عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ دنیائے اردو ادب میں بنگلہ دیش کے اردو ادب کو فراموش کردیا گیاہے۔ بنگلہ دیش کو معرضِ وجود میں آئے اب پانچ دھائی گذرچکی ۔ اس طویل عرصے میں بنگلہ دیش کے اردو ادب سے دنیا اجنبی ہوتی چلی گئی۔
1947 کے بعدبھارت میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے پیشِ نظربہار، یوپی، مغربی بنگال سمیت ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوںنے اپنی آبرو ،جانوں اور ذریعہ معاش کے تحفظ نیز امتیازانہ سلوک سے بچنے کے لئےبھارت سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس زمانے میںہجرت زدہ اردو شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ بھارت میں اپنے ثقافتی ہم منصب کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ان کی تخلیقات بھارت کے جرائد اور رسائل میں شائع ہوئیں۔لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کےادیب و شاعروں کے ساتھ دوری میںبھی اضافہ ہوا اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ بھارت میں بنگلہ دیش کا اردو ادب نا آشنا ہو کر رہ گیا۔
1971 میں بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی اور اس کے بعدرونماہونے والی صورتِ حال نے اردو بولنے والوں کوپھر سے ایک بار ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور سابق مشرقی پاکستان سے کثیر تعداد میں اردو کے ادباء اور شعراء پاکستان کی جانب اپنا سفر اختیار کیا۔ ان ہجرت زدہ شعراء اور ادباء کےبنگلہ دیش کے ساتھ گہرے مراسم رہے۔ اس لئے ان لوگوں کی کاوشوں سے پاکستان کے ادبی جرائد و رسائل میں بنگلہ دیش کے شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات شائع ہوتیں رہیں لیکن تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ دھیرے دھیرے بنگلہ دیش کی تخلیقات نے ان لوگوں کی توجہ مبذول کرنے میں ناکام رہی اور اسی طرح بنگلہ دیش کے ادیبوں اور شاعروں کواردو ادب سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔
دوسری جانب مختلف وجوہات اور محدود وصائل کے پیشِ نظر بنگلہ دیش سے مستقل ادبی جریدہ یا رسالہ شائع کرنا ممکن نہ ہوسکا۔چند اقدامات کئے گئے لیکن ان اقدامات میں پائیدار کوششوں کا بحران رہانیز ڈاک سمیت ذرائع آمد و رفت کی گرانی کی وجہ سےبنگلہ دیش کی ان کاوشوں کو پاک و بھارت سمیت دنیائے اردو ادب سے منسلک شخصیت، تنظیموں یا ادارے تک رسائی نہ ہوسکی۔
انہیں تمام حد بندیوں میں شمیم زمانوی اپنی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلسل اردو شاعری میں طبع آزمائی کرتے رہے۔ شمیم زمانوی بیک وقت نظم، غزل، منقبت، ثلاثی،رباعی، ہائیکو اور ہندی میں تریبھوج کے نام سےایک منفرد طرزِ شاعری متعرف کرائی اور مستقل شاعری کررہے ہیں۔جہاں تک اردو ادب کے بارے میں میری معلومات ہے ان ہی دائرئہ علوم کے تحت میں اس بات پر یقین کرتا ہوں کہ تریبھوج(تین اشعار پر مشتمل شاعری) شمیم زمانوی کی خود کی ایجاد کردہ ایک صنف شاعری ہے ۔
شمیم زمانوی نثر میں کم شاعری میں زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے وہ اپنی کسی بھی بات کو شعر میں ڈھال کر اسےسامعین کے لئے پیش کرتے ہیں۔ کسی بھی پروگرام میں انہیں مدعو کیا گیاہو وہ اس پروگرام کے عنوان کےحوالے سے طویل نظم یا کلام کا احاطہ کرتے ہیں اور اس پروگرام کے عنوان کواپنے شعر میں سمیٹتے ہوئےپیش کرتے ہیں۔یہ صلاحیت برصغیر میں شائد ہی کسی شاعر میں ہو۔
شمیم زمانوی ایک سراپا شاعر ہیں جن میں ایک بوہیمین کردار بستابھی ہے۔ سادہ دل اور سبھوں کی بھلائی کے خواہاں شخصیت ہمہ وقت اردو ادب کی خدمات میں خود کو وقف کر دیا ہے۔اردو ادب کے حوالے سے شمیم زمانوی کی شخصیت فنا فی العشق اردو کی ہے۔
