’بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی‘، ’ز حال مسکین مکن تغافل‘، ’کاہے کو بیاہے بدیس کہ رانی بیٹی راج کرے۔۔۔‘ یہ چند معروف گیت ہیں جو کبھی نہ کبھی آپ کی سماعت سے ضرور ٹکرائے ہوں گے۔
یا پھر ’من تو شدم تو من شدی‘، ’موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے‘، ’سب سکھیوں میں چادر میری میلی‘، ’میں تو پیا سے نین لڑائی آئی رے‘ جیسے کلام جو گذشتہ 700 برسوں سے دنیا بھر میں کسی نہ کسی شکل میں گونج رہے ہیں اور داد تحسین حاصل کر رہے ہیں۔
مذکورہ تمام کلام امیر خسرو کے ہیں جنھیں فارسی کے معروف شاعر حافظ شیرازی نے ’طوطی ہند‘ کے لقب سے یاد کیا۔ خسرو کے کلام میں فارسی کی سحر آفرینی اور دیسی زبان کی شیرینی وہ امتزاج پیدا کرتی ہے کہ لوگ سر دھننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
شاید اسی لیے غالب جیسے عظیم شاعر نے اپنے شعروں کے حُسن کو خسرو کے پاؤں کی دھول قرار دیتے ہوئے لکھا:
غالب مرے کلام میں کیوں کر مزا نہ ہو
پیتا ہوں دھوکے خسروِ شیریں سخن کے پاؤں
دنیا کے باکمال افراد کی فہرست میں خسرو
دنیا کے باکمال افراد کی اگر ایک فہرست تیار کی جائے تو ان میں بقراط، سقراط، ارسطو سے لے کر شیکسپیئر، گوئٹے، رومی، خیام اور غالب جیسے نابغۂ روزگار نظر آتے ہیں لیکن ان میں ایک شخص ایسا باکمال ہے جس کا زور نہ صرف شعر و ادب میں نظر آتا ہے بلکہ تاریخ و تذکرہ نویسی اور نثرنگاری کے ساتھ ساتھ موسیقی میں بھی ان کی موشگافیاں جا بجا جلوہ نما نظر آتی ہیں۔
یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ سات سلاطین دہلی کا دور دیکھنے والے طوطی ہند ملک الشعرا امیر خسرو دہلوی (1353-1225) ہیں۔ وہ بیک وقت ہمہ جہت شخصیت کے حامل رہے ہیں۔ اگر ایک طرف ان کے ہاں اردو اور ہندی دو زبانوں کے ابتدائی آثار پائے جاتے ہیں وہیں وہ ایک تہوار کے بھی طرحدار ہیں۔
دنیا انھیں شاعر اور صوفی کے روپ میں جانتی ہے لیکن جب آپ گوگل پر انھیں تلاش کریں گے تو ویکی پیڈیا میں انھیں ’سنگر‘ یعنی گلوکار کے روپ میں پائیں گے۔
اور ایسا کیوں نہ ہو کہ قوالی جیسی معروف صنف کے وہی تو موجد ٹھہرے اور پھر گائیکی کے کئی راگ کے طرح دار بھی جن میں خیال، سازگری، باخرز، عشاق وغیرہ شامل ہیں۔
یہی نہیں، ان کے سر دنیا کے دو مشہور ساز کے موجد ہونے کا سہرا بھی جاتا ہے، ان میں طبلہ اور ستار شامل ہیں۔
اردو کے مشہور تاریخ داں شبلی نعمانی کے مطابق خسرو پہلے اور آخری موسیقار ہیں جن کو ’نائیک‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خسرو مغل بادشاہ اکبر کے دربار سے منسلک درباری تان سین سے بھی بڑے موسیقار تھے۔
