Site icon DUNYA PAKISTAN

قومی اسمبلی کا 2020 کا پہلا اجلاس: ’جان اللہ کو دینی ہے‘ کی گونج اور شہر یار آفریدی پر تنقید

Share

پاکستان میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کافی عرصے کے بعد طلب کیے جانے کی وجہ سے حزب مخالف کی جماعتیں بظاہر کافی غصے میں نظر آئیں۔

بدھ کے روز ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران بھی حزب مخالف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان بالخصوص سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے سرحدی امور اور نارکوٹکس کنٹرول کے وزیر ملکت شہر یار آفریدی کو نشانے پر رکھا۔

وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے رکن عبدالشکور نے سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں، جو اب صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں، ترقیاتی کاموں سے متعلق سوال کیا۔

اس پر شہر یار آفریدی نے ایوان کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر ان علاقوں میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروائے گئے ہیں۔ لیکن اس جواب کو سننے کے بعد ایوان میں ’جھوٹ ہے جھوٹ‘ کے نعرے لگنا شروع ہوگئے۔

شاہنواز رانجھا نے طنز کرتے ہوئے کہا ’جان اللہ کو دینی ہے تو کم از کم ترقیاتی بجٹ کے اعداد و شمار تو ٹھیک بتائیں‘

عبدالشکور نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی ان کے ساتھ چلیں ’اگر وہاں پر ایک سڑک بھی موجودہ حکومت نے تعمیر کی ہو تو وہ ہر سزا بھُگتنے کو تیار ہیں۔

شہر یار آفریدی نے کہا کہ سابقہ فاٹا کے ضم شدہ علاقوں کی ترقی کے لیے 162 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ان علاقوں کی ترقی کے لیے مزید 10 ارب روپے رکھے ہیں۔

یہ جواب پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی شاہنواز رانجھا کو مطمئن نہ کر سکا۔ انھوں نے ضمنی سوال کرتے ہوئے شہر یار آفریدی پر طنز کیا اور کہا کہ ’جان اللہ کو دینی ہے تو کم از کم ترقیاتی بجٹ کے اعداد و شمار تو ٹھیک بتائیں۔‘

اس فقرے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے ڈیسک بجانا شروع کر دیے جس پر شہر یار آفریدی غصے میں آگئے اور جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ ’جان سب نے اللہ کو دینی ہے۔ لیکن کوئی حسین کی موت مرتا ہے اور کوئی شمر اور یزید کی موت مرتا ہے۔‘

اُنھوں نے اپوزیشن بینچز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں نے بُت بنائے ہوئے ہیں جن کی وہ پوجا کرتے ہیں۔ اس پر ڈپٹی سپیکر نے مداخلت کی اور وزیر مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف پوچھے گئے سوال کا جواب دیں۔

اس پر شہریار آفریدی مزید سیخ پا ہوگئے۔ وہ کچھ مزید کہنا چاہتے تھے لیکن مغرب کی آذان پر قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی میں وقفہ ہوگیا۔

شہریار آفریدی کا یہ فقرہ ’میں نے جان اللہ کو دینی ہے‘ مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کافی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ جولائی 2019 میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات کے مقدمے کے حوالے سے پریس کانفرنس میں وہ اے این ایف کی اس کارروائی کو حقائق پر مبنی قرار دینے کے لیے قسمیں کھاتے رہے اور ’میں نے جان اللہ کو دینی ہے‘ دہراتے رہے۔

’ہر کام اللہ پر مت چھوڑ دیا کریں، کوئی کام خود بھی کرلیا کریں‘

اجلاس کے دوران پاکستان مسلم لیگ نواز کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مختصر نوٹس پر قومی اسمبلی کا اجلاس کیوں طلب کیا گیا ہے جس پر قاسم سوری نے جواب دیا کہ انشا اللہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

خواجہ آصف نے جواب دیا کہ ’ہر کام اللہ پر مت چھوڑ دیا کریں، کوئی کام خود بھی کرلیا کریں۔‘ اُنھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں یہ بات عام ہے کہ اگر کوئی کام نہ کرنا ہو تو انشا اللہ کہہ دیں۔

تحریک انصاف کا لہجہ بدلا ہوا؟

سینیٹ کے اجلاس میں بھی حزب مخالف کی جماعتوں اور بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

شیری رحمان سینیٹ کا اجلاس تاخیر سے طلب کیے جانے کی وجہ سے کافی غصے میں تھیں۔ اُنھوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جان بوجھ کر اس عہدے کی بے توقیری کی۔

اُنھوں نے کسی ادارے کا نام لیے بغیر کہا کہ ’سلیکٹرز‘ کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ جن لوگوں سے پارلیمان نہیں چل رہا وہ ملک کیسے چلائیں گے۔

