’سیف کیمپس‘ محفوظ تعلیمی ماحول کو یقینی بنا پائے گا؟
’مجھے وائس چانسلر کے دفتر میں بلا کر اخلاقیات پر لیکچر دیا گیا اور صرف اس لیے شوکاز نوٹس دیا گیا کیونکہ میرے حلقہ احباب میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں شامل تھے جو میرے کلاس فیلوز بھی تھے اور سینیئرز بھی۔‘
ایک مقامی سرکاری یونیورسٹی کی طالبہ علینہ (فرضی نام) نے چند روز قبل ایک ای میل کے ذریعے جامعات میں ہراسانی، منفی رویوں اور تنگ نظر ماحول سے متعلق اپنی شکایت کچھ ان الفاظ میں درج کروائی ہے۔
اپنی ای میل میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔
’اس سے پہلے میری ہی یونیورسٹی کی ایک طالبہ کو ساتھی طالب علم (لڑکا) سے دوستی اور بات کرنے کی وجہ سے اس قدر بدنام کیا گیا کہ طالبہ نے خودکشی کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ لڑکی کے والدین کو بلا کر بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کا کردار اچھا نہیں ہے۔‘
پبلک پالیسی اور ترقیاتی امور کے ماہر سلمان صوفی کے مطابق پاکستان میں ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے جس میں اس نوعیت کے معاملات کو بلاجھجک رپورٹ کیا جا سکے اور اسی وجہ سے فائدہ ہمیشہ ہراسان کرنے والے افراد ہی اٹھاتے ہیں۔
تاہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حال ہی میں ’سیف کیمپس‘ نامی ایک منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے جس کے روح رواں سلمان صوفی ہیں اور ان کے مطابق اس کا بنیادی مقصد پاکستان کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں طلبا اور اساتذہ دونوں کو ہی مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام اور محفوظ اور غیر محفوظ تعلیمی اداروں کی فہرست مرتب کرنا ہے تاکہ اداروں پر دباؤ ہو کہ انھیں تعلیمی ماحول طلبا کے لیے سازگار بنانا ہے۔
پاکستان کے بیشتر تعلیمی اداروں میں خواتین طلبا پر خاص طور پر یہ دباؤ رہتا ہے کہ وہ کیسا لباس پہنیں یا اپنے ہم جماعت لڑکوں سے کس حد تک بات چیت کر سکتی ہیں۔ یہی حال لڑکوں کا بھی ہے جنھیں یونیورسٹی یا کالج انتظامیہ کی جانب سے غیرضروری ’مورل پولیسنگ‘ کا سامنا رہتا ہے۔
اسی دباؤ کے بارے میں بات کرتے ہوئے علینہ کہتی ہیں کہ انتظامیہ دھمکیاں دیتی ہے کہ ان کی بات نہ ماننے کی صورت میں یونیورسٹی سے نام خارج کر دیا جائے گا، امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہو گی یا شکایت کرنے والوں کو ڈگری نہیں دی جائے گی۔‘
علینہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ اس نوعیت کے دیگر کئی مسائل اور شکایات جو جامعات میں طالبات کو درپیش ہیں وہ لے کر کس کے پاس جائیں۔
ہراساں کیے جانے کا یہی ایک طریقہ نہیں بلکہ انتظامی امور جیسا کہ فیسوں کی ادائیگی، امتحانات سے متعلق پابندیاں وغیرہ کے معاملات بھی اس میں شامل ہیں۔ بعض اوقات اساتذہ کی جانب سے بھی شکایات آتی ہیں جبکہ طلبا کو ایک دوسرے سے بھی ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں کی خبروں، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں طالبہ کا مبینہ ریپ، ایئر یونیورسٹی میں طالبہ کی ہلاکت جیسے واقعات کے بعد طلبا اور یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ جبکہ اس ضمن میں باقاعدہ پالیسی اور کمیٹیاں نہ ہونے سے معاملات مزید خراب ہوئے یہاں تک کہ طالب علموں کو ان معاملات پر خاموشی اختیار کرنے کے حکم نامے تک جاری ہوئے۔
علینہ کہتی ہیں کہ ’فیسوں، امتحانات، اسائنمٹس میں ناکامی پر روک ٹوک ہو تو شاید ہم اس کو ٹھیک کرسکیں مگر کیا یہ بھی یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ 20 سے 25 سال کی عمر کی لڑکیوں اور لڑکوں کو اخلاقیات پر لیکچرز دیں، ان کی کردار کشی کریں، یہاں تک کہ وہ تعلیم چھوڑنے یا خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائیں؟‘
ان کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں خواتین کو ہی زیادہ تر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اسی بارے میں بات کرتے ہوئے قانونی ماہر ندا عثمان چودھری کہتی ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی سے نمٹنے کے لیے کوئی علیحدہ قانون موجود نہیں بلکہ عام طور پر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 509 کے تحت ہی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس سیکشن میں ہراساں کرنے کی تعریف بیان کی گئی ہے تاہم اسے کام کی جگہوں، دفاتر یا تعلیمی اداروں تک محدود نہیں کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں ہراسانی سے متعلق سنہ 2010 کا ایکٹ صرف کام کی جگہوں سے متعلق ہے۔
