کالم

زبانوں کے درمیان ہم آہنگی

Share
“محمد حسن”

زبانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے والی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر شفیق النبی صمدی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان سے میری ملاقات کئی سال قبل بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہوئی۔ بنگلہ۔اردوساہتیہ فائونڈیشن کے زیر اہتمام ایک تقریب میں ملک کے معروف ترجمہ نگار جاوید حسین اور مظہر جیبن  نے ڈاکٹر صمدی کودعوت دی ۔چونکہ میںبنگلہ۔اردوساہتیہ فائونڈیشن کانائب ناظم تھا اس لئے پروگرام کے دوران ادب کے حوالے سے مختلف امورپر گفتگو ہوئی اور اسی طرح ان سے میری ادبی رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا کیونکہ وہ بنگلہ دیش میں اردو کے حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ کام کرتے نظر آرہے ہیں۔  
پاکستان کی مسلسل حق تلفی اور محرومیوں کا شکار مشرقی پاکستان کے عوام کوجب 1970کے عام انتخابات میں ان کی جائزفتح کو پائوں تلےروندھا گیاتو انہوں نے حتمی طور پر پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور اسی طرح ایک مصلح جنگ کے بعد بنگلہ دیش کوآزادی حاصل ہوئی۔چونکہ ملک کی آزادی کا بیچ 1952 میں لسانی تحریک کے ذریعہ بویا جا چکا تھا اس لئے آزادی مہم کے دوران بنگلہ دیش کے لوگوں میں عام طور پر اردومخالف ذہنیت اجاگر کی گئی تاکہ لوگ پاکستان سے نفرت کے نام پر اردو سے نفرت کریں اور بنگالی ازم کو بروئے کار لاتے ہوئے لسانی بنیاد پر ایک ملک کو معرض وجود میں لایا جاسکے۔ اسی نفرت کے بنا پر 1971 میںبنگلہ دیش کو آزادی حاصل ہوئی اور ملک میں اردو سمیت مختلف زبانوں کو معتوب کردیا گیا۔
1971 کی جنگِ آزادی کے دوران اردو بولنے والوں پرڈھائے گئے اعتاب کو تاریخ نے فراموش کردیا۔ اردو بولنے والوں میں جن کی جانیں بچ گئیں ان میں ایک حصہ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوا نیز اکثریت بین الاقوامی تنظیم آئی سی آر سی کی مدد سے کیمپوں میں پناہ گزیں ہوئیں۔جنگ کے دوران اردو بولنے والوں کی دوسرے دیگر اثاثوں کے ساتھ ساتھ ادبی اور ثقافتی اثاثے کوبھی بڑانقصان کا سامنا ہوا۔ اردو اخباروں، جریدوں اور انجمنوںکے دفاترسمیت لائیبریریوں کوصفح ہستی سے مٹا دیاگیا۔ اردو تعلیمی ادارے کو بنگلہ میڈیم میں تبدیل کردیا گیا نیزا ردو بولنے والوں کو ان کی اپنی زبان میں لکھنے اور پڑھنے سے محروم کردیا گیا۔
حیرت والی بات یہ ہے کہ ان تمام جارحانہ سرگرمیوں کے باوجود ڈھاکہ اور راجشاہی یونیورسٹی میں شعبئہ اردو کوکسی طرح کے ضرب پہنچائے بغیراس کی  درس و تدریس کی اجازت دی گئی نیز بنگلہ دیش بیتار (بنگلہ دیش ریڈیو) کی بیرونی نشریات میں پانچ مختلف زبانوں جن میں ہندی، عربی، نیپالی اور انگریزی کے ساتھ اردو زبان شامل ہیں میں پروگرام جاری رکھنے میں حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ قارئین کو یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ 48 سال بعد مئی 2019 میںموجودہ حکومت نے بنگلہ دیش بیتارکی بیرونی نشریات سے اردو پروگرام کو حتمی طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا۔
