منتخب تحریریں

ہم کوئی انوکھا ملک نہیں ہیں

Share

جس طرح اِس سیارے پر بسنے والےبعض انسانوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ 93 ارب نوری سال پر محیط اِس کائنات میں اہم حیثیت رکھتے ہیں، اسی طرح ہم پاکستانیوں کو بھی یہ غلط فہمی ہے کہ دنیا میں ہمارے جیسا منفرد خطہ اور قوم کوئی دوسری نہیں ۔ویسے اِس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ، نصابی کتابوں میں یہی کچھ پڑھایاگیا ہےاور اب تک پڑھایا جا رہا ہے ، اسی پڑھائی کے نتیجے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل انوکھے ہیں ، ہمارے ہمسائے انوکھے ہیں اور ہم خود ’ مَلَک انوکھے ‘ ہیں ۔ہمارا خیال ہے کہ دنیا میں کشمیر جیسا پیچیدہ سرحدی تنازعہ کوئی نہیں ،جیسی فوجی آمریت ہمارے ہاں آئی ویسی کہیں اورنہیں آئی ، جیسی بد قماش جمہوریت ہماری ہے ویسی کسی ملک کی نہیں ، جیسے بد عنوان سیاست دان ہمارے ہیں ویسے ہند سندھ میں نہیں پائے جاتے ، جیسے جاہل ہمارے عوام ہیں ویسے روئے زمین پر تلاش کرنا ممکن نہیں اور جس قسم کے معاشی مسائل میں ہم پھنسے ہیں ویسے کسی دوسرے ملک نے کبھی دیکھے نہیں ۔

دنیا کےبیشتر ممالک کو بد ترین حالات کا سامنارہا ہے ، وہاں جنگیں ہوتی رہی ہیں ، سرحدی تنازعات رہے ہیں ،مارشل لا لگتے رہے ہیں ،جمہوریتیں رینگ رینگ کر چلتی ہیں مگر اِن سب باتوں کے باوجود مسائل کا حل نکالا جاتا ہے ،تاہم حل کے لئے ضروری ہےکہ وہ ملک یا قوم ہماری طرح ’خبطِ یکتائی ‘میں مبتلا نہ ہو ۔ دور کیوں جائیں ،ایشیا سے ہی مثال لیتے ہیں ، ایک ملک تو ہماری بغل میں ہے ، بھارت نام ہے ، وہاں باقاعدہ جرائم پیشہ لوگ سیاست میں ہیں، قومی اور ریاستی اسمبلیوں کے 363 رُکن ایسے ہیں جن پر قتل ،ریپ اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین مقدمات درج ہیں ، اُتر پردیش کی اسمبلی کے نصف ارکان جرائم پیشہ ہیں اور خیر سے وزیر اعظم مودی جی کا ڈنکا تو چاردانگِ عالم میں بجتاہے ، گجرات کے قصائی کا خطاب پایا ہے موصوف نے ، وزیر اعظم بننے سے پہلے آنجناب کاامریکہ میں داخلہ بند تھا۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ تعفن زدہ جمہوریت بھارت میں چل سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں چل سکتی ؟اب تھوڑا اور مشرق کی جانب چلتے ہیں ۔ایک ڈھائی بالشت کا جزیرہ نظر آئے گا، نام ہے تائیوان۔چین کا اِس پر دعویٰ ہے، چین کہتاہے کہ یہ اُس کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے،جو ملک تائیوان کو تسلیم کرتا ہے چین اُس سے تعلقات نہیں رکھتا ، امریکہ تائیوان کا حامی ہے، اکثر چین اور امریکہ کی تائیوان کے معاملے پر ٹھن جاتی ہے ،حالات خراب بھی ہوجاتے ہیں ، چین حملہ کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے ،ادھر سے امریکہ جوابی کارروائی کی تنبیہ کرتا ہے ، ایسے میں تائیوان میں رہنے والوں کا کیا حال ہوتا ہوگا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔اور صرف یہی نہیں، چار دہائیوں تک تائیوان میں مارشل لا رہا، آمرانہ نظام مسلط رہا، 1996 میں کہیں جا کر انتخابات ہوئے اور سن 2000 میں تائیوان نے پہلا صدر براہ راست منتخب کیا۔لیکن اِن تمام ’انوکھی مشکلات ‘ کے باوجود تائیوان کی تجارت امریکہ سے بھی ہے اور چین سے بھی، تائیوان کی کمپنیاں چین میں بلا روک ٹوک کام کرتی ہیں، چینی ارب پتی تائیوان میں تجارت کرتے ہیں ، تائیوان کی برآمدات کا 42فیصد چین اور ہانگ کانگ میں جاتا ہے جبکہ 15فیصد امریکہ میں ۔ تائیوان دنیا بھر میں کمپیوٹر کی سیمی کنڈکٹر چِپ بناتا ہے اور خیر سے اِس کمپنی کے کارخانےبھی چین میں واقع ہیں ،یہ کمپنی تائیوان کے جی ڈی پی میں 90فیصدحصہ ڈالتی ہے اور دنیا میں یہ چِپ بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔سوال یہاں یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ تائیوان میں ہوسکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں ہوسکتا ؟ اب ہم تائیوان کو چھوڑ کر شمال مشرق کی طرف منہ کر لیتے ہیں اور جاپان آجاتے ہیں ، اِس ملک پر دو عدد ایٹم بم پھینکے گئے ، دوسری جنگ عظیم میں شکست ہوئی ، ہتھیار ڈالے، فوج نہ رکھنے کا معاہدہ کیا،لیکن اِن حالات کے باوجود آج جاپان کہاں ہے اور ہم کہاں، کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا!سوال یہ ہے کہ اگر دو ایٹم بم کھانے کے بعد جاپان معاشی طاقت بن سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں بن سکتے جس پر (خدا کا شکر ہے )کبھی ایک بم بھی نہیں گرا ؟