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں فارسی کے استاد اور امیر خسرو پر کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر اخلاق احمد آہن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان موسیقی کا گڑھ رہا ہے جہاں ایک راگ کی ایجاد سے کوئی بھی شخص امر ہو سکتا ہے، وہاں امیر خسرو نے بہت سارے راگ ایجاد کیے، انھوں نے سماع کی محفل کا روپ بدل دیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہندوستان کے جغرافیہ اور ثقافت کو پیش کرنے والے وہ پہلے شخص ہیں۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ’دی آئیڈیا آف انڈیا‘ ان ہی کی دین ہے جسے اُن کی تصنیف ’نُہ سپہر‘ (نو آسماں) میں پیش کیا گیا ہے۔
پروفسیر اخلاق نے کہا کہ ’آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو کوئی دوسرا ایسا شخص نظر نہیں آئے گا جس کے شعر و ادب سے دو ایسی زبانوں (اردو اور ہندی) کے سوتے پھوٹے ہوں جن کے بولنے والوں کی تعداد دنیا میں کسی بھی زبان سے کم نہیں کہی جا سکتی ہے۔‘
اپنی شعر گوئی کے بارے میں خود امیر خسرو اپنی تصنیف ’تحفتہ الصغر‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ’اس کمسنی میں بھی جبکہ میرے دودھ کے دانت ٹوٹ رہے تھے اشعار میرے منھ سے موتیوں کی مانند جھڑتے تھے۔‘
سرسوتی اور لکشمی دونوں مہربان
ہندوستان میں یہ کہاوت عام ہے کہ علم والوں کے پاس دولت نہیں ہوتی یعنی علم و فضل کی دیوی سرسوتی اور دھن دولت کی دیوی لکشی میں خدا واسطے کا بیر ہے یعنی کسی کے یہاں اگر ایک جائے تو دوسری نہیں جاتی، مطلب جائے گی تو ایک ہی جائے گی۔
لیکن امیر خسرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر لکشمی اور سرسوتی دونوں یکساں طور پر مہربان تھیں۔
چنانچہ امیر خسرو پر سب سے معتبر تحقیقی کتاب کے مصنف وحید مرزا لکھتے ہیں کہ خسرو نے سات بادشاہوں کو تخت نشین ہوتے دیکھا۔ جب وہ جوانی کی عمر کو پہنچے تو اس وقت غیاث الدین بلبن دہلی کے تخت پر متمکن تھے اور ان کے بھتیجے کشلو خان عرف ملک چھجّو امرائے دربار میں شامل تھے اور وہ اپنی سخاوت کے لیے اتنے مشہور تھے کہ اپنے وقت کے ’حاتم‘ کہلاتے تھے۔
جب ملک چھجو تک خسرو کے کمالات کی خبریں پہنچیں اور انھوں نے خسرو کے کلام کو سُنا تو انھیں اپنے مصاحب درباریوں میں شامل کر لیا۔ اتفاق سے ایک دن بلبن کا بیٹا اور سمانہ کا حاکم بغرا خان ان کی محفل میں موجود تھا۔
بغرا خان نے جب خسرو کا کلام سنا تو اتنا متاثر اور خوش ہوا کہ ایک کشتی بھر رقم خسرو کو انعام میں نذر کر دی۔ یہ بات کشلو خان کو ناگوار گزری اور وہ خسرو سے ناراض رہنے لگے تو خسرو بغرا خان کے پاس ہی چلے گئے جہاں ان کی بہت قدرومنزلت ہوئی۔
خسرو کے بارے میں بات کرتے ہوئے پروفیسر اخلاق آہن نے کہا کہ ان کے نام میں امیر کا شامل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تا عمر ریاست سے منسلک رہے اور نہ صرف درباریوں میں صاحب علم کی حیثیت سے شامل رہے بلکہ کہ فن سپہ گری میں بھی انھیں درک حاصل تھا اور انھوں نے کئی بادشاہ وقت کے ساتھ جنگوں میں بھی شرکت کی۔ یہاں تک کہ انھیں دربار سے ہر موقعے اور مناسبت سے انعام و اکرام سے نوازا جاتا رہا۔