برصغیر باالخصوص بھارت اور بنگلہ دیش میں اردو کے حوالے سےنفرتیں پھیلانے میں اردوپر یہ الزام عائد کیاجاتا رہاہے کہ اردوپاکستان کی سرکاری زبان ہے نیز اردو پاکستان کی زبان ہے۔اگر ہم پاکستان میں سرکاری زبان کے حوالے سے بات کریں تو خود پاکستان میں رہنے والےاس بات سے بے خبر ہیں کہ پاکستان میں سرکاری زبان اردو نہیں بلکہ انگریزی ہے۔ در حقیقت 1973  میں پاکستان کے دستور میں اردو کو سرکاری زبان تو تسلیم کرلیا گیا لیکن مکمل طور پر عمل درآمد کے لئے 15برس کی مدت مختص کی گئی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ 15 برس آج 49 برسوں میں بھی نہیں آئے۔تازہ اقدام کے تحت ستمبر2015  میں پاکستان سپریم کورٹ نے” وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر اپنانے کی ہدایت کی”۔اس اقدام سے صاف عیاں ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہےہی نہیں۔
 بنگلہ دیش میں اردو ادب کے لئے مختلف طورپر خدمات فراہم کرنے والے اس بات پر مصمم یقین رکھتے ہیں کہ اردوپاکستان کی زبان نہیں بلکہ یہ زبان ہندوستان کے دہلی میں پیدا ہوئی، لکھنئو میں لڑکپن گذارا اور اب دنیا میں ایک آفاقی زبان کے طور پر راج کررہی ہے اس لئے اس زبان کی چاشنی سے لوگوں کولطف اندوز ہونا چاہئے۔ بنگلہ دیش میں اردوزبان و ادب کے فروغ کے لئے بنگالی نژاد شاعر و ادیب اوردرس و تدریس سے منسلک شخصیات سنجیدگی کے ساتھ مختلف طور پر کام کررہے ہیں۔ ان میں ایک نام پروفیسر ڈاکٹر شفیق النبی صمدی کا ہے۔
 ڈاکٹر صمدی راجشاہی یونیورسٹی میں شعبئہ بنگلہ کے پروفیسر ہیں لیکن انہیں اردو سے اتنی انسیت ہے کہ وہ بنگلہ زبان میں درس و دریس کے ساتھ ساتھ بنگالی حلقوں میں اردو ادب کےفروغ کے لئے سنجیدگی کے ساتھ ترجمے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کی ان سرگرمیوں سے اردوداںطبقہ نیزاردو کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیمیںبے خبر ہیں۔ اس مضمون کے ذریعہ ہم نےاپنے قارئین کے لئے پروفیسر ڈاکٹر شفیق النبی صمدی سے متعلق خاکہ پیش کرنے کی سعی کی ہے تاکہ اردو کے حوالے سے ان کی خدمات کو قارئین تک پہنچایا جا سکے ۔
   پروفیسر ڈاکٹر شفیق النبی صمدی کی پیدائش 27 اگست 1963 میں بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے قریب نارائن گنج کےسونارگائوں میں ہوئی۔ سونارگائوں تاریخی اعتبار سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔یہ علاقہ قدیمی بنگال کے دارالحکومتوں میں سے ایک ہے۔اس علاقے کو دہلی سلطنت کے دور میں اہمیت حاصل تھی۔ یہ علاقہ فخرالدین مبارک شاہ ، ان کے صاحبزادے اختیار الدین غازی شاہ اور غیاث الدین اعظم شاہ کی سلطنت کا دارالحکومت رہا۔بعدازاں یہ علاقہ مشرقی بنگال کا ایک انتظامی مرکزبھی رہا ۔ یہاں دریائی بندرگاہ بھی ہوا کرتی تھی۔ اس کا اندرونی علاقہ بنگال میں ململ کی تجارت کا مرکز تھا۔ ایک زمانہ تھا جب یہاںشاہی دربارہوا کرتے تھے اوریہاں بنگال سلطنت کے ٹکسال بھی قائم کئے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے میں بہت سے تارکین وطن آباد ہوئے۔