Site icon DUNYA PAKISTAN

مرغی کے گوشت کی قیمت میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور ریٹ کا تعین کن بنیادوں پر ہوتا ہے؟

Share

مرغی کی فیڈ پر پولٹری ایسوسی ایشن اور حکومت کے درمیان رسہ کشی جیسے ماحول میں گذشتہ دنوں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔

پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کی یہ تنبیہ وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی طارق بشیر چیمہ کے اس بیان کے بعد سامنے آئی جس میں انھوں نے ’مضرِ صحت‘ فیڈ پر پلنے والی مرغی نہ کھانے کی تجویز دیتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ مستقبل میں پاکستان صرف ایسے آئل سیڈ درآمد کرے گا جس میں جینیٹکلی ماڈیفائڈ آرگنیزم (جی ایم او) نہیں ہوں گے۔

معاشی بحران اور مہنگائی کے اس دور میں دیگر اشیا خرد و نوش کی طرح پاکستان میں مرغی کی قیمت پہلے ہی کافی بڑھ چکی تھی مگر گذشتہ دو ہفتوں کے دوران فی کلو مرغی کے نرخ میں ڈیڑھ سے دو سو روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ اسی دوران قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اس سب کے بیچ یہ سوال بھی گونج رہا ہے کہ آخر چکن کے ریٹ کا تعین کس طرح کیا جاتا ہے، وہ کیا عوامل ہیں جو قیمت میں کمی یا بےتحاشہ اضافے کا باعث بنتے ہیں اور کیا چکن کی قیمت کے تعین میں حکومت کا بھی کچھ لینا دینا ہے؟

ان سوالات کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ چکن کی طلب اور رسد کا مسئلہ کیا چل رہا ہے؟

ملک صابر علی اسلام آباد کے رہائشی سیکٹر جی الیون مرکز میں مرغی اور گوشت کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار کے روز انھوں نے مرغی کا گوشت 700 روپے فی کلو فروخت کیا ہے جس کی قیمت چند دن پہلے تک 440 سے 480 روپے فی کلو کے درمیان تھی۔

ان کے مطابق اس قیمت میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ دس دن قبل انھیں مقامی منڈی سے فی من مرغی کا گوشت دس سے 11 ہزار روپے میں مل رہا تھا جبکہ آج فی من گوشت کا نرخ 15سے 16 ہزار روپے ہے۔

ان کے مطابق اب زندہ مرغی فی کلو 420 روپے ہے، یعنی دس دن قبل کی قیمت میں پورا 150 روپے اضافہ ہوا۔

ملک صابر علی ان دکانداروں میں سے ہیں جو منڈی میں طلب اور رسد کے حساب سے مرغی کا گوشت فروخت کر رہے ہیں اور وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی متحرک نظر نہیں آ رہا۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب ان کی دکان پر خریدار آ تے ہیں تو وہ یہ شکوہ ان سے کرتے ہیں کہ ’بہت مہنگائی ہو گئی ہے، اب ہم کیا کریں گے؟‘

مرغی کی فیڈ کا معاملہ جس سے بحران پیدا ہوا

پاکستان میں پولٹری کی صنعت سے وابستہ تاجر اس بحران کا ذمہ دار حکومت کو قرار دے رہے ہیں جو پہلے ہی آٹا سمیت اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام کی تنقید کی زد میں ہے۔

ان الزامات اور عوام کی جانب سے کی جانے والی تنقید پر گذشتہ ہفتے 5 جنوری کو وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ طارق بشیر چیمہ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کو یہ تجویز دی تھی کہ مرغی سے دور رہیں۔

انھوں نے بتایا تھا کہ وہ خود بھی مرغی نہیں کھاتے، نہ ہی گوشت کھاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام مرغی کھانا چھوڑ دیں کیونکہ مرغی کی فیڈ مضر صحت ہے۔

پولٹری کے شعبے سے جڑے کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے بڑا بحران مرغی کا نہیں بلکہ اس کی فیڈ کا ہے جس کی وجہ سے منڈی میں مرغی کی رسد میں بہت زیادہ کمی آئی ہے جبکہ طلب بڑھ گئی ہے۔

میاں محمد جاوید، میاں محمد اسلم اور محمد اشرف پولٹری کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

ان کے مطابق اس وقت کراچی کی بندرگاہ پر سویابین اور کینولا سے لدے 12 بحری جہاز گذشتہ ڈھائی ماہ سے کھڑے ہیں اور حکومت ان کی ریلیز کی اجازت نہیں دے رہی جس سے مرغی کی یہ فیڈ فیکٹریوں تک نہیں پہنچ رہی۔