چنانچہ اس کی بابت خسرو خود بھی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح وہ بغرا خان کے بعد ان کے بڑے بھائی اور بلبن کے بڑے بیٹے شہزادہ محمد قآن کے مصاحب بنے۔
’چونکہ میری قسمت کو ان سے وابستہ ہونا تھا اس لیے انھوں نے از روئے لطف میرے سخن کے بارے میں دریافت کیا۔ میں چند تازہ کہے ہوئے اشعار ان کے پاس لے گيا۔ شہزادے نے ان کی بڑی ستائش کی اور مجھے ایک خلعت اور کلاہ عطا کی۔‘
خسرو خواص سے زیادہ عوام کے شاعر
اگر ایک جانب حافظ اور سعدی جیسے بڑے معاصر شاعروں نے خسرو کی شعر گوئی کا لوہا مانا تو دوسری جانب وہ عوام میں بے حد مقبول تھے۔ چنانچہ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے مرزا وحید اپنی تحقیقی کتاب میں اس بابت لکھتے ہیں:
’میرے خیال میں جو چیز امیر خسرو کے نام کو سب سے زیادہ عام بنانے کا باعث ہوئی وہ ان کی ظرافت طبع، ان کی حاضرجوابی اور ان کی قوت مطابقت تھی۔ وہ جدھر کا بھی رُخ کرتے لوگ ان کی آؤ بھگت کرتے تھے۔ اس لیے کہ وہ سوسائٹی کے جس طبقے میں بھی چلے جاتے تھے اپنے آپ کو اسی طبقے کے افراد کی ذہنیت کے مطابق بنا سکتے تھے۔‘
’اگر بادشاہوں کے دربار میں شعرو شاعری کی بحثوں میں حصہ لیتے تھے تو اپنے پیر (نظام الدین اولیا کے یہاں) فقر اور تصوف، فلسفے اور حکمت کے دقائق کی موشگافی کرتے، اگر مولویوں اور پنڈتوں سے مذہب اور دھرم کے مسائل پر مناظرہ کر سکتے تھے تو سیدھے سادے شہریوں اور اجڈ دیہاتیوں کو خوش کرنے کے لیے پہیلیاں، مکرنیاں، چھند اور دوہے بھی برجستہ کہہ سکتے تھے۔‘
خواتین میں مقبول
امیر خسرو کی ’مکرنیاں‘ یا ’کہہ مکرنیاں‘ اس بات پر صاد ہیں کہ وہ خواتین میں بھی بے حد مقبول تھے۔ کہہ مکرنیاں شاعری کی ایسی صنف ہے جس میں بات کہہ کر مکر جایا جائے اور خسرو کی کہہ مکرنیاں اس معاملے میں بہت مشہور ہیں جس میں خواتین کی باتوں کو پیش کیا گیا ہے۔
ان سے خواتین کے چہل کا ذکر مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ’آب حیات‘ میں نقل کیا ہے کہ ایک بار خسرو کو راہ چلتے پیاس لگ جاتی ہے اور وہ پانی کے لیے کنویں پر جاتے ہیں جہاں چار سہیلیاں یا پنہاریاں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک انھیں پہچانتی تھی، اس نے اوروں سے کہا کہ ’دیکھو یہی ہے خسرو ہے۔ تو ایک نے پوچھا کہ کیا تم ہی خسرو ہو جس کے گیت سب گاتے ہیں۔ پہیلیاں، کہہ مکرنیاں اور انمل سنتے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں۔ یہ سنتے ہی ان میں سے ایک نے کہا۔ مجھے کھیر کی بات کہہ دو۔ دوسری بولی، مجھے چرخے کی۔ تیسری نے کہا، مجھے کتے کی اور چوتھی بولی۔ مجھے ڈھول کی بات کہو۔‘
امیر خسرو نے کہا کہ ’پہلے پانی تو پلا دو، مارے پیاس کے دم نکلا جا رہا ہے۔‘ وہ بولیں: ‘جب تک ہماری فرمائش پوری نہیں ہوگی پانی نہیں پلائیں گے۔‘
انھوں نے جھٹ کہا:
کھیر پکائی جتن سے، چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا
لا پانی پلا۔۔۔