شمیم زمانوی کا اصل نام شمیم احمد خان ہے۔ شمیم زمانوی 15 دسمبر 1950 میں بھارت کےصوبہ اتر پردیش میں ضلع غازی پورکے ایک قصبہ زمانیہ میں پیدا ہوئے۔ لیکن بھارت میں مسلمانوں کے لئے نامسائد حالات کے پیش نظر اپنے خاندان کے ساتھ ترکِ وطن کرکے سابق مشرقی پاکستان کے جنوب میں دریائے کرنافلی کے کنارے آبادملک کا دلکش آمیز، سحرانگیز بندر گاہی شہر جاٹگام میں پناہ لی۔شمیم زمانوی نے اپنا لڑکپن اسی شہر میں گذارابعد ازاں ان کے خاندان ملک کے جنوب مغرب میں واقع تیسرابڑا شہر کھلنا چلے آئے۔ اردو زبان میں اتھارٹی رکھنے والی شخصیت شمیم زمانوی کو اپنی طالب علمی کے زمانے سےہی شاعری کا شوق رہا ۔ اس وقت ان کی ملاقات کھلنا سمیت ملک کے شہراآفاق شاعروں اور ادیبوں سے ہوئی اور ان کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرنے کا موقع بھی ملا۔
شیم زمانوی صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ادبی میدان میں ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے ابتدائی زمانے سے ہی اردوزبان و ادب سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔انہوں نے بنگلہ دیش میں اردو کی آبیاری کے لئے کھلنا سے بزم شاہین، مخزنِ ادب کے نام سےقائم ہونے والی ادبی تنظیموں میں سرگرم کارکن کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں۔ قلمی ادبی جریدہ شاہین کے مجلسِ ادارت میں رہے اور خود قلمی رسالہ مخزن کی ادارت بھی سنبھالی۔ 1997جاٹگام میں قائم ہونے والی بنگلہ-اردو سوسائیٹی کے مشیر کی حیثیت سے اس تنظیم کو فعال بنانے میں بنگلہ کے شاعر اسد چودھری، اردو شاعرپروفیسرکلیم سہسرامی، نوشاد نوری اور احمد الیاس کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا۔
ڈھاکے میں اردو ادبی سرگرمی ماند پڑنے لگی توبیسویں صدی کے اوائل میں ملک کے معروف افسانہ نگاراور ادبی و سماجی کارکن س۔ م ساجد(مرحوم) کےاصرار پرنوشاد نوری کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ڈھاکہ چلے آئے اور ڈھاکہ جو کہ بنگلہ دیش کا دارالحکومت ہے میں اردو ادب کی سر گرمیوں کو فعال بنانے کے لئے مستقل یہاں قیام کی سعی کی اور حتی المقدور کوششیں جاری رکھیں۔ ڈھاکہ میں احمد الیاس نے اپنے ساتھ غیر سرکاری ادارہ الفلاح بنگلہ دیش میں ان کی ملازمت کاانتظام بھی کیا۔
2007میں جب ڈھاکے میں بنگلہ-اردو ساہتیہ فائونڈیشن کا قیام عمل میں آیا تو شمیم زمانوی نےپھر سے ایک بار اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس تنظیم کے لئےقدمِ سخنِ تعاون کیا۔جب اس تنظیم کے زیرِ اہتمام ادبی رسالہ سہہ ماہی آواز شائع ہوا تو شمیم زمانوی کو اس رسالے کا مدیر منتخب کیا گیا۔
فی زمانہ بنگلہ دیش کے طول و ارض میں اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کی سرپرستی کرتے ہوئےشمیم زمانوی ایک بے مثل شخصیت کا کردرا اداکررہے ہیں۔بنگلہ دیش کی اردو شاعری کو دنیائے اردو ادب کے سامنے مجروح ہونے سے بچانے کے لئے شمیم زمانوی ہمہ تن تیار ہیں اور شاعری کی نوک و پلک درست، بحر، وزن سمیت ردیف و قافیہ اور املے کی اصلاح کے لئے چہرے پر مسکراہٹ لئےسنجیدگی کے ساتھ کام کئے جارہے ہیں۔ شمیم زمانوی کی شخصیت کے بارے میں لکھنا یوں سمجھ لیجئے کہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
شمیم زمانوی 2000 میں دہلی کے عالمی مشاعرہ جشنِ بہارمیں شرکت کر چکے ہیں۔ جس میں پاکستان کے شہرئہ آفاق شاعر احمد فراز اور کشور ناہید نے بھی شرکت کی تھی۔ بعد ازاں 2010 میں بنگلور میںاردو منچ کی جانب سے منعقد ہونےو الے عالمی مشاعرے میں بھی شرکت کی۔ اس مشاعرے میں پاکستان سے امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی اور فاطمہ حسن سمیت کنیڈا سے تقی عابدی نے شرکت کی تھی۔ اس مشاعرے میں راقم کو بھی شرکت کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ شمیم زمانوی کلکتہ اور یوپی میں منعقد ہونے والے متعدد مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔
