لاہور ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ آپ کے موکل نے مان لیا کہ انہوں نے آرٹیکل 137 کے سیکشن 7 کے تحت اعتماد کا ووٹ لیا، اگر وہ یہ لکھتے کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر اعتماد کا ووٹ لیا تو صورتحال مختلف ہوتی لیکن بادی النظر میں وزیر اعلیٰ نے گورنر کے حکم کے مطابق اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے گورنر بلیغ الرحمٰن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت جاری ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر پانچ رکنی بینچ جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت کر رہا ہے جہاں بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل ہیں۔
آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ووٹوں کے ریکارڈ کو عدالت دلائل کا حصہ بنا دیا جائے، گورنر کو اس پر اعتراض نہ ہوگا، جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے ایسے میں اب آپ کیا کہتے ہیں، جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ اب بھی اگر گورنر کوئی نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں تو صورت حال کیا ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی فلور کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی، جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ فلور ٹیسٹ مکمل ہوگیا ہے، یعنی معاملہ ختم ہوگیا ہے، پرویز الہیٰ کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا جو پہلا حکم تھا کہ اعتماد کا ووٹ لے وہ ٹیسٹ کرلیا ہے، گورنر کا دوسرا نوٹیفکیشن وزیر اعلی کو ڈی نوٹی کرنے کا تھا جسے کالعدم ہونا چاہیے ۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ آپ کے موکل نے مان لیا ہے کہ انہوں نے آرٹیکل 137 کے سیشن 7 کے تحت اعتماد کا ووٹ لیا ہے، اگر وہ یہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر اعتماد کا ووٹ لیا تو صورتحال مختلف ہوتی، بادی النظر میں وزیر اعلیٰ نے گورنر کے حکم کے مطابق اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔
ایڈووکیٹ علی ظفر نے کہا کہ اعلی عدالتوں کے فیصلوں کے تحت گورنر اور صدر قانون پر عمل درآمد کے پابند ہیں، گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ 8 ویں ترامیم کے بعد گورنر کے پاس یہ اختیار آیا،جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ گورنر ہی وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے، آج کیس کا فیصلہ ہوتا ہے کل کو گورنر پھر اسطرح کا حکم جاری کر دیتا ہے تو کیا صورتحال ہوگی، گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ معاملہ اسمبلی فلور پر ہی جائے گا۔
اس دوران علی ظفر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے تاریخ اور وقت کے تعین کے بارے میں گورنر کے اختیارات پر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ گورنر اجلاس بلانے کے لیے سپیکر اسمبلی کو کہ سکتا ہے، تاریخ اور وقت کا تعین سپیکر کرتا ہے، جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں نے گورنر کے سردار عارف نکئی کو ہٹانے کا حکم کالعدم قرار دے دیا، ہم گورنر کے آرڈر پر اپنی رائے نہین دے سکتے ۔صرف جوڈیشل فیصلہ دے سکتے ہیں۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ فیوچر میں گورنر کے ایسے اقدامات کو روکنے کے عدم اعتماد کے لیے کتنے دن ہونا چاہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کم از کم چودہ روز ہونے چاہییں، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہاں گورنر نے پرویز الٰہی کو صرف 2 روز دیے جو مناسب وقت نہ تھا، علی ظفر نے کہا کہ گورنر پابند ہیں کہ کم سے کم سات دن کا نوٹس دیں، جسٹس عاصم نے کہا کہ اسمبلی سیشن چھٹی والے روز بھی ہو سکتا ہے، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ منظور وٹو کیس میں عدالت نے وقت کا تعین نہیں کیا تھا۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر گورنر کے پاس زیادہ ممبر آ کر عدم اعتماد کرتے ہیں تو کیا اسپیکر تین اور سات روز کے تعین میں لگا رہے گا، جسٹس عابد عزیز شیخ نے ہدایت کی بیرسٹر علی ظفر آپ اپنے مناسب وقت اور تاریخ پر دلائل جلدی مکمل کریں، بیرسٹر علی ظفر آپ اس نقطے پر جلد دلائل مکمل کریں کہ اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت کتنا ہونا چاہیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب گورنر نے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو چیف سیکریٹری کنفیوز ہوگئے، چیف سیکرٹری گورنر کو جوابی مراسلہ لکھا اور پوچھا کہ اسمبلی کے سیشن کے بغیر کیسے اعتماد کھو بیٹھے ہیں ،چیف سیکریٹری نے وزیر اعلیٰ کو قانونی ماہرین سے ہدایت لینے کی تجویز دی، گورنر نے چیف سیکرٹری کو دوبارہ ضروری ایکشن لینے کی ہدایت کی جس پر چیف سیکرٹری نے نوٹیفکیشن جاری کیا، میری استدعا ہے کہ گورنر اور چیف سیکرٹری کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جائیں ۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم نے تو صرف یہ دیکھنا ہےکہ موجودہ کیس میں گورنر نے اعتماد کے ووٹ کےلیے جو 2 روز کا وقت دیا تھا وہ درست تھا یا نہیں ، گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار جیت چکے ہیں یہ خوشی خوشی جائیں اور اسمبلی کے ساتھ جو کرنا ہے کریں۔
اس کیس کی سماعت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب کہ گزشتہ رات ہونے والے پنجاب اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں اسپیکر سبطین خان نے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی پر اعتماد کے لیے رائے شماری کے بعد اعلان کیا کہ انہوں نے 186 ووٹ حاصل کرلیے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ گورنر پنجاب نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے منصوبے کو روکنے کے لیے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔
22 دسمبر کے اپنے حکم نامے میں گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے مقررہ دن اور وقت پر اعتماد کا ووٹ نہیں لیا اس لیے وہ عہدے پر برقرار نہیں رہے، تاہم بلیغ الرحمٰن نے ان کے جانشین کے انتخاب تک انہیں بطور وزیر اعلیٰ کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
پرویز الہٰی نے گورنر کے اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
گزشتہ ماہ ہونے والی سماعت پر لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الہٰی کو اگلی سماعت تک صوبائی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بحال کردیا تھا۔