سلطانوں کی سرپرستی میں اس علاقے میں مسجدیں اور مقبرےتعمیر کئے گئےجو آج بھی سیاحوں کے لئے دلچسپ مقامات میں سے ایک ہے۔تاریخ کا جائزہ لینے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ بارو بھویاں کنفیڈریسی کے تحت اس علاقے سے مغلوں کی توسیع کے خلاف مزاحمت کا آغازہوا جس کی قیادت عیسیٰ خان اور ان کے صاحبزادے موسیٰ خان نے کی۔برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے دوران تاجروں نےسونارگائوں کے پانامامیں اُس دور کے جدید آرکیٹیکچرل ڈیزائن کے استعمال سےوہاں باقاعدہ ایک شہر آباد کیا تھا جو آج بھی بنگلہ دیش میں سیاحوں کے لئے ایک اہم سیاحتی مقام ہے۔
اس تاریخی علاقہ کاباشندہ ڈاکٹر صمدی 1978 میں اپنے ہی گائوں کے اسکول سے سیکنڈری اور ہائیر سکینڈری امتحانات پاس کئے۔ بعدازاں انہوں نے ڈھاکہ کے عنقریب مشہورجامعہ جہانگیر نگر یونیورسٹی سے1983 اور 1984 میں بتدریج بی اے اورا یم اے کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نے 1994 میں کلکتہ کے ربندرو بھارتی یونیورسٹی سےفکشن میں حقیقت: شرتچندر اور پریم چند رکےموضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی بعد ازاں اسی یونیورسٹی سے 2001 میں ڈی لیٹ ڈگری بھی حاصل کی۔
 1988میں انہوں نے راجشاہی یونیورسٹی کے شعبئہ بنگلہ میں بحیثیت لیکچرارملازمت حاصل کی اوربتدریج ترقی کے ذریعہ اب پروفیسر کے عہدے پر فائض ہیں۔جب یو نیورسٹی انتظامیہ نےاپنی مرکزی لائبریری کوAutomation and Digitalization کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے اقدام کئے تو ڈاکٹر صمدی کو اس اقدام کے حوالے سے Sub-Project Manager  کی حیثیت سے اضافی ذمہ داری سونپی۔ تین سال کی انتھک کوششوںکے بعد ان کی ٹیم نے اس پروجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ غالباً اُس وقت بنگلہ دیش میں چند سرکاری یونیورسٹی میں اس طرح کےماڈل اقدام کئے گئے تھے۔ درس و تدریس کے علاوہ ڈاکٹرصمدی مختلف سماجی و ثقافتی تنظیموںسے وابستہ ہیں اور ان تنظیموں میں فعال نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے اساتذہ کے لئے قائم کی جانے والی تنظیموں کے اہم عہدوں کے لئے انتخابات میں حصہ لیا اور فتح حاصل کرتے ہوئے باحسن و خوبی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔  
ڈاکٹر شفیق النبی صمدی بنگلہ سمیت برِصغیر کے اقلیتوں کی زبانوں پر مختلف طور پر کئے جانے والی تحقیقاتی کارکردگی کو ایک دوسرے سے متعارف کرنے کے غرض سے نیریخ بین الاقوامی ساہتیہ کانفرنس کے عنوان سے راجشاہی یونیورسٹی کے احاطے میںمسلسل بین ا لاقوامی کانفرنس کا اہتمام کرتے آرہے ہیں ۔اس ضمن میں2013، 2017، 2019  اور 2022میںڈاکٹر صمدی اس کانفرنس کے چیرپرسن کی ذمہ داری بھی نبھائی۔کورونا جو کہ ایک عالمی وبا کی حیثیت ہمارے سامنے رونما ہوا اوردنیا کی دوسرے دیگر اقدامات کی طرح اس اہم اقدام کوبھی متاثر کیا ۔ اس دوران گذشتہ دوبرسوں سے نیریخ بین الاقوامی ساہتیہ کانفرنس کے انعقاد میں رخنہ پڑا لیکن خوش کن خبر یہ ہے کہ 2022 میں راجشاہی یونیورسٹی کےشعبئہ بنگلہ نے اس بین الاقوامی کانفرنس کے انعقادکو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ واضح رہےکہ 2013میں ڈاکٹر صمدی نے ڈھاکہ اور سیدپور کے اردو شعراء کو اس بین الاقوامی کانفرنس میں مدعو کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش میںاردو کی صورتحال پر ایک خصوصی نششت کا اہتمام بھی کیا جس کی صدارت اکوشے پدک انعام یافتہ بنگلہ زبان کے اہم شاعر کوی اسد چودھری نے کی۔ اس نششت میںمعروف ادیب و ترجمہ نگار جاوید حسین مع راقم کو تقریر کرنے کا موقع ملا۔ اس موقع پر ڈھاکہ سے شمیم زمانوی اور حسن ابن اسمعیل (راقم)۔ سید پور سے سید نصیر الدین فہمی، اشرف الحق ساگر، ماجد اقبال اور سلام حمیدنیز راجشاہی میں مقیم اردو شاعرساگر حمیدی نےراجشاہی یونیورسٹی کے ہال میں کھچا کھچ بھرےسامعین کے سامنے اپنے اپنے کلام پیش کئے ۔ 2017میں پھر سے ایک بار اس کانفرنس میں اردوزبان و ادب اور اس کے چیلنج کے عنوان سے ایک خصوصی نششت میں جاوید حسین کے ساتھ مجھے بھی تقریر کرنےکی دعوت دی گئی تھی ۔
  ڈاکٹر صمدی چار کتابوں کے خالق ہیں ۔ ان میں فکشن میں حقیقت:شرتچندر اور پریم چندر، نذرل گیت: شاعری کا ذائقہ، تارا شنکر کی افسانے :زندگی کی جمالیاتی حقیقت اور ادبی تحقیق: موضوعات اور طریقہ کار(مشترکہ اشاعت) شامل ہیں۔ا س کے علاوہ ایک بنگالی خاندان سے تعلق رکھنے والےاردو زبان سے نابلد بھارت میں اپنے پی ایچ ڈی کی تحقیقاتی سرگرمیوں کے دوران پریم چندر کی ادبی تخلیقات کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئےپہلے ہندی زبان بعد میں اردو زبان میں دسترس حاصل کی۔ایک ترقی پسند نظرئیے کا حامل شخصیت اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جب اردو شاعری کودل جمیع کے ساتھ پڑھنا شروع کیا توانہیں اس بات کا احساس ہو اکہ اردو شاعروںاور ادیبوں کی تخلیقات میں جس طرح ترقی پسند رجحان کا اظہار کیا گیاہے شائد ہی کسی اور زبان میں موجود ہو۔اردو زبان کی اس رجحان نے ڈاکٹر صمدی کو اتنا متاثرکیا کہ وہ اب تک 11شاعروں، افسانہ نگاروں اور مصنفوں کی کتابوں کے ترجمے کرچکے ہیں اور ترجمے کا کام ہنوز جاری ہے۔اگر ہم ان کے ترجمےکی فہرست دیکھیں تو انہوں نےہندی و اردو زبان میں ترقی پسند رجحان کے حامل شاعروں، افسانہ نگاروں اور مصنفوں کی تخلیقات کو ترجمے کے لئے منتخب کیااور بنگالی حلقوں میں ان تخلیق کاروں کو متعارف کرانے کی کوشش کی۔ ان کے لئے یہ کام کوئی آسان نہیں کیونکہ جب بھی بنگلہ دیش میں اردو کے حوالے سے بات آتی ہےتواس طرح کے بات کرنے والوں کے گرد ایک مخالف ماحول تیار ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر صمدی نے ان تمام مخالف ماحول کا سامنا کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا ۔ بنگلہ دیش کےسیاسی و سماجی تناظر میں ان کا یہ اقدام ایک بہادارانہ اقدام ہے۔ایک آزاد خیال کے حامل شخصیت ڈاکٹر صمدی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی کسی بھی زبانوں کو مٹنے دینا نہیں چاہئے اسی لئے وہ بنگلہ دیش کی اردو زبان کی آبیاری کے لئے ہمہ تن کوشاں ہیں۔ اردو ادب کوبنگالی با آسانی سمجھ سکیں اس آگہی مہم کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ زبانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششومیںپیش پیش نظر آتے ہیں۔وہ اردو کےمختلف شاعروں، ادیبوں اور مصنفوں کو پڑھتے ہیں اور دل جمعی کے ساتھ مشہور مصنفوں کی تخلیقات کو بنگلہ زبان میں ترجمہ کر کے بنگالی قارئین کو اردو کی تخلیقات سےروسناش کرانے کی ضمن میں فعال ہیں۔ ان کے ترجمہ کئے جانے والی کتابوں میں:
