گزشتہ برس کے اپریل سے بارہا اس کالم میں اصرار کرتا رہا ہوں کہ عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت کو فوری انتخاب کی جانب بڑھنا چاہیے تھا۔ انتخابی مہم کے دوران عمران مخالف جماعتیں عوام کو خبردار کرتیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کے آسان حل موجود نہیں۔سرکار کے لئے عوام کو سستے داموں بجلی،گیس اور پیٹرول مہیا کرنا اب ممکن ہی نہیں رہا۔تحریک انصاف ان کے برخلاف اپنی ’’عوام دوست پالیسیوں‘‘کو برقرار رکھنے کے ٹھوس جواز رائے دہندگان کے روبرو رکھتی۔عوام کو یہ طے کرنے دیا جاتا کہ وہ کس جماعت پر اعتبار کرنے کو ترجیح دیں گے۔
نظر بظاہر موجودہ حکومت کی اہم ترین شراکت دار یعنی مسلم لیگ (نون) کی لندن میں بیٹھی قیادت فوری انتخاب کو رضا مند تھی۔ ہمیں تاثر یہ بھی دیا گیا کہ جنرل باجوہ بھی چند پیغامبروں کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف سے اس خواہش کا اظہار کررہے تھے کہ ان کی حکومت جون 2022ء میں سالانہ بجٹ تیار کرنے اور اسے منظور کروانے کے بعد نئے انتخاب کا اعلان کردے۔
مذکورہ پیغام سے گھبرا کر شہباز شریف اپنے بااعتماد وزراء کے ہمراہ مئی کے دوسرے ہفتے میں لندن روانہ ہوگئے۔ نواز شریف صاحب سے طویل مشاورت کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ نیا بجٹ تیار کرنے کے بجائے قومی اسمبلی کی تحلیل کا فی الفور اعلان کردیا جائے۔اس کے بعد انتخاب کے انعقاد کے لئے قائم ہوئی ’’نگران حکومت‘‘ ہی بجٹ تیار کرے۔ اس کا تیار کردہ بجٹ آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے وہ ’’سخت فیصلے‘‘ لینے کو مجبور ہوتا جن کا اعلان کرنے سے ووٹوں کے محتاج خوف کھاتے ہیں۔ مستند ذرائع سے خبر یہ بھی ملی کہ وزیر اعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی وجوہات بیان کرنے والی تقریر کا مسودہ بھی تیار کرلیا گیا تھا۔پاکستان لوٹ کر 25مئی 2022ء کے روز شہباز شریف اسے عوام کے روبرو بیان کردیتے۔
دریں اثناء عمران خان صاحب نے ’’اچانک‘‘ اسلام آباد 25مئی 2022ء کے روز ہی پہنچنے کا اعلان کردیا۔ مذکور ہ تاریخ کے تعین نے مسلم لیگ (نون) کی اعلیٰ قیادت کو یہ سوچنے کو اکسایا کہ باجوہ کے مبینہ ’’پیغامبر‘‘ تحریک انصاف کے قائد سے بھی رابطے میں ہیں۔ان سے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کی درخواست ہورہی ہے۔ غالباََ ان کی تسلی کے لئے یہ ’’اطلاع‘‘ بھی پہنچادی گئی کہ شہباز حکومت فوری انتخاب کے لئے رضا مند ہے۔ایسے حالات میں اگر شہباز شریف وطن لوٹ کر ’’پہلے سے تیارہوئی تقریر‘‘ عوام کے روبرو رکھ دیتے تو پیغام یہ بھی جاتا کہ حکومت عمران خان صاحب کے آگے ’’ڈھیر‘‘ ہوگئی ہے۔اس تاثر کو رد کرنے کے لئے لہٰذا ڈٹے رہنے کا فیصلہ ہوا۔مفتاع اسماعیل نئے بجٹ کی تیاریوں میں مصرو ف ہوگئے۔ان کا بنایا بجٹ تیار ہوکر منظر عام پر آیا تو پیٹرول کی قیمتیں آسمانوں کو چھوتی نظر آئیں۔ بجلی کے نرخ بھی ناقابل برداشت ہوگئے۔ مسلم لیگ (نون) کا ووٹ بینک اس کی وجہ سے غارت ہونا شروع ہوگیا۔