شیری رحمان نے اپنی تقریر میں یہاں تک کہہ دیا کہ ملک پر نالائقوں کی نہیں بلکہ ’سٹوپڈ‘ کی حکومت ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین نے یہ الفاظ کارروائی سے حذف کروائے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر نے اس پر اعتراص کیا اور کہا کہ یہ غیر پارلیمانی لفظ نہیں ہے اور انڈیا کی لوک سبھا میں بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔

شیری رحمان کی طرف سے ایسے ادا کیے گئے جملوں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے متعدد سینیٹر خاموش رہے۔ شاید اس کی وجہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور نیب کے ترمیمی آرڈیننس میں قانون سازی کے لیے حزب مخالف کی جماعتوں سے تعاون درکار ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا لہجہ بھی بدلا ہوا تھا اور وہ ماضی میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو ’لٹیرے اور چور ڈاکو‘ کے القاب سے پکارتے تھے، اب وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قانون سازی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کی بات کرتے نظر آئے۔

فواد: ’فوج صرف پی ٹی آئی کی نہیں‘

اجلاس کے دوران فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ایسا لگ رہا ہے جیسے ادارے آپس میں دست و گریبان ہیں۔۔۔ میری گزارش ہے کہ ہمارے ادارے تمام معاملات میں قصور وار ہیں نہ بے قصور۔ غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں۔ غلطلیاں ہم سے بھی ہوئی ہوں گی، اپوزیشن سے بھی، غلطلیاں عدلیہ میں بھی ہوئی ہوں گی اور فوج سے بھی ہوئی ہوں گی۔‘

انھوں نے اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا پہلا مقصد نوجوانوں کا مستقبل ہونا چاہیے۔ اگر ہم آپس میں دست و گریبان رہے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘

’حکومت اور اپوزیشن میں تلخیاں رہیں گی لیکن ضرورت ہے کہ اہم معاملات میں اتفاق رائے سے کام لیا جائے، جیسے الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری، اس کے چیئرمین کی تقرری، احتساب کے نظام کا تعین۔ ورنہ ملک اور جمہوریت نہیں چل سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فوج کے قانون پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہوسکتا ہے۔‘

’فوج صرف پی ٹی آئی (یعنی حکمراں جماعت تحریک انصاف) کی نہیں ہے، فوج مسلم لیگ ن کی بھی اتنی ہی ہے جتنی پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور جو یو آئی کی۔ ہمارے ادارے سب کے لیے برابر کے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں معملات چلانے چاہیں، چاہے وہ عدلیہ میں ججز کی تقرری سے متعلق ہوں۔‘

فواد چوہدری نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی واضح کیا کہ ’آئین میں وزیر اعظم کا احترام واجب ہے۔ یہ بھی ایک ادارہ ہے، ان کا احترام لازم ہے۔‘

’میں سپریم کورٹ اور عدلیہ کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن ہماری عدالتیں آرٹیکل 62، 63 پر ہمارا فیصلہ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ہمارا احتساب کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن خود عدلیہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں نہیں آنا چاہتی۔ اس طرح کیسے چلے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے مطابق اہم ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن پر عائد ہے۔ ’نئے سال کا آغاز احتساب کے نظام کا تعین سمیت اہم معاملات پر بات کر کے کرنا چاہیے۔‘

اجلاس کے دوران حزب اختلاف کے سینیٹر رضا ربانی نے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترمیم سمیت دیگر معاملوں پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین موجود بھی ہے اور معطل بھی کیونکہ اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔‘

’پارلیمان کو غیر فعال بنا دیا گیا ہے۔ پارلیمان کا کام قانون سازی ہے لیکن آپ نے ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری میں تبدیل کردیا ہے۔‘

’کیا نیب کا قانون صرف سیاستدانوں کے لیے ہے‘

رضا ربانی نے کہا ہے کہ گذشتہ برس پارلیمان میں حکومت کا احتساب نہیں ہو پایا اور سینیٹ میں مشرف کیس پر بحث ہونی چاہیے۔

انھوں نے سوال کیا کہ کیا نیب صرف سیاست دانوں کے احتساب کے لیے ہے۔ ’نیب کے قانون میں ترمیم سے سرمایہ دار، بیوروکریٹ، ججز اور فوج کو (اس کے دائرہ کار سے) نکال دیا گیا ہے۔‘

انھوں نے تجویز دی کہ ’سب کے احتساب کے لیے ایک قانون اور ایک ادارہ ہونا چاہیے جو برابری کی سطح پر سب کا احتساب کرے۔ اس میں عدلیہ، فوج اور بیوروکریٹ سب شامل ہونے چاہییں۔ کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کی وجہ سے فوج کے قومی ادارے کو شرمندگی اٹھانی پڑی۔

Exit mobile version