رہیں۔ اپنے تئیں ہم جیسے ملک کے ”معاشی ماہرین“ اس کی سکت دریافت نہ کرپائیں تو آئی ایم ایف مطلوبہ سکت پیدا کرنے کے راستے دکھادیتا ہے۔صحافتی زبان میں ہم ان راستوں کو ”شرائط“ کہتے ہیں۔
اگست 2018ءمیں اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان صاحب کئی برسوں تک ہمیں یقین دلاتے رہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بجائے وہ خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ان کے لگائے وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے تقریباََنو ماہ تک اس عہد پر عملدرآمد کی بھرپور کوشش کی۔معاشی بدحالی ٹالنے کی راہ مگر ڈھونڈ نہ پائے۔ بالآ خر ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے ”ٹیکنوکریٹ“ سے رجوع کرنا پڑا۔ وزارت خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی انہوں نے آئی ایم ایف سے ایک معاہدے پر دستخط کردئیے۔ مذکورہ معاہدے پر عملدرآمد کے نتیجے میں کساد بازاری کا پھیلنا یقینی تھا۔ اس کے علاوہ بجلی پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کا بھی وعدہ ہوا۔ جو وعدے ہوئے ان کی بدولت ہمیں سانس لینے کی مہلت مل گئی۔ اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ہی مگر ہم کامل شفایابی کے وہم میں مبتلا ہوگئے۔ حفیظ شیخ کو اپنا ”ووٹ بینک“ بچانے تحریک انصاف نے بالآخر فارغ کردیا۔ ان کی جگہ شوکت ترین تشریف لائے۔ منصب سنبھالتے ہی خودکش رعونت سے تکرار شروع کردی کہ پاکستان میں خوشحالی آچکی ہے۔آئی ایم ایف کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں رہی۔چند ہی ماہ بعد مگر ہوش میں آکر ”منی بجٹ“ کے ذریعے مزید محاصل لاگو کرنے کو مجبور ہوگئے۔ آئی ایم ایف پھر بھی مطمئن نہ ہوا۔ عمران حکومت نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو اس کے ساتھ طے ہوئے معاہدے کی شرائط یاد دلاتا رہا۔ اسے مطمئن کرنے کے بجائے عمران خان صاحب نے بجلی اور تیل کی قیمتوں کو ”منجمد“ کرنے کا اعلان کردیا۔
ان کے سیاسی مخالف بھی معاشی ا مور سے نابلد نہیں تھے۔ 2008ءسے دس برس تک مختلف حکومتوں میں برسراقتدار رہے ہیں۔حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی ذہانت وفراست کے سہارے زرداری گیلانی حکومت نے بھی معاشی رونق لگانے کی کوشش کی تھی۔وہ ناکام رہے تو نواز شریف صاحب کی قیادت میں اسحاق ڈار ،خواجہ آصف اور شا ہد خاقان عباسی جیسے کاروباری دھندوں کی ”پوری سمجھ“ رکھنے والے صاحبان معاشی پالیسیاں بناتے رہے۔ انہیں میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی سے کہیں زیادہ خبر ہونا چاہیے تھی کہ آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے سے مفر ممکن ہی نہیں رہا۔ معیشت سے کہیں زیادہ اس فکر میں مبتلا ہوگئے کہ 29نومبر سے چھ ماہ قبل ہی عمران خا ن صاحب ایک ایسے صاحب کو باجوہ صاحب کا جانشین ”نامزد“ کردیں گے جو عمران حکومت کو مستحکم دکھانے کے لئے سرکردہ اپوزیشن رہ نماﺅں کو احتساب کے نام پر جیلوں میں بھجواتے رہے تھے۔
گزشتہ برس کے اکتوبر سے انہوں نے ”مقتدر قوتوں“ اور عمران خان صاحب کے درمیان بڑھتی بدگمانیوں کو بھانپنا شروع کردیا تھا۔باہمی اختلافات بھلاکر اپوزیشن جماعتیں عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے لئے یکسو ہوگئیں۔عمران خان صاحب اس کی وجہ سے فارغ تو ہوگئے۔آئی ایم کے ساتھ ہوا معاہدہ مگر اپنی جگہ برقرار رہا اور عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ اس حکومت کی ”خیراتی مدد“ کرنے کو ہرگز آمادہ نہ ہوا جسے عمران خان صاحب حقارت سے ”امپورٹڈ حکومت“ پکارتے ہیں جو ان کی دانست میں امریکی وزارت خارجہ کے ایک درمیانی سطح کے اہلکار ڈونلڈ لو نے سازش کے ذریعے ہم پر مسلط کی تھی۔
”نامزدگی“ کے خوف سے عجلت میں بنائی شہباز حکومت کی ”جان“ بقول میاں محمد اب شکنجے میں پھنس چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے روبرو اسے تسلیم خم کرنا ہی ہوگا۔ اس کے عوض ”ریاست“ دیوالیہ ہونے سے تو شاید بچ ہی جائے گی۔ ”ریاست“ بچانے کے لئے مگر اب 50ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہی نہیں بلکہ دو لاکھ تک ماہوار آمدنی کے حامل پاکستانی بھی اب خط غربت کے قریب لڑھکناشروع ہوجائیں گے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہر صورت مزید اضافہ کرنا ہوگا۔مسلم لیگ (نون) کا نام نہاد ”ووٹ بینک“ اس کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوبھی گیا تو موجودہ حکومت میں شامل اور اس کی شدید مخالفت میں مشغول سیاستدانوں کی ذاتی زندگیوں میں رتی بھر فرق بھی محسوس نہیں ہوگا۔ شہباز شریف جاتی عمرہ چلے جائیں گے۔ اسحاق ڈار صاحب اپنے لاہور والے گھر کی ملکیت قانونی طورپر واپس لے چکے ہیں۔وہاں بیٹھ کر و ہ عمران خان کو ہماری تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے۔خان صاحب بھی زمان پارک میں خوش وخرم بیٹھے ہیں۔ گھر بیٹھے ہوئے بھی ٹی وی ٹاک شوز کاایجنڈا طے کردیتے ہیں۔ان کے اثاثوں میں گزشتہ چار سالوں کے دوران گرانقدر اضافہ ہوا ہے۔زندگی میں راحت اور شہرت ان کا مقدر ہے۔ معاشی عذاب کا واحد نشانہ میرے اور آپ جیسے بدنصیب ہی رہیں گے جن کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ حقائق بدلنے کی قوت سے مگر قطعاََ محروم ہیں۔