کسی بھی الیکشن سے محض دو دن پہلے جب ایک دوسرے کی شکل برداشت نہ کرنے والے تین سیاسی دھڑے جبری نکاح کے گروپ فوٹو کی طرح نظر آنے لگیں اور ہنی مون پیریڈ گزارے بغیر ہی انھیں انتخابی انگاروں پر سے گزر جانے کا حکم مل جائے تو پھر جان بچانے کے لیے کسی نہ کسی جواز کے جوتے پہن کے پتلی گلی سے نیچے نیچے ہو کر نکلنا ہی پڑتا ہے۔
یہ تو انتخابی سیاست کا معمولی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں یا نئی مردم شماری جیسے مطالبات انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے بہت پہلے ہوتے ہیں۔
اگر یہ مطالبہ منطقی اعتبار سے درست ہے تو پھر اسی اصول کے تحت پہلے مرحلے کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا گیا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آدھا سندھ پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والے انتخابی عمل پر گزارہ کرے اور بقیہ سندھ نئی حلقہ بندیوں کی فرمائش ڈال دے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایم کیو ایم کے علاوہ جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں بھی اس مطالبے کی وکالت کرتیں اور تحفظات رکھتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ نہ لیتیں۔
سندھ میں پرانے بلدیاتی ڈھانچے کی مدت اگست 2020 میں ختم ہو گئی۔ قاعدے سے 120 دن کے اندر اندر نئے بلدیاتی انتخابات ہو جانے چاہیے تھے مگر ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ انتخابات کروانے کی آئینی مدت کے احترام کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ برسرِ اقتدار جماعت کی جیت کے لیے ماحول سازگار ہے کہ نہیں۔
اکثر اسی بنیاد پر انتخابی شیڈول بھی مرتب ہوتا ہے اور سیاسی جماعتوں کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔
انڈیا کی طرح پاکستان کا الیکشن کمیشن بھی خود کو بااختیاری اور ٹھسے کے ساتھ منوانے کا حوصلہ رکھتا تو کسی سیاسی جماعت کی مجال نہ ہوتی کہ وہ انتخابی شیڈول کو غیر سنجیدگی سے لے مگر انڈیا کا الیکشن کمیشن اگر ان دنوں مودی ہے تو ہمارا الیکشن کمیشن بھی موڈی ہے۔
کبھی بنا مانگے نولکھا بخش دیتا ہے تو کبھی چمچ کی چوری پر نالش جاری کر دیتا ہے۔ کبھی بامروت ڈاک خانے میں بدل جاتا ہے تو کبھی ہڑبڑا کے کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی آئینی و قانونی طاقت کا بھرپور احساس دلا دیتا ہے۔ کبھی گلی کے لونڈوں کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ کے تاش کھیلنے لگتا ہے اور پھر اچانک ان لمڈوں کو بزرگوں کے احترام کا بھاشن دینے لگتا ہے۔
اب یہی دیکھیے کہ الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن سرکار کی سفارش پر ملتوی کروانے پر اعلی عدالت کی ڈانٹ کھائی اور ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کو چوتھی بار ملتوی کروانے کی دھمکی آمیز درخواست کو دھتا بتا دیا۔
اسی گرم و سرد و بلغمی مزاج کے سبب الیکشن کمیشن کے بارے میں نونیوں کا رویہ رسمی علیک سلیک اور کام نکالنے والا ہے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ اس بوڑھے جوڑے جیسا ہے جو نہانے کی نیت سے پانی چولہے پر چڑھاتا ہے مگر پھر ناسازگار امکانات سے مایوس ہونے کے بجائے اسی پانی کی چائے بنا لیتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کا رویہ بدتمیزانہ حد تک بے تکلفانہ ہے۔
شاید اسی سے حوصلہ پا کر ایم کیو ایم کے دھڑوں نے بھی متحد ہو کے سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو للکارا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوئے بغیر کون سندھ کے شہری علاقوں میں الیکشن کرواتا ہے اور اب ایم کیو ایم واقعی ایک طرف کھڑی دیکھ رہی ہے۔
ممکنہ شکست کو بھانپ کے بائیکاٹ کی راہ اختیار کرنا بھی موجودہ حالات میں سیاسی بلوغت کی علامت ہے۔ کیا ضرورت ہے اکیسویں صدی میں اٹھارویں صدی کا ٹیپو سلطان بننے کی۔ ضروری تو نہیں کہ ہر بار شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہو۔
ویسے بھی ہمارے مشفق دوست نصیر ترابی مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب سامنے سے طوفان آ رہا ہو تو سینہ تان کے کھڑا ہونا احمقانہ فعل ہے۔ اسی طوفان کے اوپر اپنے پٹڑے پر کھڑے ہو کے آگے نکل لینا یا طریقے سے سائیڈ پر ہو جانا ہی عقلمندی ہے۔
یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے پنجاب میں مسلم لیگ ق اور سندھ میں ایم کیو ایم کی وہی اہمیت ہے جو امریکہ کے لیے اسرائیل کی ہے۔ امریکہ مشرقِ وسطی کی اتھل پتھل میں اسرائیل کی مدد سے طاقت کا توازن برقرار رکھتا ہے جبکہ یہاں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کے ترازو کو متوازن رکھنے کے لیے دونوں جماعتوں کو حسبِ ضرورت باٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
مگر میرے خیال میں اس انتظام میں ق کو ایم کیو ایم کے مقابلے میں کم ازکم دو نمبر کی سبقت حاصل ہے کیونکہ ق کو یہ آرٹ معلوم ہے کہ دس سیٹیں ہونے کے باوجود بھی سو سے زائد سیٹیں رکھنے والی پارٹیوں کو اپنے سیاسی تحمل کی تھاپ پر کیسے تاتا تھئیا کروایا جا سکتا ہے۔
جبکہ ایم کیو ایم کی قیادت چالیس سالہ تجربے کے باوجود آج بھی طالبِ علمانہ دور کے جذباتی دماغ سے فیصلے کرتی ہے بلکہ درست جملہ شاید یہ ہے کہ آج کی ایم کیو ایم کو بتا دیا جاتا ہے کہ بھائی یہ ہے فیصلہ جسے آپ نے دنیا کے سامنے اپنا فیصلہ بتانا ہے۔
چنانچہ اب نہ کوئی اس کی انتخابی بائیکاٹ کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور نہ ہی حکومت چھوڑنے کے انتباہ کو۔
ویسے بھی جس پارٹی کا دل الطاف حسین کے قبضے میں اور دماغ اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہو، اس کا مقام سیاست میں وہی رہ جاتا ہے جو کار کی ڈگی میں پڑی سٹپنی کا۔