’سب سے زیادہ مال جو آج تک نکلا ہے وہ کوئی پچیس سے تیس کروڑ کی لاگت کا ہے۔ وہ بھی صرف ایک کان میں سے۔ باقی تو اس علاقے سے ہر سال کبھی پچاس کروڑ تو کبھی پچیس کروڑ کا مال نکلتا ہے اور میں نے خود 2006 سے لے کر آج تک اس کان سے ایک کروڑ روپے تک کا مال نکالا ہے۔‘
13000 فٹ کی بلند و بالا اور برف کے نا مکمل غلاف میں لپٹی ایک چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر بیٹھے جب ناصر حسین یہ بات مجھے بتا رہے تھے تو ان کے چہرے پر مہینوں کی تھکن کے آثار ہونے کے باوجود ایک مسکراہٹ تھی۔
ناصر حسین کا تعلق وادی سمائر سے ہے جو گلگت بلتستان کے ضلع نگر میں واقع ہے اور یہ وادی ہنزہ کے بالمقابل دریائے ہنزہ کے دوسری جانب واقع ہے۔
اسی علاقے میں بادلوں سے اونچے پہاڑ صدیوں سے اپنے سینے کے اندر قیمتی پتھر دفن رکھے ہوئے ہیں جو سمائر گاؤں کے رہائشی اپنی روزی روٹی ڈھونڈنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
چھومر بکور انھی پہاڑوں میں موجود قیمتی پتھروں کی ایک کان ہے جو کم از کم 35 سال سے سمائر کے رہاشیوں کے رزق کا وسیلہ بنی ہوئی ہے۔
قیمتی پتھروں کی یہ کان کس طرح دریافت ہوئی، اس سفر کے دوران ہمیں اس بارے میں کئی کہانیاں سننے کو ملیں۔ جس میں سے ایک کہانی وہاں کام کرنے والے کان کن ناصر حسین نے بھی بتائی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ سال 1988 کی بات ہے جب ایک شکاری کا گزر ان پہاڑوں سے ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ نگر کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس علاقے میں کان کنی کر رہے تھے اور پتھر نکال رہے تھے۔ وہ شکاری بھی وہاں سے مال لا کر بیچنا شروع ہوا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اس شکاری کی مالی حالت ایک دم بدل گئی ہے تو اس شکاری کا پیچھا کرتے اس علاقے تک سمائر کے لوگ بھی پہنچ گئے۔ اس طرح سمائر والوں کو چھومر بکور کا پتہ چلا۔‘
ناصر حسین نے ایک اور حیرت انگیز بات جو بتائی وہ یہ ہے کہ ’آج کے برعکس جہاں گہری کان کے اندر جا کر پتھر ڈھونڈھا جا رہا ہے، ایک زمانے میں زمین پر بیلچہ مارنے سے بھی قمیتی پتھر مل جاتا تھا۔‘
سمائر گاؤں سے چھومر بکور کی کان تک کا سفر اس بات پر منحصر ہے کہ کون سفر کر رہا ہے۔
علاقے والے اپنے گاؤں سے دو گھنٹے میں اس کان تک پہنچ جاتے ہیں لیکن جب ہم نے اس راستے پر سفر کیا تو فلمنگ کا سامان ہونے کی وجہ سے ہمیں سات سے آٹھ گھنٹے لگے۔
دوسری بات یہ کہ پہلے کی نسبت جہاں گاؤں والوں کو بھی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے، اب کم وقت لگتا ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ علاقے والوں نے اس راستے پر ایک چھوٹا ٹریک بنا لیا ہے تا کہ سامان لانے اور لے جانے میں آسانی ہو۔
اب آدھے راستے تک تو گاڑیاں بھی جا سکتی ہیں۔ جہاں ایک پارکنگ کا انتظام ہے اور اس سے آگے اگر کسی نے خچر یا گھوڑے پر سفر کرنا ہو تو وہ بھی کر سکتے ہیں۔
13000 فٹ کی بلندی پر مشینری اور اشیائے خوردونوش لے کر جانے کے لیے اب جانوروں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
چھومر بکور میں کون کون سے قیمتی پتھر نکلتے ہیں؟
’پتھروں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، یہ انسان کے اوپر منحصر ہے کہ وہ اس پتھر کو کس طرح دیکھتا ہے اور وہی انسان ہی اس کی قیمت لگاتا ہے۔ میرے ذہن میں اگر کسی پتھر کی قیمت ہزار ہے تو کسی اور کے لیے اس کی حیثیت لاکھوں میں ہوں گی۔‘
ناصر حسین نے جو پچھلے 25 سال سے اس پہاڑی پر کان کن کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں، میرے سوال کے جواب میں یہ بات بتائی جو مجھے بڑی فلسفیانہ بات لگی لیکن ساتھ ہی انھوں نے اپنی بات اس طرح واضح کی:
’میں نے ایک چھوٹا دانا ایک لاکھ روپے کا لیا تھا اور بعد میں وہ پچیس لاکھ کا بکا۔ اس لیے بندہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کسی پتھر کی کیا مالیت ہوں گی لیکن یہاں ملنے والے ہر پتھر اپنے سائز کے حساب سے ہزاروں سے لے کر لاکھوں روپے میں بکتے ہیں۔‘
