Site icon DUNYA PAKISTAN

کراچی میں سمندر سے ملنے والی لاش کا معمہ: 23 سالہ ڈاکٹر سارہ ملک نے خود کشی کی یا ان کا قتل ہوا؟

Share

’اس کو بلیوں سے پیار تھا۔ اس لیے اس نے ویٹرنری ہسپتال میں کام شروع کیا تھا۔ میں نے اس کو کہا تھا کہ آپ اپنے پروفیشن کی طرف توجہ دیں۔‘

یہ کہنا ہے سارہ ملک کے والد ابرار احمد ملک کا، جن کی 23 سالہ بیٹی کی لاش کراچی میں سمندر سے ملی۔

کراچی میں محمود آباد اعظم بستی کی رہائشی سارہ ملک دو روز تک لاپتہ رہیں جس کے بعد سمندر سے ان کی لاش ملی۔ پولیس نے ایک ویٹرنری ڈاکٹر سمیت دو افراد کو اس کیس میں حراست میں لیا ہے۔

’سارہ نے کہا امی گھر واپس آ رہی ہوں‘

سارہ ملک نے فزیو تھراپی میں اپنی پڑھائی مکمل کی تھی۔ سارہ کے والد ابرار احمد پولیس سے ریٹائرڈ ہیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں جن میں سارہ چوتھے نمبر پر تھیں۔

ابرار ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سارہ نے چھ جنوری بروز جمعہ کو دوپہر بارہ بجے اپنی والدہ کو فون کیا اور کہا کہ میں واپس آ رہی ہوں لیکن وہ نہیں آئیں۔‘

ابرار احمد نے ایف آئی آر میں کہا ہے کہ سارہ گزشتہ دو سال سے ڈیفینس میں واقع آر پی ویٹرنری ہسپتال میں کام کر رہی تھیں اور گذشتہ ایک ماہ سے ہسپتال کے مالک ڈاکٹر شان سلیم اور ملازمہ بسمہ سے بہت پریشان تھیں۔

ایف آئی آر کے مطابق چھ جنوری کو سارہ اپنے کام پر گئیں اور بعد میں انھوں نے اپنی والدہ کو فون پر بتایا کہ ’ڈاکٹر شان سلیم اور بسمہ سے بہت پریشان ہوں، انھوں نے زیادتی کی ہے تو والدہ نے کہا کہ تم پریشان نہ ہو واپس آ جاو لیکن وہ گھر نہیں آئی۔‘

’سارہ دل برداشتہ ہو گئی تھی‘

کیس کی تحقیقات کرنے والی ایس پی زاہدہ پروین نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈاکٹر شان سلیم کی مقتولہ سارہ سے دوستی تھی اور واقعے والے روز انھوں نے ہسپتال کے ایک کمرے میں ڈاکٹر شان کو دوسری کولیگ کے ساتھ کچھ حرکات کرتے دیکھ لیا جس سے وہ دل برداشتہ ہو گئیں اور کمرے سے باہر آئیں۔

ان کے مطابق ڈاکٹر شان سلیم نے ان پر تشدد بھی کیا جس کے بعد سارہ روتی ہوئی باہر چلی گئیں جہاں ہسپتال کی ریسپیشنسٹ نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ وہاں سے روانہ ہو گئیں۔

سارہ کے والد ابرار احمد ملک نے ایف آئی آر میں بتایا کہ تقریباً چار بجے ’ڈاکٹر شان سلیم نے فون کرکے اطلاع دی کہ آپ کی بیٹی سارہ ملک کا پرس اور جوتے ساحل سمندر سے ملے ہیں اور وہ لاپتہ ہے، آپ کلاک ٹاور آ جائیں۔‘

ابرار ملک کے مطابق وہ فوری کلاک ٹاؤر پہنچے تو ڈاکٹر شان سلیم موجود تھے جن کے ساتھ وہ ڈی ایچ اے فیز 8 کراچی پہنچے جہاں کافی لوگ اور پولیس موجود تھی۔

پولیس نے سارہ کا پرس، جس میں ان کا اصل شناختی کارڈ، ایک گھڑی، میک اپ کا سامان وغیرہ موجود تھا، اور ان کے جوتے بھی دیے۔

ابرار ملک کو معلوم ہوا کہ تقریباً سوا تین بجے دوپہر کو ان کی بیٹی کا سامان ملا تھا۔

ون فائیو پر کال کرنے والا کون تھا؟

پولیس کے مددگار کال نمبر 15 پر ایک شخص نے چھ جنوری کو پولیس کو کال کرکے سارہ کے سمندر میں جانے کی اطلاع دی۔

جمال نامی کالر، جو لانڈھی کا رہائشی ہے، نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ وہ جمعے کی نماز پڑھ کر نکلا تھا اور ساحل سمندر پر بیٹھا ہوا تھا کہ اس نے قریب ہی ایک لڑکی کو دیکھا جو رو رہی تھی۔

اس کے مطابق اسی دوران لڑکی نے سمندر کی طرف چلنا شروع کر دیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر اپنا پرس اور جوتے ساحل پر چھوڑے اور واپس سمندر کے پانی میں اتر گئی۔

