منتخب تحریریں

وفاقی حکومت کیلئے وقت کم مقابلہ سخت کی کیفیت

Share

عاشقان عمران خان ہی نہیں کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے بلکہ موجودہ حکومت سے اکتائے بے تحاشہ افراد بھی ان دنوں ’’اب مزا آیا‘‘ والی لذت محسوس کررہے ہیں۔گزشتہ ہفتے کے دوران تحریک انصاف کے قائد نے قوم سے جارحانہ خطاب کے ذریعے اپنے خلاف لگائی مبینہ ’’ریڈ لائن‘‘ کو للکارا۔ بعدازاں چودھری پرویز الٰہی کو حکم صادر ہوا کہ وہ پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی اکثریت ثابت کریں۔ وہ ثابت ہوگئی تو عین ایک دن بعد صوبائی اسمبلی کی تحلیل یقینی بنادی گئی۔مسلم لیگ (نون) کے ’’کائیاں سیاستدان‘‘ ان دونوں اقدامات کے امکان کو رعونت سے رد کررہے تھے۔ان پر عمل پیرا ئی نے انہیں اب حواس با ختہ بنارکھا ہے۔

سیاسی عمل میں ہار اور جیت معمول تصور ہوتی ہے۔اقتدار کا کھیل کئی رائونڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ہارا ہوا لشکر مگر ہارنے کے بعد گیم میں واپسی کی مؤثر حکمت عملی سے محروم نظر آئے تو جی بہلانے کو معجزوں کی توقع باندھنا شروع ہوجاتا ہے۔خواب اب یہ دیکھا او ردکھایا جارہا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کسی نہ کسی وجہ سے 90دنوں کے اندر نہیں ہوپائیں گے۔ان کے انعقاد کے لئے قائم ہوئی عبوری حکومت حیلوں بہانوں سے اپنے اقتدار کو طول بھی دے سکتی ہے۔یہ خواب دیکھتے اور دکھاتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی ہے کہ ہمارے ہاں ایک ’’تحریری آئین‘‘ ہے۔اس کی ’’تشریح‘‘ کا حتمی اختیار جنہیں حاصل ہے وہ مسلم لیگ (نون) پر 2016 ء سے شاذہی مہربان رہے ہیں۔

آئین میں طے شدہ محدودات کے علاوہ چند دیگر عوامل بھی ہیں جن کی جانب فی الوقت توجہ ہی نہیں دی جارہی۔پاکستان کو درپیش سیاسی بحران کا کلیدی سبب اقتصادی بحران ہے۔اس سے نبردآزما ہونے کے لئے نئے آرمی چیف کی بھرپور معاونت سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمیں وقتی مگر ٹھوس سہارے فراہم کرنے کو رضا مند ہوئے۔ امید تھی کہ مذکورہ سہارے آئی ایم ایف کو رام کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ مگر ٹس سے مس نہیں ہورہا۔مصر ہے کہ امریکی ڈالر کی ’’حقیقی قدر‘‘ بازار میں موجود حقائق طے کریں۔اس کے علاوہ صارفین سے پیٹرول،گیس اور بجلی کی کم از کم ’’اصل‘‘ قوت خرید ہر صورت وصول کی جائے۔ قومی خزانے کو ان کے نرخ قابل برداشت رکھنے پر ’’ضائع‘‘ نہ کیا جائے۔نظر بظاہر کافی اڑی دکھانے کے بعد شہباز حکومت مطلوبہ اقدامات ’’بتدریج‘‘ لاگو کرنے کو آمادہ ہوگئی تھی۔اس کی آمادگی نے یہ امید بھی دلائی کہ غالباََ رواں ماہ کے اختتام تک ہم آئی ایم ایف سے ’’امدادی پیکیج‘‘ کی رکی ہوئی رقوم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔پنجاب اسمبلی کی تحلیل نے مگر مذکورہ امید کو رد نہ سہی معدوم دکھانا شروع کردیاہے۔