مہنگائی کے عذاب کایک وتنہا ذمہ دار تصور ہوتی شہباز حکومت اس کی بدولت انتخابی عمل سے خوفزدہ ہونا شروع ہوگئی۔اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کا مضحکہ خیز بنیادوں پر التوا مذکورہ خوف کا واضح اظہار تھا۔ شہباز حکومت کسی ’’معجزے‘‘ کا انتظار کرتے ہوئے اپنی ’’آئینی مدت‘‘ اب ہر صورت مکمل کرنا چاہ رہی ہے۔’’فنانشل ایمرجنسی‘‘ کے بہانے اس مدت میں توسیع کے راستے بھی بے تابی سے ڈھونڈے جارہے ہیں۔نئے انتخاب کا انعقاد ٹالنے کے لئے ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ حکومت کا غبار ہ بھی فضا میں اڑایا گیا جو معیشت کو ’’بحال‘‘ کرنے اور اسے خوش حالی کی راہ پر دھکیلنے کے لئے ’’دو سے اڑھائی سال‘‘تک برسراقتدار رہے۔اس خواہش پر عملدرآمد مگر آئین کی ایک اور ’’تشریح‘‘ کا متقاضی ہوگا۔ اعلیٰ عدالت نے مگر ’’نظریہ ضرورت‘‘ والی چھتری فراہم کرنے سے انکار کردیا تو بیل منڈھے نہیں چڑھ پائے گی۔
ذاتی طورپر جمہوری نظام اور انتخابی عمل کا ایک ڈھیٹ پرستار ہوتے ہوئے بھی گزشتہ چند دنوں سے مگر یہ سوچنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ فوری یا بروقت انتخاب اندھی نفرت وعقیدت میں ہمارے مابین ہوئی تقسیم کا مداوا ہے بھی یا نہیں۔ہم صحافیوں کی اکثریت وطن عزیز کی سیاسی صورتحال عالمی تناظر میں رکھ کر دیکھنے کی عادی نہیں رہی۔ میری دانست میں یہ کنوئیں میں پھنسے مینڈک والا رویہ ہے۔
ہمارے مقابلے میں امریکہ کا جمہوری نظام گزشتہ دو صدیوں سے قابل رشک حد تک مستحکم اور منظم رہا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کی بے تحاشہ تعداد مگر آج بھی مصر ہے کہ امریکہ کی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ نے نومبر2021میں ہوا صدارتی انتخاب ٹرمپ سے ’’چرا‘‘ لیا تھا۔6جنوری 2022کے دن وہ اپنے غضب کا اظہار کرنے واشنگٹن میں جمع ہوکر وہاں کی پارلیمان میں گھس گئے۔ اراکین پارلیمان کو جان کے لالے پڑ گئے۔دنیا کا ’’واحد سپرطاقت‘‘ کہلاتا ملک کامل ابتری کا شکار نظر آیا۔