کالر کے مطابق اس نے لڑکی کی مدد کے لیے آوازیں لگائیں مگر کوئی نہیں آیا۔ اس کے بعد 3 بج کر 15 منٹ پر پولیس مددگار 15 پر کال کی جس کے بعد پولیس اور ریسکیو ادارے پہنچے۔

پولیس نے ابتدائی طور پر کالر پر شبہ ظاہر کیا لیکن بعد میں اس کو چھوڑ دیا گیا۔

ایدھی کے رضاکار عمران غازی، ایمبولینس کے ساتھ قریب ہی تعینات تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اطلاع پر اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ ریسکیو کے لیے پہنچے تو وہاں پولیس موجود تھی۔

ایک شخص نے کہا کہ اس نے سامنے لڑکی کو ڈوبتے دیکھا، لوگ ڈھونڈتے رہے لیکن پتا نہیں چلا۔

’48 گھنٹے بعد لاش ملی لیکن تازہ تھی‘

سارہ ملک کی لاش پولیس کو 48 گھنٹے کے بعد ڈی ایچ اے فیز 8 کے قریب سمندر سے ملی۔ ایدھی رضاکار عمران غازی نے کہا کہ ’یہ لگ نہیں رہا تھا کہ لاش پرانی ہے۔‘

انھوں نے پہلے بھی پرانی لاشیں سمندر سے نکالی ہیں لیکن یہ ان جیسی نہیں تھی۔ ان کے مطابق اتنے عرصے میں لاش پھول جاتی ہے۔

’اس کی پلکوں پر آئی شیڈ لگا ہوا تھا، وہ اترا نہیں تھا۔ اگر کوئی ڈوبتا ہے تو بالوں میں ریت وغیرہ جاتی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ سمندر کی آخری لہر کے قریب اس کی لاش ایک سائیڈ پر موجود تھی۔‘

سارہ ملک کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جبکہ ان کے اعضا سے کیمیائی تجزیے کے لیے نمونے بھی لیے گئے ہیں جن سے معلوم کیا جائیگا کہ ان کو کوئی نشہ آور چیز یا زہریلا مواد تو نہیں دیا گیا۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سعید کا کہنا ہے کہ ’لاش تازہ لگتی ہے۔ آگے سے کپڑے گیلے اور پیچھے سے خشک تھے، چہرے پر معمولی خراشیں تھیں۔‘

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سارہ نے میرون رنگ کی ہڈ، بلیک ٹی شرٹ اور بلیک جینز پہن رکھی تھی اور ان کے ہڈ کا فرنٹ گیلا جبکہ پشت تقریباً سوکھی ہوئی تھی۔ ان کی بائیں جیب میں دائیں جیب سے زیادہ سمندری ریت تھی جبکہ بلیک جینز کی جیبوں میں ریت نہیں تھی۔

’مجھے پھنسایا جا رہا ہے‘

سارہ ملک نے خودکشی کی یا ان کا قتل کیا گیا، اس کا تعین ہونا باقی ہے۔ تھانہ ساحل پولیس نے سارہ ملک کی گمشدگی کی ایف آئی آر میں قتل کی دفعہ 302 بھی شامل کر لی ہے۔

کیس کی تحقیقات کرنے والی ایس پی زاہدہ پروین کہتی ہیں کہ سارہ کی گمشدگی دو روز رہی جبکہ لاش چند گھنٹے پرانی ہے، تو باقی وقت وہ کہاں تھیں؟

اس کیس کی تحقیقات جاری ہیں جس میں ڈاکٹر شان اور ان کے ایک دوست وقاص گرفتار ہیں۔ ڈاکٹر شان کا کہنا ہے کہ ہسپتال سے نکلنے کے بعد ان کا سارہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔

گرفتار ویٹرنری ڈاکٹر شان سلیم کا کہنا ہے کہ انھیں پھنسایا جارہا ہے لیکن وہ اس بارے میں واضح نہیں کر سکے کہ انھیں کیوں پھنسایا جا رہا ہے۔

ایف آئی آر میں ہسپتال کی ایک ملازمہ بسمہ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ ایس پی زاہدہ پروین نے بتایا کہ بسمہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شان نوجوان لڑکیوں کو ملازمت پر رکھتے اور پھر انھیں جھانسا دیکر ان سے تعلقات استوار کرتے ہیں تاہم پولیس کے مطابق اس بیان کی صداقت کو پرکھا جا رہا کہ کیا واقعی یہ حقیقت ہے یا بسمہ خود کو بچانے کے لیے ایسا کہہ رہی ہیں۔

دوسری جانب پولیس حکام کے مطابق سارہ ملک اپنا موبائل فون ہسپتال میں ہی پھینک گئی تھیں جس کو ملزمان نے فارمیٹ کیا جبکہ ہسپتال کی سی سی ٹی وی فوٹج بھی ختم کر دی۔

ایس پی زاہدہ پروین کے مطابق سارہ کا موبائل برآمد کر لیا گیا ہے جس کی فرانزک کرائی جا رہی ہے۔ پولیس نے ملزمان کا عدالت سے ریمانڈ بھی حاصل کر لیا ہے۔

Exit mobile version