سندھ: طبی عملے کا احتجاج دوبارہ شروع، او پی ڈیز اور الیکشن ڈیوٹی کے بائیکاٹ کی دھمکی
کراچی میں جونیئر ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس اور لیڈی ہیلتھ ورکرز پر مشتمل گرینڈ ہیلتھ الائنس (جی ایچ اے) نے احتجاج کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی سروس اور انسداد پولیو مہم کے مکمل بائیکاٹ کی دھمکی دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جی ایچ اے نے گزشتہ روز سندھ بھر کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں صبح 8 بجے سے صبح 10 بجے تک ٹوکن ہڑتال کرکے مسلسل دوسرے روز احتجاج کیا۔
نمائندہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ڈاکٹر فیضان میمن نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم تقریباً 2 ماہ بعد اپنا احتجاج دوبارہ شروع کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ حکومت نے اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا‘۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومتی نمائندوں سے متعدد ملاقاتوں کے باوجود ہیلتھ ورکرز کے مسائل کے حل کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم حکومت کی جانب سے اس یقین دہانی پر کورونا رسک الاؤنس کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے تھے کہ ہماری تنخواہوں اور الاؤنس کو دیگر صوبوں میں موجود ہمارے ہم منصبوں کے برابر لایا جائے گا لیکن حکومت کے دعووں پر عملدرآمد نہیں ہوا‘۔
جی ایچ اے نے پیشہ ورانہ الاؤنس، بروقت تعیناتیوں اور ترقیوں کے لیے یکساں پالیسی اور سندھ میں ڈاکٹروں کی تنخواہیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ڈاکٹرز کے مساوی لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جی ایچ اے کی جانب سے (کل) جمعرات کو کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس بھی متوقع ہے جہاں آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر حکومت نے ہمارے مطالبات پر توجہ نہ دی تو طبی عملہ پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں دے گا اور آئندہ الیکشن ڈیوٹی اور انسداد پولیو مہم کا بائیکاٹ کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہیلتھ رسک الاؤنس واپس لیے جانے سے تمام ورکرز متاثر ہوئے ہیں، اس بار جب شکایات کا ازالہ ہونے تک احتجاج ختم نہیں کیا جائے گا‘۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس طبی عملے کے احتجاج کی وجہ سے سندھ بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے خدمات ایک ماہ سے زائد عرصے تک مفلوج رہی، اس دوران پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں اور لاٹھی چارج کی وجہ سے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سرکاری ہسپتالوں میں تمام کلیدی طبی خدمات کی بندش سے غریب مریضوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہڑتال کے دوران اموات کی اطلاعات بھی ملی تھیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں محکمہ صحت کی جانب سے کورونا رسک الاؤنس واپس لینے کے بعد یہ احتجاج شروع ہوا تھا۔