امریکی اداروں اور روایات کے مستحکم ہونے کی بدولت مذکورہ ابتری اگرچہ چند ہی دنوں تک برقرار رہ سکی۔ لاطینی امریکہ کا مگر ایک ملک ہے۔نام ہے اس کا برازیل۔ وہاں کا سابق صدر بولسونارو بھی ٹرمپ جیسا ہی تھا۔ ہمارے عمران خان صاحب کی طرح ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو پچھاڑ کر ’’مذہب،خاندان اور وطن‘‘ بچانے کا دعوے دار تھا۔وہ عوام میں برسوں تک مقبول رہے ایک سیاستدان کی جگہ برسراقتدار آیا تھا۔ برازیل عوام کی اکثریت پیار سے اسے لولوپکارتی ہے۔ غریب آدمی کے دُکھوں کے دردمند اس رہ نما نے اپنے دور اقتدار میں کئی منصوبے بنائے جنہوں نے برازیل کو ترقی پذیر اور خوشحالی کی جانب دوڑتے دکھایا۔غریبوں کی دلجوئی کے لئے وہ سکیم بھی متعارف کروائی جس کے اتباع میں ہمارے ہاں ’’بے نظیر انکم سکیم‘‘کا اجراء ہوا تھا۔
لولو پر لیکن بالآخر بدعنوانی کے الزامات لگنا شروع ہوگئے۔برازیل کے سپریم کورٹ نے اس پر لگے الزامات کی توثیق فراہم کردی۔ بعدازاں انکشاف اگرچہ یہ بھی ہوا کہ لولو کو بدعنوان اور صدارتی عہدے کے لئے نااہل قرار دینے والے فیصلے وہاں کے ججوں کو ’’واٹس ایپ‘‘ کے ذریعے موصول ہوئے تھے۔ان فیصلوں کی حقیقت عیاں ہوئی تو لولو کو جیل سے رہا کرنا پڑا۔ اپنی رہائی کے بعد لولو برازیل میں گزشتہ برس کے اکتوبر میں ہوئے انتخابات میں دوبارہ صدارتی امیدار بن گیا۔
لولو کی مقبولیت سے بولسونارو پریشان ہوگیا۔برازیل میں گزشتہ کئی برسوں سے انتخابی عمل کے دوران ای وی ایم کا استعمال ہورہا ہے۔اس عمل کی شفافیت پر سوال شاذہی اٹھائے گئے۔بولسونارو نے مگر انتخابات سے کئی ماہ قبل ہی دہائی مچانا شروع کردی کہ اسے ہرانے کے لئے مذکورہ مشینوں کے ذریعے ہی دھاندلی کا بندوبست یقینی بنادیا گیا ہے۔برازیل کے سپریم کورٹ نے کامل تحقیق کے بعد اس کے الزام کو رد کردیا۔
بہرحال انتخاب ہوا۔لولو اس نتیجے میں کامیاب قرار پایا۔بولسونارو نے اپنی شکست مگر تسلیم نہ کی۔اس کے حامیوں نے عہد باندھا کہ وہ لولو کو ایوان صدر پر ’’قابض‘‘ نہیں ہونے دیں گے۔ اس کا حلف روکنے میں ناکام رہے تو چند ہی دن قبل برازیل کی پارلیمان اور سپریم کورٹ کی عمارتوں پر چڑھ دوڑے۔ انہیں منتشر کرنے کے لئے برازیل کی فوج کو متحرک ہونا پڑا۔ہنگامہ آرائی میں ملوث سات سو سے زیادہ افراد اب پولیس کی حراست میں ہیں۔ابتدائی تفتیش عندیہ دے رہی ہے کہ برازیل کے سکیورٹی اداروں میں موجود بولسونارو کے چند وفاداروں نے ہنگامہ آرائی میں سہولت کاری کا کردار ادا کیاتھا۔
برازیل کے حالیہ واقعات پر غور کے بعدمیں یہ سوچنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ ہمارے ہاں بھی اگر فوری یا بروقت انتخاب کروادئے جائیں تو عمران خان صاحب اور ان کے حامی ان کے نتائج تسلیم کرنے کو آمادہ ہوں گے یا نہیں۔ میری دانست میں اگر متوقع انتخابات میں تحریک انصاف کو ’’دوتہائی اکثریت‘‘ میسر نہ ہوئی تو ان کی شفافیت پر سوال اٹھادئے جائیں گے۔ہمارے ہاں بھی اس کی بدولت برازیل میں ہوئی ہنگامہ آرائی کے مناظر دہرائے جائیں گے۔