خسرو کی نظر میں ہندوستان
خسرو کی نظر میں ہندوستان ساری دنیا پر کئی اعتبار سے فضیلت رکھتا ہے۔ پروفیسر اخلاق آہن کا خیال ہے کہ ان کے ہاں جا بجا ہندوستان کی تعریف و توصیف نظر آتی ہے اور اس طرح ان کے ہاں ہندوستان کی تصور ایک جنت ارضی کے تصور سے ملتا ہے۔
سید سباح الدین عبدالرحمان نے ’ہندوستان امیر خسرو کی نظر میں‘ جیسی اپنی تصنیف میں خسرو کی تصانیف کے حوالے سے اس کا مفصل ذکر کیا ہے۔
وہ اپنی مثنوی ’نہ سپہر‘ میں ہندوستان کے جنت ارضی ہونے کے اسباب یوں بیان کرتے ہیں کہ ’حضرت آدم یہاں جنت سے آئے۔ یہاں طاؤس جیسا جنت کا پرندہ ہے، یہاں سانپ بھی باغ فلک سے آیا، حضرت آدم ہند سے باہر نکلے تو فردوس کی نعمتوں سے محروم ہونے لگے، یہاں خوشی اور عیش کے سامان کے ساتھ عطریات اور خوشبویات ہیں، روم و رے مین دو تین مہینے پھول کھلتے ہیں لیکن ہندوستان کی سرزمین خوشبو اور پھولوں سے ہمیشہ گلزار رہتی ہے، ہندوستان اپنی نعمتوں کی وجہ سے خلد بریں ہے۔‘
چنانچہ جب دہلی میں شاہ جہاں نے لال قلع تعمیر کروایا تو نہر بہشت کے دروازے پر انھوں نے خسرو کا ہی شعر کندہ کروایا:
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
ہندوستان کی حسینائیں دنیا بھر کی حسیناؤں سے حسین
ہندوستان کے موسم، پھل پھول کے علاوہ انھوں نے یہاں کے ہنرمندوں کی تعریف بھی کی ہے اور خواتین کے حسین ہونے کا ذکر بھی کیا ہے۔
حسن ہند میں وہ لکھتے ہیں: ’ہندوستان کی حسین عورتیں مصر، روم، قندھار، سمرقند، خطا، ختن، خلج اور تمام حسینان عالم پر اپنے حسن صفات میں فائق ہیں۔‘
وہ دوسرے خطے کی حسیناؤں سے مقابلہ کرتے ہوئے یہ نکات پیش کرتے ہیں کہ ’یغما اور خلخ کا حسن بھی ہندوستان کے حسن کے برابر نہیں۔ کیونکہ اول الذکر (یغما) کے حسین تیز چشم اور ترش رخ ہوتے ہیں، خراسان کے حسین سرخ و سپید ضرور ہوتے ہیں، لیکن جیسے ان کے پھول ہیں ویسے حسین بھی، یعنی رنگ ہے لیکن بو نہیں، روس و روم (ترکی) کے حسینوں میں عجز و انکسار نہیں پایا جاتا وہ یخ (برف) کی طرح سرد اور سفید ہوتے ہیں، تاتاری حسینوں کے لبوں پر ہنسی دکھائی نہیں دیتی، ختن کے حسن پر نمک نہیں ہوتا، سمرقند اور بخارا کی خوبصورتی میں شیرینی نہیں ہوتی، مصر و روم کے سیمیں بدن ہندوستان کے حسینوں کی طرح چالاک اور چست نہیں ہوتے۔‘
خسرو ساؤنڈ انجینیئر
خسرو کی تلاش میں میری ملاقات پردیش شرما سے ہوئی جنھوں نے عقیدت اور محبت میں اپنے نام کے ساتھ ہی خسرو لگا رکھا۔ ان کے یہاں خسرو پر جتنا ذخیرہ ہے شاید ہی کسی لائبریری میں موجود ہو۔
انھوں نے کئی زبانوں میں خسرو پر موجود مواد کو تقریبا دو دہائیوں میں یکجا کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان پر ہزاروں صفحات لکھے ہیں۔ انھوں نے سینکڑوں نادر ریکارڈز بھی دکھائے جن میں ان کے کلام کو مختلف گلوکاروں نے آواز دی ہے۔
