منتخب تحریریں

چند بے ضرر سالانہ پیش گوئیاں

Share

پیش گوئی کرنے میں کیا جاتا ہے۔ پوری ہوگئی تو واہ واہ۔ نہ ہوئی تو ڈھیلے منہ سے کہہ دیا کہ بھیا یہ کوئی حتمی بات تھوڑا تھی، پیش گوئی ہی تو تھی۔ مگر بہت سے ماہرینِ معیشت کی طرح کچھ ماہرِ پیش گوئیات پھر بھی اڑے رہتے ہیں کہ اگر فلاں فلاں شے میں فلاں فلاں تبدیلی نہ ہو جاتی تو میرا اندازہ بالکل سچ ثابت ہوتا۔اس سہولت کے سبب میں بھی کچھ پیش گوئیاں کر رہا ہوں۔

سال دو ہزار انیس جیسے گذرا سال دو ہزار بیس بھی کم و بیش ویسے ہی گذر جائے گا۔ جہاں تک پاکستانی سیاست  کا معاملہ ہے تو یہاں دائمی انتخابی مہم جس طرح  ہمیشہ سے چل رہی ہے اس برس اس میں مزید شدت آجائے گی۔

عمران خان ’میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کی تسبیح گھماتے ہوئے احتسابی عمل کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے ایک سے ایک ’ون سوونوا‘ عذر تلاش کرتے رہیں گے اور ان کے اتحادی ایک مستقل مزاج عمران خان کی تلاش جاری رکھیں گے۔ جس طرح گذشتہ برس ’گھبرانا نہیں‘ کہتے کہتے گذر گیا یہ برس بھی ’مزید گھبرانا نہیں‘ کی گردان کے سائے میں گذر جائے گا۔ سوائے اس کے اور آپشن ہے بھی کیا؟ گھبرا کے بھی لوگ کیا اکھاڑ لیں گے؟

بلاول بھٹو زرداری کے اندازِ تقریر میں اس برس بھی محترمہ والدہ صاحبہ جھلکتی رہیں گی( کم ازکم والدہ صاحبہ نے اپنا تقریری انداز بلاول کے نانا سے الگ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی لیکن بلاول کے تقریری اتالیق ایسی ہر کوشش ناکام بنا دیں گے) جب تک بلاول اپنا انفرادی اندازِ خطابت نہیں بناتے تب تک انہیں دیکھ اور سن کر محترمہ کی یاد آتی رہے گی اور بلاول کا اندازِ سیاست بھی والد اور والدہ  کے نرم اور گرم لہجے کا قیدی بنا رہے گا۔

عمران خان کے اتحادی ایک مستقل مزاج عمران خان کی تلاش جاری رکھیں گے

جہاں تک قسمت کے دھنی میاں نواز شریف کا معاملہ ہے تو ان کا تاثرات سے عاری سپاٹ بھولا چہرہ دو ہزار بیس میں بھی یونہی دمکتا رہے گا اور وہ ’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘ کا زندہ معجزہ بنے رہیں گے اور از قسمِ آپاں فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری اور ہم نوا یہی ٹاپتے رہیں گے کہ میاں جی واقعی شدید بیمار ہیں کہ جھاکا دے رہے ہیں؟ لگدا تے نئیں شاید۔ خدا کسی کو دشمنوں کے سینے پر اس طرح سے مسلسل مونگ دلنے والی بیماری نہ لگائے۔

سدا بہار مولانا فضل الرحمان کا جہاں تک معاملہ ہے تو ان کی سیاسی فراستوں کا نئے یا پرانے سال یا سرکاریں آنے جانے  سے کوئی لینا دینا نہیں۔ نہ وہ جھکتے ہیں نہ بکتے ہیں۔ یہ کام تو سرکاریں کرتی ہیں۔ مولانا نئے برس میں بھی عملی سیاست کی زندہ نصابی کتاب کے طور پر قومی اثاثہ ثابت ہوتے رہیں گے۔

’جب تک بلاول اپنا انفرادی اندازِ خطابت نہیں بناتے تب تک انہیں دیکھ اور سن کر محترمہ کی یاد آتی رہے گی‘

سال دو ہزار انیس میں جس طرح ایم کیو ایم مخلوط حکومت میں بے ضرر پارٹنر بنی رہی نئے سال میں بھی وہ اسی سعادت مندی کا مظاہرہ کرتی رہے گی۔ جب سے ایم کیو ایم کی کامیاب ای این ٹی سرجری ہوئی ہے تب سے اسے ٹی این ٹی کامیابی سے علیحدہ کر لیا گیا ہے۔ اب ماشااللہ ایم کیو ایم  جو سننا چاہے وہی سنتی ہے جو دیکھنا چاہیے وہی دیکھتی ہے اور جو کہنا چاہیے وہی کہتی ہے ۔