ان ہی تمام حقیقت کے پسِ پشت ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ 1971 کا سانحہ شمیم زمانوی کے دل و دماغ میں گہرا اثر چھوڑا۔ ہمہ وقت اردو زبان کی آبیاری اور زبانوں کے درمیان حائل خلاء کو پُر کرنے کے لئے کوششیں جاری رکھنے والی شخصیت کو اس بات کا احساس ہےکہ بنگلہ دیش میں اردو زبان معتوب ہو کر رہ گئی۔ اسی کے ساتھ ان کی نظر دنیا کی ان زبانوں پر رہی ہے جواربابِ اختیار کی بے حسی اور لاپرواہیوں کی وجہ سےناپید ہوتی جارہی ہیں۔ زبان کے ساتھ امتیازانہ روئیوں نے شمیم زمانوی کو لرزا دیا اور انہوں نے زبان کے حوالے سے شہراء آفاق نظم ’’زبان‘‘ کہی۔ اس نظم میں انہوں نے اپنے جگر کے لہوکونچوڑکرایسے لفظوں کا انتخاب کیا اور پھر ان لفظوںکو نظم میں پیرویا کہ یہ نظم خود ایک تحریک بن کر سامنے آئی۔ جو بھی اس نظم کو سنتا یا پڑھتا ہے تو اس کے اندرکی سوئی ہوئی حس جاگ جاتی ہے اور وہ زبان کے حوالے سے درد کو محسوس کرسکتا ہے۔ شمیم زمانوی اپنی نظم ’’زبان‘‘ میںزبان کے تحفظ کے لئے کچھ اسطرح اشعار کہے ہیں:
زمین کیاہے مِرا آسمان بھی لے لو
مِرا غرور مِری آن بان بھی لے لو
اگر ہے جاں کی ضرورت تو جان بھی لے لو
اس بند کے بعد شمیم زمانوی زبان کے حوالے سے ان نامسائد حالات کا ذکر کرتے ہوئےزبان کے چھن جانے کی وجہ سے ابھرتےغم و آلام کو کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:
مِرے غموں کو نچوڑو خوشی بھی لے جائو
مِرا شعور مِری آگہی بھی لے جائو
اندھیرے دے کے مجھے روشنی بھی لے جائو
پھر شمیم زمانوی اردو بولنے والوں کے صبر و تحمل اور قربانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اس بند میں کچھ اس طرح کہتے ہیں:
اگر میں اُف بھی کروں دار پر چڑھا دینا
فلک بھی دے نہ سکا جو، مجھے سزا دینا
مجھے بھی حرفِ غلط کی طرح مٹا دینا
نظم کے اس حصے میں شمیم زمانوی اپنی اپنی مادری زبان کےتحفظ وبقاء کے لئے دنیا کے نقشے سے ناپید ہونے والی زبانوںکو بچانے کی خاطر انہیں ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اپنی زبان کی خاطر وہ کیا کچھ نہیں کرسکتے اور اسی طرح انہوں نےنظم کے ایک بند میں بلکہ یوں کہئے کہ سمندرکو کوزے میں بند کرنے کی سعی کی اور اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی کہ:
میں اپنے دل کا قرار و سکون دیدونگا
خرد کی قید میں اپنا جنون دیدونگا
ہوس کی پیاس بجھانے کو خون دیدونگا
اب شمیم زمانوی زبانوں کی حفاظت اور آبیاری کے لئے اپنے تیکھے انداز میںان لوگوں کو متنبہ کرتےہوئےدرجِ ذیل بند جورنگ و نسل ، مذہب و علاقائیت اور تعصب و امتیازانہ روئیوں کو بروئے کار لاتے ہوئےدنیا کی کسی بھی زبان کو مسمار کرنا چاہتے ہیںیا اس زبان کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں کے خلاف مردہ دلوںکو زندہ کردینے والے اشعار قلم بند کئے ۔ وہ کہتےہیں:
مگر خیال رہے۔۔۔۔۔۔
ہر ایک شئے میری لے لو زبان مت چھینو
مِری زباں مِری تہذیب کی امانت ہے
مِری زباں مِرے اجداد کی وراثت ہے
مِری زبان مِری قومیت کی ہے پہچان
زبان جیسی بے بہا نظم اوربے شمار غزلوں کے خالق شمیم زمانوی بنگلہ دیش میںاردو ادب کے لئے ایک ایسااثاثہ ہیں جسےدنیائے اردو ادب کی ضرورت ہے لیکن وہ خود کو لوگوں کی نظروں سے چھپا ئے رکھے اپنی تشہیر سے بے پرواہ شخصیت شمیم زمانوی کی شعری مجموعہ فاصلوں کی قربت زیر طباعت ہے۔ اس شعری مجموعہ کا منظرِ عام پرآنا اشد ضروری ہے تاکہ دینائے اردوادب شمیم زمانوی کی حقیقی قابلیت کا ندازہ لگا سکیں۔
مجھے امید ہے کہ شمیم زمانوی اپنے شعری مجموعہ کی قارئین تک کی رسائی کے لئے مزید پیش رفت کرینگے تاکہ شاعری سے دلچسپی رکھنے والے ان کی شاعری سے استفادہ کر سکیں۔