کالم

سائنسدان بھگوان

Share

کسی سائنس دان کی بڑی سے بڑی ایجاد یا دریافت کا صلہ سرکاری و غیر سرکاری انعامات و اعزازات کی صورت میں ہی عموماً ہوا کرتا ہے ۔ عظمت کا اعتراف منصب اور سرکاری عہدہ دینے کی صورت میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔ نوبیل انعام سے زیادہ بھلا اب کسی سائنس دان و موجد کی کیا پذیرائی ہو سکتی ہے ۔ امریکی سائنسدان اور موجد تھا مس ایڈیسن جس نے برقی بلب ایجاد کیا اس لحاظ سے کچھ زیادہ خوش بخت ثابت ہوا کہ اسے یہاں بہت سے لوگ دیوتا اور خدا کا اوتار مانتے ہیں ۔ کیوٹو شہر کی کچھ عبادت گاہوں میں اس کی پوجا کی جاتی ہے اور چند ایک معبد تو اس کے نام سے بھی منسوب ہیں ۔ بانس کے باغات میں واقع یہ عبادت گاہیں جن میں ایڈیسن کو خدا کا درجہ حاصل ہے بنیادی طور پر جاپان کے قدیم اور سرکاری مذہب شنتو ازم سے ہی متعلق ہیں اور ایڈیسن کے پجاری اسی مذہب کا ایک فرقہ شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان ہی عبادت گاہوں کے باہر سجے ہوئے اسٹال جو مختلف مذہبی نوعیت کے لوازمات فروخت کرتے ہیں ان میں بانس کی چھوٹی سی تختی پر بنی ہوئی ایڈیسن کی تصویر بھی ہے جس میں اسے بھگوان دکھایا گیا ہے پہلی مرتبہ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس بھگوان دیکھ کر مجھے بھی جھٹکا تو زور کا لگا مگر جب ان لوگوں سے پوچھا جائے جن کو 1949 سے باقاعدہ سرکاری طور پر ایک فرقہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ایک سائنس دان جو کہ آپ کا ہم مذہب بھی نہیں تھا اسے خدا کے درجے پر فائز کرنے کی کیا وجہ ہے تو ان کا جواب عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ چونکہ اس نے بلب ایجاد کیا جس سے ہماری تاریک راتیں روشن ہو گئی ہیں اس لیے اسے ’’بجلی کا دیوتا‘‘ ماننا منطقی بات ہے ۔ حقیقت میں مگر ایڈیسن اور ان معبدوں کا تعلق اتنا سادہ اور سطحی نہیں ہے ۔ بانس کے گھنے باغات میں گھری کیوٹو شہر کی ان عبادت گاہوں اورایڈیسن کے باہمی تعلق کی ابتدا کیسے اورکب ہوئی;238; یہ ایک پراسرار سا موضوع لگتا ہے لیکن یہ کوئی راز کی بات تو نہیں ہے البتہ ایک حسین اتفاق ضرور ہے ۔

برقی بلب کی ایجاد کے دوران ایڈیسن نے اپنی نیو جرسی میں واقع لیبارٹری سے بہت سارے شاگردوں ، رضاکاروں اور معاونین کو دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجا تاکہ وہ مختلف مادوں پر تحقیق کریں کہ کون سا مادہ بلب کے فلامنٹ کے طور پر سب سے زیادہ موزوں رہے گا ۔ بنیادی کسوٹی فلامنٹ کے جلنے کا دورانیہ تھی ۔ جو مادہ سب سے طویل عرصہ جلنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہی فلامنٹ کے طور پر سب سے مناسب گردانا جاتا تھا ۔ ایڈیسن کی اس ٹیم نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے چھ ہزار سے زیادہ پودوں پر تجربات کیے اور انہیں بلب کے فلامنٹ کے لیے درکار مادے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ اسی ٹیم کے چند ارکان کیوٹو شہر میں بھی آ پہنچے جو کہ کئی صدیوں تک جاپان کا دارلخلافہ رہا ہے ۔ اسی شہر میں واقع بانس کے ان باغات پر بھی انہوں نے تحقیق کی جہاں اب ایڈیسن کے پیروکاروں کی عبادت گاہیں ہیں ۔