خیال رہے کہ ملکی ذخائر میں بڑی گراوٹ کے پیش نظر بڑی تعداد میں درآمدات رُکی ہوئی ہیں۔

اسلام آباد سے سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد اسلم کے مطابق تکنیکی نوعیت کے الزامات لگا کر ان جہازوں کو بندرگاہ پر روک دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق حکومت کی ناعاقبت اندیشی اور بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوا ہے۔

محمد اشرف کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اعتراض کی وجہ سے اس وقت کراچی کی بندرگاہ میں لنگرانداز 12 جہازوں میں سے پانچ سویابین جبکہ سات کینولا کی فیڈ سے لدے ہوئے ہیں جو وہاں روک دیے گئے ہیں۔ دو مزید جہاز امریکہ سے ایک ماہ سے زائد وقت پہلے یعنی چھ دسمبر کو روانہ ہوئے تھے جو چار یا پانچ دنوں تک کراچی پہنچ جائیں گے۔

ان کے مطابق امریکہ سے کراچی تک ایک جہاز 38 سے 40 دن لگاتا ہے۔ اب یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں بینک انھیں ادائیگی کرنے میں تاخیر نہ کریں۔

محمد اشرف کے مطابق پاکستان گذشتہ ڈھائی سے تین ماہ کے عرصے میں ان لنگرانداز جہازوں کو گھنٹوں کے حساب سے جرمانے ادا کر رہا ہے مگر مسئلے کا مکمل حل تلاش نہیں کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق اس تاخیر کی وجہ سے ایک گھنٹے کا جرمانہ ایک ہزار ڈالر دینا پڑ رہا ہے۔

میاں اسلم کا کہنا ہے کہ پولٹری کی صنعت سے وابستہ ان کے ساتھی یہ مسئلہ وزیراعظم تک لے کر گئے اور پھر وفاقی کابینہ نے اس فیڈ کی مقامی مارکیٹ تک ترسیل کی منظوری بھی دی مگر پھر بھی پولٹری فارمز تک فیڈ کی ترسیل ممکن نہیں بنائی جا سکی ہے۔

ان کے مطابق مرغی کو سٹاک نہیں کیا جا سکتا اور فیڈ کی کمی کی وجہ سے رسد کم ہو گئی ہے جس سے قیمتیں بڑھی ہیں۔

پولٹری ایسوسی ایشن کے صدر محمد اشرف نے کہا کہ ٹریڈ ڈیپارٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ، ایف بی آر اور پھر وفاقی حکومت نے یہ اعتراض اٹھایا کہ مرغی کے لیے درآمد کی جانے والی فیڈ میں جی ایم او (جینیٹیکلی موڈیفایڈ آرگینزم) شامل ہے جو مضر صحت ہے۔

وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ سنہ 2015 سے پہلے جی ایم او سویابین پولٹری فیڈ میں شامل نہیں تھی۔ ’پولٹری مافیا نے چکر چلا کر مقامی سویا بین پر ٹیکسز لگوا دیے ہیں جس سے امپورٹڈ سویابین سستی اور مقامی سویابین مہنگی ہو گئی۔‘

ان کے مطابق ’رولز میں جی ایم او خریدنے کی اجازت نہیں ہے‘ اور پاکستان نے اس سے متعلق ایک بین الاقوامی معاہدے پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔

وفاقی وزیر کے مطابق جب سے انھوں نے سٹینڈ لیا ہے تو پولٹری کے صنعت کاروں نے مقامی فیڈ خریدنا شروع کر دی۔

میاں اسلم کے مطابق اگر حکومت بہتر تحقیق کرے تو پاکستان خود بھی یہ فیڈ تیار کر سکتا ہے مگر اس مقصد کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق وہ جس کمپنی سے فیڈ لے رہے تھے اب وہ فیڈ تیار نہیں کر پا رہی جس کی وجہ سے انھیں فیڈ کے لیے ایک اور کمپنی سے معاہدہ کرنا پڑا ہے۔ ’مقامی سطح پر دستیاب فیڈ سے مرغی کی جلد پرورش نہیں ہوتی اور اس سے پھر سپلائی کا بحران پیدا ہو رہا ہے اور پولٹری فارمز بند ہو رہے ہیں۔‘

محمد اشرف کے مطابق پاکستان ’جی ایم او‘ والی فیڈ سنہ 2015 سے نہیں بلکہ جدید تحقیق کے نتائج سے متفق ہو کر 1986 سے درآمد کر رہا ہے۔

