کالم

2019 بھی نفاذ قومی زبان کے بغیر ہی بیت گیا!

Share

ماہ و سال تیزی سے گزر رہے ہیں اور کتنے کام ہیں جو ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔  آپ میں سے ہر ایک نے گزشتہ سال کے لیے کتنے منصوبے بنائے ہوں گے، کتنے خواب سجائے ہوں گے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کتنے جتن  کیے ہوں گے۔ یہ سلسلہ کب سے جاری ہے اور زندگی کے آخری لمحے  تک جاری رہے گا۔ ہر ایک کا اپنا، اپنا رونا ہے۔

پاکستان بننے سے بہت پہلے یہ طے پاگیا تھا کہ اس ملک کی قومی، سرکاری اور دفتری زبان اردو ہو گی۔ قائداعظم ؒ نے بابائے اردو کو یہ یقین دلایا تھا کہ پاکستان میں اردو اور صرف اردو ہی قومی زبا ن ہو گی۔ قیام پاکستان کے بعد 25 فروری 1948 کو طویل مشاورت کے بعد اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا اور دستور ساز اسمبلی نے اس کی ناقاعدہ منظوری بھی دی۔ 1956 اور 1962 کے دساتیر میں بھی قومی زبان اردو ہی برقرار رہی۔ 1973 کے دستور میں قومی زبان کے عملی نفاذ کے لیے پندرہ سال کی مہلت بھی دی گئی کہ سارے نظام مملکت کو انگریزی سے اردو میں منتقل کرلیا جائے۔ مقتدرہ قومی زبان نے پوری جانفشانی سے یہ ہدف حاصل کیا۔ 13 اگست 1988 تو   پندرہ سالہ مہلت بھی ختم ہوگئی لیکن قومی زبان کے نفاذ کی منزل حاصل نہ ہوسکی۔

مطالبات در مطالبات کے باوجود حکمرانوں  نے انگریزی کے تسلط کو قائم ہی نہیں رکھا بلکہ اس کی گرفت کو دن بدن مضبوط کرتے چلے گئے۔  حکمرانوں سے مایوسی کے بعد  محبان اردو نے عدالت کا دروازے پر دستک دی۔ 2002 میں دائر مقدمات کو عدالتی  کل پرزوں نے 2015 تک  زیرالتواء رکھا، بلاخر جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس جواد ایس خواجہ  کی خصوصی توجہ سے معاملہ زیرغور لایا گیا اور دیر آید درست آید کے مصداق 8ستمبر 2015 کو دستور کی شق 251 کے مطابق قومی زبان کے فوری نفاذ کا حکم نامہ جاری ہوا۔

دستور شکن  حکمرانوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کوئی اہمیت نہیں دی اور انگریزی کے تسلط کو دوام دینے کی روش جاری رکھی۔  اگر معاملہ اشرافیہ کا ہوتا تو راتوں رات فیصلے پر عمل درآمد ہوتا، معاملہ غریب عوام کا تھا تو اسے پھر سرد خانے کی نذر کردیا گیا۔ عرفان صدیقی جیسے اردو نگار کو خصوصی ہدف دیا گیا کہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے۔ جب ان کی بساط لپیٹ دی گئی تو تبدیلی سرکار نے یہ کام  ایک انگریزی نواز وفاقی وزیر شفقت محمود کے سپر د کیا، جس نے ڈیڑھ سال میں “وزارتی کمیٹی برائے نفاذ اردو” کا اجلاس تک طلب نہیں کیا۔

انگریزی کے ناجائز تسلط کی وجہ سے قوم کے ستر فیصد بچے تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔  یوں ستر سالوں سے قوم  کا تعلیمی اور اقتصادی   استحصال جاری ہے۔ اشرافیہ کے بچوں کی تعلیم کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں اور غریب کے بچوں کو پسماندہ رکھنے کا خاص انتظام کیا جاتا ہے تاکہ اشرافیہ کی نسلیں بھی قومی وسائل پر قابض رہیں۔

انگریزی کے ناجائز تسلط کی وجہ سے نئی نسل کے اذہان سے قومی غیرت و حمیت تک غائب ہوتی جارہی ہے۔ ہم اپنے تہذیبی ورثے سے  محروم ہوتے جارہے ہیں۔ رٹا سسٹم کی وجہ سے ڈگری یافتہ جاہلوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک اقتصادی، معاشرتی اور سماجی پستیوں کو چھو رہا ہے۔ یہی دراصل غیر ملک زبان کو دوام دینے والوں کا ایجنڈا تھا۔

اب وقت ہے کہ ہم غیر ملکی زبان سے نجات کا فیصلہ کن جنگ کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔  آج کل پورے ملک میں نفاذ اردو کی قرار داد پر دستخط کیے جارہے ہیں۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ تحریک آزادی جیسے جوش اور ولولے سے لسانی آزادی کے لیے میدان میں اترے اور غیر ملکی زبان انگریزی سے نجات کے لیے فیصلہ کن معرکے کا حصہ  بنے۔

آئیے 2020 کو نفاذ اردو کا سال قرار دیتے ہوئے حکمرانوں کو  مجبور کرنے کے لیے عوامی، عدالتی ، پارلیمانی اور میڈیا کے  میدانوں میں  اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ قوم ایک بار حقیقی آزادی سے ہم کنار ہو سکے۔