خدا جانے بانس کا روحانیت کے ساتھ کیا تعلق ہے مگر بہت سے صوفیاء کرام اسے بزرگ درخت گردانتے ہیں ۔ مثنوی مولانا روم;231; کا پہلا شعر ہی یہ ہے کہ بانسری کی آواز کو ذرا غور سے سنو کہ وہ کیا حکایت بیان کر رہی ہے، اس کی آواز میں اتنا سوز اور درد اس لیے ہے کیونکہ اسے سرکنڈے سے کاٹ کر الگ کیا گیا ہے اور اس کی آواز سے بانس سے جدائی کا دکھ اور کرب ہے جو چھلک رہا ہے ۔

قصہ مختصر یہ کہ ایڈیسن کے رضاکاروں کو بانس کے ان باغات سے اپنا گوہر مراد یعنی وہ مطلوبہ مادہ مل گیا جو برقی بلب میں فلامنٹ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھا ۔ بانس کے ان درختوں میں پایا جانے والا یہ مادہ فلامنٹ کے طور پر 2450 گھنٹے یعنی کم و بیش ساڑھے تین ماہ تک جلتا رہنے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ یہ دورانیہ دنیا کے کسی بھی مادے سے بنائے گئے فلامنٹ سے زیادہ تھا ۔ یہ دریافت بجلی کی دنیا میں ایک انقلاب کا نقطہَ آغاز ثابت ہوئی ۔

پتا نہیں تکنیکی اعتبار سے بانس کو درخت کہنا بھی چاہیے کہ نہیں کیونکہ ماہرین نباتیات کے نزدیک یہ گھاس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔ نباتیات کے شعبہ میں تو میں نے گریجوایشن کر رکھی ہے مگر یہاں معاملہ انشاء پردازی کا ہے اس لیے تھوڑی سی کنفیوژن ہے ۔ خیر اس کے بعد ایڈیسن نے اپنی مشہور زمانہ ایڈیسن الیکٹرک کمپنی قائم کی جو بعد ازاں جنرل الیکٹرک کمپنی بن گئی جس نے صنعتی پیمانے پر برقی بلب بنانے شروع کر دیے جن میں کیوٹو کے بانس کو بطور فلامنٹ استعمال کیا گیا تھا ۔ اس سے پہلے تو اس بانس کا بنیادی استعمال تعمیری شعبے میں ہی تھا یا پھر اس سے ٹوکریاں ، ہاتھ کے پنکھے، چھتریاں اور ٹوپیاں وغیرہ بُنی جاتی تھیں ۔ آج کل تو بانس سے پیزا تک بنایا جاتا ہے جو یہاں کی مقبول خوراک میں شامل ہے مگر مجھے تو اس کا ذائقہ ذرا بھی پسند نہیں آیا، پھیکا میٹھا سا بڑا عجیب پھُس پھسا ذائقہ ہوتا ہے ۔ آپ کے لیے تو یہی مشورہ ہے کہ اسے کھانے اور آزمانے کی کوشش نہ کریں ورنہ آپ کو بھی مایوسی اوربدمزگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ بانس کے باب میں فطرت اور انسانی ذہانت کے جو دیگر حسین امتزاج ہیں بات وہیں تک محدود رکھی جائے ۔ مجھے تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ صرف تھامس ایڈیسن کو ہی یہاں دیوتا کا درجہ حاصل نہیں ہے بلکہ جرمن سائنس دان ہرٹس کو بھی خدا کا اوتار مانا جاتا ہے ۔ اس سے ہ میں یہاں کی صرف روحانیت کی جہتیں ہی معلوم نہیں ہوتی ہیں بلکہ اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت لوگوں کے ذہن میں کتنی زیادہ ہے ۔ علاوہ ازیں اس بات سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ یہاں سائنس دانوں کو کس تکریم اور تقدس سے دیکھا جاتا ہے ۔