–  ہندوستان کے معروف ادبی شخصیت شاعرسمپوران سنگھ کالرا جن کا تخلص گلزار ہے کا “تروینی” اور ناول “دو لوگ”کا بنگلہ ترجمہ
۔  مرتن جئےکمارپرابھاکارجو کہ بشوابھارتی یونیورسٹی کے ڈرامہ اور تھیئیٹرآرٹ کے اسسٹینٹ پروفیسر ہیں۔ جنہیں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں بہار حکومت نے بہار کلاسممان سے نوازا ہے کی ہندی ڈرامہ “خواہشیں “کابنگلہ ترجمہ
– اردو افسانہ نگاری میں شاہکارتخلیقات کے مالک کرشن چندر کا شہرا آفاق افسانہ “الٹا درخت”کا بنگلہ ترجمہ
–  میناکماری کی شاعری”سنیما سےپرے ایک زندگی” سے منتخب نظموں کا بنگلہ ترجمہ
–  پاکستان کے باغی شاعر حبیب جالب کی منتخب اردو نظموں کا بنگلہ ترجمہ
۔  عصمت چغتائی کے منتخب اردو افسانوں کا بنگلہ ترجمہ
–  بر صغیر کےمنفرد لہجہ کا ترقی پسند شاعر ن۔م۔ راشد کی منتخب نظموں کا بنگلہ ترجمہ
–  گلزار کی لکھی ہوئی مرزا غالب کی سوانح حیات پر فلمی منظر نامہ کا بنگلہ ترجمہ
– بھارت کے قومی اکیڈمی آف میوزک، ڈانس اور ڈرامہ کی جانب سے سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈیافتہ ادبی شخصیت موہن راکش کی ہندی ڈرامہ “آدھے آدھورے “کابنگلہ ترجمہ
-بھارت کے اعلیٰ شہری اعزازات پدم شری اورپدم بھوشن ایوارڈیافتہ معروف و مشہور ادبی شخصیت جاوید اختر کی منتخب نظموں اور غزلوں کا بنگلہ ترجمہ
پروفیسر ڈاکٹر شفیق النبی صمدی کا تعلق ایک عام کسان خاندان سےہے ۔ ان کے داد اور والد پیشے سے کسان تھے۔ دس بہن بھائیوں میں شفیق النبی صمدی پانچویںنمبر پر ہیں اور اپنے خاندان کے واحد فرد ہیں جنہوں نے سماج کی تبدیلی کے لئے اپنے پیشے کو درس و تدریس سے منسلک کرلیا اور 34برس سے اس پیشے کے ذریعہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی مقامی ایک کالج میں درس و رتدریس کے ساتھ جڑی ہیں اور اپنے خاوند کو ان کی سرگرمیوں میں ہمہ تن مدد کرتیںنظر آتیں ہیں ورنہ ترجمہ نگاری بلکہ اردو جیسی معتوب زبان کاترجمہ اور کتابوں کی اشاعت بنگلہ دیش میں کوئی آسان کام نہیں۔
ڈاکٹر صمدی سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر فعال ہیں ۔ وہ ریختا سمیت مختلف مستند ذرائع سےاردو شاعروں کے اشعارحاصل کرتے ہوئے بنگلہ میں ترجمہ کر کے مستقل فیس بک پر اپنے بنگالی قارئین کے لئے پوسٹ کرتے ہیں ۔اس طرح کی سرگرمیوں سے وہ ایک منفرد ترجمہ نگار کی حیثیت سے ہمارے سامنے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صمدی ایک خندہ پیشانی، اعلیٰ کردار کے حامل سادہ زندگی کے قائل ہیں۔میں ادب کی دنیا میں مزید خدمات کے لئےڈاکٹر صمدی کے لئےا پنی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اورانکی اچھی صحت کے لئے دعا گو ہوں