Site icon DUNYA PAKISTAN

ہم نیند کے دوران بیڈ سے گِرتے کیوں نہیں؟

Share

اگر آپ رات کو آنکھیں بند کریں اور آپ کی آنکھیں صبح سویرے خود بخود ہی کُھل جائیں تو آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھیں اچھی اور پُرسکون نیند میسر ہوتی ہے۔

ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ سوتے وقت ہمارا جسم اور دماغ دونوں حرکت میں ہوتے ہیں۔

ہم خواب دیکھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں، لوگوں پر چیختے ہیں۔ کبھی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی اتار دیتے ہیں۔ بعض اوقات ساتھ سوئے ہوئے فرد کو لات بھی مار دیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو بستر پر گھومتے، جھومتے اور جھول لیتے ہیں۔

مگر چاہے ہم 65 سینٹی میٹر کے کیمپنگ بیڈ پر ہوں یا 200 سینٹی میٹر کے کِنگ سائز بیڈ پر، ہم میں سے اکثر لوگ وہیں بیدار ہوتے ہیں جہاں رات سوئے ہوں، اس بات سے قطع نظر کہ خواب خرگوش میں رات کتنی ہی مصروف گزری ہو۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوتے ہوئے بیڈ سے گرتے کیوں نہیں؟

یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں پروفیسر رسل فوسٹر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ حیرانی کی بات ہے کیونکہ نیند میں ہمارا اردگرد سے رابطہ بالکل منقطع ہوتا ہے۔ صرف اسی صورت میں آنکھ کھلتی ہے اگر کوئی چیخے کہ ’اُٹھ جاؤ‘۔‘

’ہمارا جسم ریسپٹرز کی مدد سے معلومات جمع کرتا رہتا ہے۔‘

یعنی ایک حِس ایسی موجود ہے جو کبھی سوتی نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ چھٹی حِس کی طرح ہے۔ جب ہم بچے ہوتے ہیں تو یہ اس قدر اچھی نہیں ہوتی۔ اسی لیے بچپن میں کچھ لوگ بیڈ سے گِر جاتے ہیں۔ مگر عمر کے ساتھ اس میں بہتری آتی ہے۔‘

تو نیند میں بھی ہم پوری طرح اپنے حالات سے بے خبر نہیں ہوتے۔ مگر اس کا اثر تب نہیں ہوتا جب ہم نیند میں چلنے لگیں اور ہماری دیوار سے ٹکر ہو جائے۔

کیا اس کا چھٹی حس سے کوئی تعلق ہے؟ فلموں اور ڈراموں میں اسے ایسی حِس ظاہر کیا جاتا ہے جو ہمیں کچھ بُرا ہونے سے پہلے بے چین کر دیتی ہے یا پھر ہمارا بھوتوں سے رابطہ کراتی ہے۔

مگر فوسٹر جیسے سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں۔ اسے سائنس کی زبان میں پروپریوسیپشن کہتے ہیں اور سائنسدانوں کو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے اس کا علم رہا ہے۔

نیورو سائنس کے کچھ ماہرین نے 19ویں صدی میں اس حوالے سے تحقیق کی تھی جن میں ’عظیم سائنسدانوں میں سے ایک‘ فرانسیسی شہری کلاڈ برنارڈ، سکاٹ لینڈ کے معروف ایناٹمسٹ سر چارلس بیل (جنھیں نیورولوجی میں بڑے ماہرین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے) اور سر چارلس شیرنگٹن شامل ہیں۔ شیرنگٹن کو 1932 میں طب کا نوبیل انعام ملا تھا اور انھوں نے ہی چھٹی حس کا نام پروپریوسپیشن رکھا تھا۔

اس بارے میں زیادہ معلومات بہت بعد میں ملیں۔

آپ خود بھی اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ اپنی آنکھیں بند کریں اور اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی بائیں ہاتھ کی کہنی پر لگائیں۔ یہ آسان تھا نا؟ آپ کے لیے یہ کیسے ممکن ہوا؟

آپ کو معلوم تھا کہ آپ کی انگلی کدھر جا رہی ہے اور آپ کی کہنی کہاں واقع ہے۔

مزید یہ کہ خود کو دیکھے بغیر آپ کسی بھی لمحے یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ کھڑے، بیٹھے یا لیٹے کیسے نظر آ رہے ہیں۔

یہ پروپریوسیپشن ہے: یعنی جسم کے ہر حصے کے بارے میں تمام آگاہی۔

یہ تب ممکن ہوتا ہے جب ریسپٹر آپ کے پٹھوں، نسوں، جوڑوں اور جِلد کو نیورو فزیولوجیکل سگنل بھیجتے ہیں۔ اس سے آپ کے دماغ کو پتا چل جاتا ہے کہ اس وقت آپ کے پٹھوں کی لمبائی اور چوڑائی کیا ہے، جوڑے کس زاویے پر ہیں اور جِلد کیسی حرکت میں ہے۔

اس سے ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ جوڑے کس طرف مڑ رہے ہیں، ہم کس پوزیشن میں ہیں اور آیا ہماری حالت میں توازن ہے۔

مثلاً جب آپ توازن کھونے لگیں تو آپ کو سنبھلنے میں مدد مل جاتی ہے۔

لیکن ایک اور چیز ہماری مدد کرتی ہے۔ تصور کریں کہ آپ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور آپ آگے کی جانب بڑھتے ہیں۔

آپ کو فوراً یہ احساس ہو گا کہ آپ کے جسم کا کشش ثقل سے تعلق بدل رہا ہے۔

کان کے اندر ویسٹیبولر مادے کا نظام ہمارا توازن برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کا آنکھوں سے بھی تعلق ہوتا ہے جو ہمیں آگے جانے میں مدد کرتی ہیں۔

مگر سوتے ہوئے آنکھیں تو بند ہوتی ہیں۔ تو پھر ہم بیڈ سے کیوں نہیں گرتے؟

امریکہ میں پنسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی میں نیورولوجی کے ماہر اپنی تحقیق میں بتاتے ہیں کہ پروپریوسیپشن ہمارے جسم کے ’جی پی ایس (گلوبل پوزیشنگ سسٹم)‘ کا حصہ ہے۔ یہ ہماری روزمرہ زندگی میں اہم ہے کیونکہ یہ ہمیں نقل و حرکت میں مدد کرتا ہے۔

’پروپریوسیپشن کی مدد سے ہماری پوزیشن، جسم کے ہر حصے کی رفتار اور رُخ کا تعین ہوتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہمیں یہ نظر آئے یا نہ آئے۔ لہذا اس سے دماغ ہماری حرکات پر نگرانی رکھتا ہے۔‘

انھی خصوصیات کی وجہ سے ہم سوتے ہوئے کھل کر ہِل جُل لیتے ہیں مگر پھر بھی بیڈ کی حدود میں رہتے ہیں۔

Exit mobile version