قیمت کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟

پولٹری ایسوسی ایشن کے صدر محمد اشرف کے مطابق فیڈ کا ریٹ حکومت، پولٹری فیڈ اور پولٹری فارمنگ والے بیٹھ کر طے کرتے ہیں۔ ’حکومت اجازت دیتی ہے تو ریٹ بڑھ جاتے ہیں ورنہ نہیں۔‘

ان کے مطابق حکومت نے فیڈ کا فی پیک نو ہزار روپے ریٹ مقرر کیا ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’مرغی یا انڈے کا ریٹ درحقیقت طلب اور رسد پر ہوتا ہے۔‘ ان کے مطابق آج اگر 380 کی مرغی مارکیٹ میں فروخت ہوئی ہے تو فارم والا کوشش کرتا ہے کہ فارم سے 380 کی بِک جائے۔

ان کے مطابق ہر جگہ اور ہر شہر کے نرخوں میں تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے کیونکہ مرغی کے نرخ میں ہر پندرہ بیس کلومیٹر کے بعد ایک روپے کا فرق پڑ جاتا ہے۔

محمد اشرف کے مطابق مرغی کی پرورش تو دور دراز علاقوں میں ہوتی ہے جبکہ پنجاب میں اس کی اصل مارکیٹ شہروں میں ہے جیسے پنجاب میں لاہور، فیصل آباد یا ملتان شامل ہیں، جہاں سفری اخراجات کے بعد مرغی کے ریٹ کا تعین کیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق اگرچہ مرغی کے نرخ طے کرنے میں حکومت کا براہ راست کوئی تعلق نہیں بنتا مگر پھر بھی ’حکومت (ٹریڈ ڈائریکٹوریٹ) ہمیں غیرضروری قیمت بڑھانے سے روکتی ہے، دکانوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔‘

ان سمیت کئی ماہرین کی رائے ہے کہ دیگر اشیائے خرد و نوش کی طرح مرغی کی قیمت کا تعین طلب اور رسد کے اعتبار سے ہوتا ہے ناکہ حکومتی اعداد و شمار اور تخمینے کی بنیاد پر۔

میاں اسلم بھی اس رائے سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق مرغی کو اچھی فیڈ ملے تو پھر اس کی جلد پرورش ممکن ہوتی ہے اور اس سے مارکیٹ میں اس کی رسد بڑھ جاتی ہے، یوں قیمت خود بخود کنٹرول میں آ جاتی ہے۔

محمد اشرف اور میاں اسلم کی رائے میں فیڈ پر اعتراض اٹھا کر ملک میں چکن کا بحران پیدا کیا جا رہا ہے جبکہ پوری دنیا میں جی ایم او سے سویابین بنتی ہے اور اسے امریکہ سمیت دیگر ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔

محمد اشرف کے مطابق پولٹری کی صنعت اب اس کوشش میں ہے کہ وہ حکومت پر انحصار کیے بغیر کوئی متبادل تلاش کرے تاکہ مرغی مارکیٹ میں سستے داموں دستیاب بنائی جا سکے۔

محمد اشرف کے مطابق وہ اس سارے مسئلے کو لے کر سب سے پہلے محتسب اعلیٰ کے پاس گئے جنھوں نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا اور اس کے بعد وہ وزیراعظم کے پاس چلے گئے۔ ان کے مطابق وزیراعظم کے مشیر طارق پاشا نے ان سے کہا کہ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے کوئی ’وے آؤٹ‘ دیں۔

محمد اشرف کے مطابق اب برف تھوڑی تھوڑی پگھلی ہے، امید ہے کہ دو تین دن میں بہتری آ جائے گی۔

ان کے مطابق کینولا والا ایک جہاز ’ان لوڈ‘ ہو گیا ہے اور فیڈ فیکٹریوں تک پہنچ گئی ہے۔ ان کے مطابق انھیں اب یہ بتایا گیا ہے کہ دوسرا جہاز کل ان لوڈ ہو گا۔

خیال رہے کہ اس وقت کراچی بندرگاہ پر ٹوٹل سات کینولا سے لدے جہاز لنگر انداز ہیں، جن میں سے پانچ ابھی ’ان لوڈڈ‘ ہیں۔

محمد اشرف کے مطابق سویا بین والے جہازوں کو بھی اجازت نامہ مل گیا ہے اور اب پیر سے ان سے بھی فیڈ کی ترسیل شروع ہونے کا امکان ہے۔

ان کے مطابق اس وقت چار جہازوں کی ’پیمنٹ‘ پاکستان کا سٹیٹ بینک کر چکا ہے جبکہ پانچویں جہاز کی بھی آدھی قیمت ادا کی جا چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر سب جہازوں کی ادائیگی بینک نہیں کرتے تو پھر مسئلہ بن سکتا ہے۔

Exit mobile version