گفتگو کے دوران انھوں نے خسرو کو ’ساؤنڈ انجینیئر‘ کہا اور اس پر انھوں نے خسرو کے کلام کے ہندوی کلام سے چند نمونے بھی اکٹھا کر رکھے ہیں۔ انھیں فارسی نہیں آتی لیکن محبت زبان کا مرہون منت کب رہا ہے۔ وہ ہندوی اور دوسری زبانوں کے توسط سے ہی ان کے رنگ میں رنگنے لگے ہیں۔
جدید اصطلاح میں ساؤنڈ انجینیئر کا کام مختلف ہے لیکن انھوں نے اپنی شاعری میں جس طرح سے آوازوں کا استعمال کیا ہے اس کی وجہ سے انھیں وہ دنیا کا پہلا ساؤنڈ انجینیئر مانتے ہیں۔ اس کی مثال ان کی فارسی کا ایک مشہور مصرع بھی ہے۔
من تو شدم، تو من شدی، من تن شدم، تو جان شدی
اسی طرح پروفیسر اخلاق آہن نے امیر خسرو پر اپنی کافی ٹیبل بک میں لکھا ہے کس طرح انھوں نے دھنیے کی دھن کو شعر میں موضوع کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار خسرو اپنے موسیقی کے شاگردوں کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے کہ دھنیے کے روئی دھننے کی آواز سنائی دی۔ ان میں سے ایک نے کہا دھنیا جس تال پر روئی دھنتا ہے اسے آپ لفظوں میں کیسے بیان کریں گے تو امیر خسرو نے یہ تال بتائی:
‘درپۓ جاناں جاں ہم رفت، جاں ہم رفت، جاں ہم رفت
رفت رفت جاں ہم رفت، این ہم رفت و آں ہم رفت
آنہم رفت آنہم رفت، اینہم آنہم اینہم آنہم رفت
رفتن رفتن رفتن رفتن، دہ زہ رفتن دہ، رفتن دہ۔۔۔
بہر حال خسرو کے تمام قارئین کا خیال ہے کہ ان کے کمال کو اب تک سامنے نہیں لایا جا سکا اور ان پر ان کے شایان شان کام نہ ہو سکا ہے۔ ان کی ہندوی شاعری کے ذخائر کمیاب ہو چکے ہیں۔
پردیپ کمار بتاتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں خسرو پر سب سے زیادہ کام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوا اس کے بعد سنہ 1970 کی دہائی میں پوری دنیا میں خسرو کا جشن منایا گیا جس میں سب سے زیادہ پاکستان کا تعاون رہا۔
امیر خسرو کے سات سو سالہ جشن کے حوالے سے جو تقریبات ہوئیں اس کی مناسبت سے ریکارڈز بھی جاری کیے گئے۔ ان میں سے ایک ریکارڈ پر اردو اور انگریزی میں معروف نقاد اور محقق ظ انصاری نے خسرو کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ خسرو نے فارسی ترکی اور ہندوستانی میں تقریبا پانچ لاکھ اشعار کہے جن میں سے صرف ایک تہائی ہم تک پہنچے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’باپ ترک تھے، ماں ہندوستانی، امیر خسرو پلے بڑھے ننھیال میں (پٹیالی ضلع ایٹا، اترپردیش)، خود کو ترک ہندوستانی کہتے تھے اور کئی ہندوستانی زبانیں جاننے اور سنسکرت سیکھنے کے دعویدار تھے۔ وہ اپنے وقت کے زبردست عالم، گائیک، شاعر، ادیب اور امیر شمار ہوتے تھے۔ تب سے آج تک ہندوستان میں نہ اتنا بڑا فارسی شاعر پیدا ہوا، نہ شاعروں میں اتنا بڑا ماہر موسیقی، ان کی شاعری میں بھی ہند ایرانی موسیقی کی دھنیں یکجان ہو گئی ہیں۔‘
مسلمانوں میں بسنت تہوار کے بانی