نداعثمان کہتی ہیں کہ اس ایکٹ کے تحت بھی اب تک ہائی کورٹس میں صرف دو مقدمات آئے ہیں جن میں جج صاحبان نے فیصلہ دیتے ہوئے اس ایکٹ کا نفاذ تعلیمی اداروں تک پھیلایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ہم تعلیمی اداروں میں ہراساں کیے جانے سے متعلق شکایات، کمیٹیوں کی تشکیل اور کیمپس میں طلبا کے لیے مرتب کیا گیا ضابطہ کار اسی ایکٹ کی بنیاد پر ترتیب دے رہے ہیں۔
سلمان صوفی کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس مختلف شکایتیں آئی ہیں جس میں والدین اور طلبا دونوں ہی شامل ہیں۔ مثلا طلبا کو کہا جا رہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کو محدود کریں یا اس کا استعمال بند کریں یا یہ کہ کیا پوسٹ کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی ڈگری روکنے یا امتحانات میں نہ بیٹھنے جیسی سزا کی تنبییہ کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایسی شکایات بہت زیادہ ہیں جن میں لڑکیوں کو منع کیا جاتا ہے کہ وہ کالج یا یونیورسٹی میں لڑکوں سے بات نہ کریں۔ اسی طرح لڑکوں کو منع کیا جاتا ہے کہ وہ لڑکیوں سے بات نہ کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ طلبا یہ شکایات سامنے لائی ہیں کہ انھیں کیمپس میں ہراساں کرنے سے متعلق سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹیں ڈیلیٹ کرنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ یونیورسٹی کی ساکھ اور شہرت کو خراب کرتی ہیں۔ ہراسانی سے متعلق شکایات سے نمٹنے کی بجائے ہر تعلیمی ادارہ اپنی شہرت کا سوچتا ہے اور یوں سارا زور طلبا کو خاموش کرانے پر لگایا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’والدین شکایت کر رہے ہیں کہ انتظامیہ بچوں کو ہراساں کرتی ہے، ان پر مختلف قسم کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں انھیں مختلف سزائیں دی جاتی ہیں مگر ان تمام باتوں کا ان کی پڑھائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جبکہ اسی شکایتیں بھی ہیں جن میں اساتذہ یا دیگر طلبا کی جانب سے ایسے ریمارکس دیے جاتے ہیں جو غیر ضروری ہیں۔‘
اس سوال پر کہ سیف کیمپس نامی یہ پراجیکٹ کام کیسے کرے گا؟ سلمان صوفی نے بتایا کہ ان سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
’ہم نے ای میل ایڈرس دیا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ طلبا نئے ای میل اکاؤنٹس بنائیں جس کے پاس ورڈ شیئرڈ نہ ہوں تاکہ ان کی حفاظت اور پرائیوسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہم فون اور سکائپ پر بات کرتے ہیں اور معلومات لیتے ہیں کہ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد لی جاتی ہے۔‘
سلمان صوفی نے کہا کہ اس کے علاوہ اگر طلبا کیس کرنا چاہیں تو ہمارے پاس ایسے وکلا کی ٹیم ہے جو ان امور پر مہارت رکھتی ہے اور اس طرح طلبا کو قانونی مدد فراہم کرنے کا طریقہ کار بنایا گیا ہے جبکہ ہم کیس کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نفسیاتی ماہرین کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے ذریعے جامعات کی انتظامیہ سے رابطہ کیا جائے گا کہ ان کی ہراساں کیے جانے کے خلاف کیا پالیسی ہے۔ ’اگر پالیسی نہیں ہے تو ہم انھیں مدد فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ طلبا کے لیے محفوظ ماحول فراہم کر سکیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا جائےِ گا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ہراساں کیے جانے کی شکایات پر کس قدر ایکشن لے پائی ہیں اور ان معاملات سے متعلق ان کی پالیسی کس قدر مضبوط ہے۔
’اس کے بعد ہم اس یونیورسٹی کی اپنی ویب سائیٹ پر رینکنگ کریں گے۔ اس طرح ہمارے منصوبے کے تحت ملک بھر کی تمام جامعات کی فہرست مرتب کی جائے گی اور وہاں ہراساں کیے جانے سے متعلق کمیٹی اور قوانین کی تفصیلات لے کر ویب سائٹ پر ڈالی جائیں گی۔ ہم طلبا اور ان کے والدیں کو اسی ویب سائٹ کے ذریعے بتائیں گے کہ وہ جس یونیورسٹی میں جا رہے ہیں وہ کس قدر محفوظ ہے یا غیر محفوظ۔‘
اسی بارے میں قانونی ماہر ندا عثمان کہتی ہیں تبدیلی کے لیے سب سے پہلے انتظامیہ کو سوچ تبدیل کرنا ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام تعلیمی ادارے طلبا کے لباس اور کیمپس کے ماحول سے متعلق پالیسی تشکیل دے سکتے ہیں تاہم ’یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کہیں ان کی پالیسی بنیادی انسانی حقوق اور آزادی سے متصادم تو نہیں ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ایسے نوٹس اکثر جاری کیے جاتے ہیں جن میں خواتین کو لباس سے متعلق ہدایات دی جاتی ہیں۔ یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ جینز پہنیں گی تو آپ کو ہراساں کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ہم ہراسانی یا ہراساں کرنے والے فرد کے خلاف ایکشن کی بجائے اس کا نشانہ بننے والی خاتون کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اس سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