قومی اسمبلی تحلیل کئے بغیر اگر پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب ہی کروانا ہیں تو ان کا انعقاد آئینی تقاضوں کے مطابق رواں برس کے اپریل میں لازمی ہے۔آئی ایم ایف سے رکی ہوئی رقوم کے حصول کے لئے وفاقی حکومت نے دریں انثاء بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھائیں تو مہنگائی کی ایک اور کمر توڑ لہر کا سامنا کرنا ہوگا۔اس کی شدت سے بلبلائے ووٹر مسلم لیگ (نون) کے امیدواروںکے خلاف مزید غضب ناک ہوجائیں گے۔انتخابی میدان میں تحریک انصاف کو ان کا غضب ’’واک اوور‘‘والی آسانیاں مہیا کرے گا۔

بجلی اور گیس کے نرخوں کو مزید ناقابل برداشت بنانے کے بعد مسلم لیگ (نون) اگر پنجاب کے انتخابی اکھاڑے میں اتری تو محترمہ مریم نواز ہی نہیں ان کے والد کی وطن واپسی بھی اس جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کی کامیابی یقینی نہیں بنا پائے گی۔انتخابی میدان میں مقابلے کی سکت برقرار رکھنے کے لئے شہباز شریف اور اسحاق ڈار صاحب کے لئے لازمی ہوجائے گا کہ وہ اپریل کے وسط تک آئی ایم ایف کو نظرانداز کئے رکھیں۔ممکنہ نظراندازی اگرچہ ہما ری ریاست کے دیوالیہ ہوجانے کے امکانات شدت سے اجاگر کرنا شروع ہوجائے گی۔

گزرے برس کے اپریل سے شہباز حکومت مسلم لیگ (نون) کا ووٹ بینک تباہ ہونے کا جواز ’’وطن دوستی‘ ‘ میں ڈھونڈ رہی تھی۔وزیر اعظم اور ان کے وفادار ساتھی مصر رہے کہ حقیقی محبان وطن ہوتے ہوئے شہباز صاحب اور ان کے معاشی ماہرین اپنی سیاست کے بجائے ’’ریاست‘‘ بچانے کی فکر میں مبتلا ہیں۔آئی ایم ایف کی شرائط کو اپریل کے وسط تک مؤخر رکھنامگر انہیں مذکورہ جواز سے بھی محروم کر دے گا۔عوام ہی نہیں بلکہ ریاست کے دائمی اداروں کی نگاہ میں بھی وہ پاکستان کا دیوالیہ یقینی بنانے کے واحد ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔

مسلم لیگ (نون) کے چند اہم فیصلہ سازوں سے میری ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ جس پہلو کی جانب میں آپ کی توجہ دلارہا ہوں اس کے ادراک سے وہ کامل محروم سنائی دئے۔ فقط اس اعتماد کا اظہار ہی کرتے رہے کہ انتخابی میدان میں تحریک انصاف کا ’’ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا‘‘۔ اسے دو تہائی اکثریت نصیب نہیںہوگی۔میری جانب سے اس ضمن میں ’’کیسے‘‘ پر مبنی سوالات کا مگر تسلی بخش جواب فراہم نہ کرپائے۔ ان کی خوش گمانی نے مجھے یہ سوچنے کو مائل کیا کہ جی کو تسلی دینے میں مبتلا دوستوں کو آئی ایم ایف سے متعلق سوالات اٹھاکر مزید حواس باختہ نہ بنائوں۔

امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی ’’حقیقی قدر‘‘ اور بجلی،گیس اور پیٹرول کے ’’طلب ورسد‘‘ کی منطق کے تحت طے ہوئے نرخوں پر مبنی سوالات کو لیکن آئندہ دو سے تین ہفتوں کے دوران نظراندازکیا ہی نہیں جاسکتا۔وقت کم اور مقابلہ سخت والی کیفیت ہے۔عمران خان صاحب نے گزشتہ ہفتے کے دوران یکے بعد دیگرے دو ’’گگلی گیند‘‘ پھینک کر اپنے عاشقان اور کمر توڑ مہنگائی سے اکتائے افراد کی بے تحاشہ تعداد کو یقینا شادمانی فراہم کردی ہے۔ٹھوس معاشی حقائق پر مبنی اٹھائے مذکورہ بالا سوالات کا کماحقہ جواب ان کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