اب پاکستان واپس آتے ہیں اور دوبارہ خود سے وہی سوال پوچھتے ہیں کہ آخر ہمیں ایسا کون سا انوکھا مسئلہ درپیش ہے جو حل نہیں ہوسکتا؟جواب یہ ہے کہ ہمیں کوئی انوکھا مسئلہ درپیش نہیں، ہم صرف اپنے مسائل کو انوکھا سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں ۔جیسے دنیا نے اِن مسائل کا حل نکالا ہے ویسے ہی ہم نے بھی نکالنا ہے ، مثلاً کشمیر پر اپنا حق قائم رکھتے ہوئے ہم بھی بھارت سے تجارت کرسکتے ہیں ، سرحدیں کھول سکتے ہیں ، ہم کیوں دنیا کا واحد خطہ بنے بیٹھے ہیں جہاں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کے ملک میں بلا روک ٹوک آجا نہیں سکتے؟جمہوریت کی بات بھی کر لیتے ہیں ، ہماری پارلیمان میں باقاعدہ جرائم پیشہ افراد کی تعداد بھارت کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ، اِس کے باوجود ہر دو چار سال بعدکوئی نجات دہندہ اٹھتا ہے اور ملک کا ’’گند صاف کرنے ‘‘ کے نام پر تجربہ کرکے ملک کو مزید گٹر میں دھکیل کر گمنامی میں چلا جاتا ہے۔ رہی بات معیشت کی تو اُس کے لئے بھی ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں صرف مراعات یافتہ طبقہ اپنی جیبوں سے پیسے نکالے اور وہ پیسے غریب طبقے پر خرچ کئے جائیں ۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے مطابق اِس وقت ہمارے ملک کی ’رئیل اسٹیٹ ‘ کی مالیت 300 سے 400 ارب ڈالر ہے ، لوگ اِس ملک میں کارخانہ نہیں لگاتے کیونکہ انہیں پتا ہے کہ ایک پلاٹ دو سال میں دگنا منافع دے جائے گا، ایسے میں کوئی سیمی کنڈکٹر چِپ بنانے کے بارے میں کیوں سوچے گا؟اگر اِس 300ارب ڈالر پر ایک فیصد ٹیکس بھی عائد کردیا جائے تو سال کا تین ارب ڈالر بنتا ہے ، فائدہ اِس کا یہ ہوگا کہ جائیداد کی قیمتیں نیچے آجائیںگی، امرا کی جیبوں سے پیسے نکلیں گے، غریبوں پر خرچ ہوں گے اور ملک میں نالائقی کا کاروبار بھی ختم ہوگا، لوگ مینوفیکچرنگ کی طرف راغب ہوں گے۔جس قسم کے معاشی مسائل سے ہم دوچار ہیں وہ مسائل دفاتر میں پنکھے بند کرکے بجلی بچانے سے حل نہیں ہوں گے ، اُس کے لئے کچھ دلیرانہ اقدامات کرنا ہوں گے ، دنیا میں ملک ایسے اقدامات کے نتیجے میں ہی دلدل سے نکلتے ہیں ورنہ اُس میں دھنستے چلے جاتے ہیں ۔ہاتھوں سے لگائی ہوئی گرہوں کو دانتوں سے کھولنا پڑے گا، مظہر شاہ کی طرح بڑھکیں لگانے سے اگر کچھ ہونا ہوتا تو اب تک ہوچکا ہوتا!