پاک چائنا اکنامک کاریڈور نئے برس میں مزید مقدس گائے ہو جائے گا۔ دلائل، مخالفت اور بھانت بھانت کے سوالات اپنی جگہ مگر کاریڈور کا کام نہیں رکے گا۔ ویسے اب تک سی پیک کا پورا ہاتھی کوئی بھی نہیں دیکھ پایا۔ کوئی سونڈ کو، تو کوئی دُم کو تو کوئی پاؤں کو ہاتھی سمجھ رہا ہے۔ اب جبکہ سی پیک اتھارٹی بھی ظہور میں آگئی ہے تو اصل ہاتھی شائد اگلے برس  سامنے آئے گا اور اس کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوگا۔

چین کے لیےیہ گیم ہے، حکمران طبقات کے لیے منی چینجر اور عام آدمی کے لیے گیم چینجر۔

نواز شریف ’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘ کا زندہ معجزہ بنے رہیں گے
اب کچھ علاقائی پیش گوئیاں:

نریندر مودی کا انڈیا اپنے لیے بھی اور اپنے ہمسائیوں کے لیے بھی ایک تکلیف دہ رولر کوسٹر بنا رہے گا۔ مگر کشمیر اور شہریت کا ترمیمی بل مودی حکومت کو سیاسی گٹھیا میں مبتلا  کر بیٹھا ہے۔ اس مرض کے سبب معیشت بھی  دوڑنا لپکنا بھول کر لاٹھی کے سہارے ٹیڑھی ٹیڑھی چلتی رہے گی ۔اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ جب سے شہریت کے ترمیمی بل کا ہنگامہ برپا ہوا ہے لوگ ستر کی دہائی کی ایمرجنسی بھول کر اندرا گاندھی کو دعائیں دینے لگے ہیں۔

پاکستان کی سمجھ میں اس برس بھی نہیں آئے گا کہ ریاض، انقرہ اور کوالالمپور میں سے کسے کب پکڑنا اور کب چھوڑنا اور کتنا پھر پکڑنا ہے۔ البتہ کابل تا دمشق حالات میں گہری تبدیلی آئے گی مگر ایران اور امریکہ کے درمیان چھتیس کا آنکڑا بھی خلیج کے علاقے میں جما رہے گا۔

اس سال عالمگیر اقتصادی و ماحولیاتی جنگ میں مزید شدت آئے گی۔ کوئی ملک محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ یورپ غیر جانبدار رہنے کی اپنی سی کوشش ضرور کرے گا البتہ اسے جلد احساس ہو جائے گا کہ عسکری لڑائی میں تو نیوٹرل اداکاری ہو سکتی ہے مگر ماحولیات اور اقتصادیات کی جنگ میں سب سے پہلی ہلاکت غیر جانبداری کی ہوتی ہے۔ ماحولیاتی جنگ اور چین امریکہ اقتصادی چپقلش  کے سبب اقوامِ متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے ڈھانچوں پر بے پناہ دباؤ آئے گا۔ دعا ہے کہ وہ یہ دباؤ سہار پائیں۔

’نریندر مودی کا انڈیا اپنے لیے بھی اور اپنے ہمسائیوں کے لیے بھی ایک تکلیف دہ رولر کوسٹر بنا رہے گا‘

جہاں تک نئے سال میں پاکستانی میڈیا کا معاملہ ہے تو گذرے برس کی طرح نئے برس میں بھی نئے آئیڈیاز سے خالی میڈیا اس دہاڑی مزدور کی طرح  حالاتی چوک پر ہتھوڑی چھینی کدال پھاوڑہ لیے ایسے خبری گاہک کا انتظار کرتا رہے گا جو اس کا ایک دن اور اچھا گذروا دے۔

گذشتہ برس میڈیا دباؤ کے سبب کبڑا تو ہوگیا مگر اس سال یہ دیکھنا ہے کہ جھکا ہوا میڈیا بالکل ہی لیٹ جائے گا یا مزید دباؤ اس کی کمر پر وہ آخری فیصلہ کن تنکہ ثابت ہو گا کہ اس کی مثالی قوتِ برداشت جواب دے جائے اور وہ چابک برداروں پر ایک آدھ دولتی گھما دے۔

بشکریہ اُردو نیوز