امیر خسرو کے ہاں بسنت کی مناسبت سے بہت اشعار ملتے ہیں اور صوفیائے چشتیہ کے ہاں بسنت کا تہوار بھی منایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے پہلے مسلمانوں میں بسنت کا رواج نہیں تھا۔ لیکن اس کی بنیاد کچھ اس طرح پڑی کہ خسرو کے پیرو مرشد حضرت نظام الدین اپنے بھانجے تقی الدین نوح کی موت پر انتہائی غمزدہ اور گم سم رہنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ تقریبا چھ ماہ کا عرصہ اسی کیفیت میں گزرنے لگا اور ان کے مریدان بھی غمزدہ رہنے لگے۔ امیر خسرو کو ان کی فکر لاحق رہنے لگی اور وہ ان کی طبیعت بحال کرنے کی فکر میں رہنے لگے کہ ایک دن حضرت نظام الدین اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ تالاب کی سیر کو نکلے۔ کسی وجہ سے امیر خسرو پیچھے رہ گئے۔ وہ دن بسنت پنچمی کا دن تھا۔
راستے میں ان کی نظر ایک بھیڑ پر پڑی۔ بستی حضرت نظام الدین اور چراغ دہلی کے درمیان کالکا جی مندر کے گرد بسنت کا میلہ لگا ہوا تھا اور لوگوں نے زرد لباس پہن رکھے تھے اور موج و مستی کے عالم میں گانا بجانا کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ بسنت کے دن وہ دیوی کی رضاجوئی کے لیے ہر چیز کو پیلے یا زرد رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ پیلے کپڑے، پیلے پکوان، پیلے پھول۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گاگر بھی سرسوں کے پھولوں کے ہار اور گجرے سے سجاتے اور اسے دیوی پر نذر کرتے۔
امیر خسرو کو اپنے پیرو مرشد کو اسی طرح خوش کرنے کا خیال دل میں آیا انھوں نے اپنی پگڑی میں سرسوں اور گیندے کے پھول لٹکائے اور چند اشعار موزوں کرکے خاص انداز میں گاتے ہوئے تالاب کی جانب روانہ ہو گئے۔
حضرت نظام الدین اس وقت اپنے بھانجے کی مزار پر تھے۔ انھوں نے امیر خسرو کو عجیب رنگ ڈھنگ میں کیا دیکھا کہ ان کی جانب سارے رنج و غم بھلا کر متوجہ ہو گئے۔ انھوں نے یہ شعر پڑھے:
اشک ریزہ آمدہ است بہار
(بہار کے بادل چھائے ہوئے ہیں تو بھی آنسو بہا)
ساقیا گل بریز بادہ بہار
(اے ساقی پھول بکھیر اور شراب لے آ)
دوسرے مصرعے کا سننا تھا کہ نظام الدین اولیا یکسر بدل گئے اور اسی رنگ میں رنگ گئے۔ اس کے بعد یہ تہوار بطور خاصہ سلسلہ چشتیہ میں نظر آنے لگا اور آج بھی حضرت نظام الدین میں ان کے مزار پر منایا جاتا ہے۔
کہتے ہیں اسی وقت سے بسنت کا میلہ مسلمانوں نے بھی منانا شروع کیا۔ دہلی میں چاند رات کو ایک پہاڑی پر اللہ میاں کی بسنت چڑھائی جاتی۔
پہلی تاریخ کو قدم رسول پر، اس کے بعد خواجہ صاحب چراغ دہلی کے مزارپر، پھرحضرت نظام الدین کے ہاں قوال بسنت کے گیت گاتے اور سب سے آخر میں مولانا تقی الدین نوح کے مزار پر بسنت چڑھائی جاتی۔
امیر خسرو کا حضرت نظام الدین سے اتنا والہانہ لگاؤ تھا کہ ان کے انتقال کے بعد رنجیدہ رہنے لگے اور چند ہی ماہ میں انھوں نے بھی دنیا سے کوچ کیا۔
حضرت نظام الدین کے انتقال پر انھوں نے جو دوہا کہا وہ آج تقریبا سات سو سال بعد بھی بہت سے لوگوں کے ذہن میں موجود ہے:
گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چہوں دیس