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ’پریشیئس (قیمتی) اور سیمی پریشیئس سٹون‘ کا فرق بتایا۔
’پتھروں کی سختی سے ان کے پریشیئس اور سیمی پریشیئس ہونے کا اندازہ ہوتا ہے اور ان پتھروں کی سختی سے پتا چلتا ہے کہ وہ کس قسم کا پتھر ہے۔‘
مثال کے طور پر ہیرے کی سختی سکیل پر سب سے زیادہ ہے جو کہ 10 ہے اور 7.5 سکیل سے نیچے سارے سیمی پریشیئس سٹون ہوتے ہیں جبکہ یہاں ملنے والے پتھروں کی سختی 7 سے 8 کے درمیان ہوتی ہے۔‘
چھومر بکور میں پانچ قسم کے پتھر پائے جاتے ہیں۔ ناصر حسین نے مزید سمجھانے کے انداز میں کہا کہ ’ایکوامیرین، کوارٹز، ٹوپاز، فلورائیٹ، اور ایپیٹائٹ ان پہاڑوں میں پائے جاتے ہیں اور چھومر بکور میں پائے جانے والے پتھروں کی سختی 8 یا اس سے نیچے ہے۔‘
سب سے گہری یا پرانی کان
ںاصر حسین جس کان میں کام کرتے ہیں اس کی گہرائی تقریبا 400 سے 500 فٹ ہے اور اس کے اندر جاتے ہوئے ہم کبھی کھڑے ہو کر چلے تو کہیں جھک جھک کر چلنا پڑا۔
ناصر نے اندر جاتے ہوئے اس کان کے بارے میں بتایا۔ ’یہی سب سے پرانی کان ہے اور میں اس میں 2007 سے کام کر رہا ہوں۔ میں نے اسی کان میں سے تقریباً ایک کروڑ کا مال نکالا ہے۔‘
یہاں کے کان کن سال میں تقریبا تین سے چار مہینے کام کرتے ہیں۔ جولائی اور اگست کے دوران کان کن آنا شروع ہوتے ہیں اور کان کی گہرائی کے حساب سے ان کی صفائی کا کام شروع ہوتا ہے۔
ناصر حسین نے بتایا ’ہمیں ایک مہینہ لگتا ہے پتھروں کی کان میں سے پانی نکالتے ہوئے کیونکہ سردیوں میں ہم نہیں ہوتے اور برف باری اور بارشوں کے بعد کان میں پانی آ جاتا ہے اور ہم اکتوبر کے دوسرے تیسرے ہفتے میں اپنا کام ختم کر کے چلے جاتے ہیں۔‘
لیکن جس طرح کا کام ہے اور جس امید سے لوگ کام کرتے ہیں، اگر کان کنوں کو موقع ملے تو وہ شاید سال بھر بھی کام کریں لیکن موسم کی سختی اور حادثات و واقعات کی وجہ سے اب وہاں قائم کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اکتوبر کے دوسرے تیسرے ہفتے میں سب کام ختم کر کے نیچے آ جائیں۔
ناصر نے کام کرنے کے طریقے کو مزید سمجھاتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلے کے پیچھے جو وجوہات ہیں ان میں سے ناصر حسین کی اپنی بھی ایک ذاتی تلخ کہانی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ سال 1993 کی بات ہے۔ یہاں تین چار دن لگاتار برف پڑی۔ برف کے بعد موسم تو ٹھیک ہو گیا تھا لیکن یہاں پہاڑوں پر برف جم گئی تھی۔
جب اکتوبر کے اواخر میں میرے بڑے بھائی اپنے دوست کے ساتھ واپس گاؤں کی طرف آ رہے تھے تو لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وہ ملبے کے نیچے آ گئے تھے۔ اس سال توہم انھیں ڈھونڈ بھی نہیں پائے۔ ان کی لاش اگلے سال ملی جب برف ختم ہوئی۔‘
لاکھوں کی مالیت میں پتھر نکلنے پر صرف گوشت کا خرچہ نکلتا ہے
چھومر بکور کی بلند و بالا پہاڑی پر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہمارے ساتھ کئی دلچست واقعات بھی پیش آئے۔
راستے میں ایک لڑکا نظر آیا جو بڑی پھرتی سے نیچے کی طرف آ رہا تھا۔ وہ کافی خوش بھی لگ رہا تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ ان کی پارٹی کا کروڑوں کے حساب سے مال نکلا ہے۔
پارٹی کیا ہوتی ہے، کتنا مال نکلتا ہے، کون کون سے پتھر نکلتے ہیں، اس وقت میرے ذہن پر اس طرح کے کئی سوالات اٹھ رہے تھے جو سب بعد میں جا کر آہستہ آہستہ واضح ہوا۔
لیکن ایک دلچسپ بات جو اس لڑکے نے بتائی وہ یہ تھی کہ اگر ہمیں لاکھوں کی مالیت میں بھی پتھر ملے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارا گوشت کا خرچہ نکل آیا کیونکہ اس بلندی پر ہر پارٹی کا تین سے چار مہینے میں خرچہ ہی لاکھوں میں ہوتا ہے۔
قیمتی پتھروں کی کان میں شراکت داری
چھومر بکور میں تقریباً 100 سے 120 پارٹیاں کام کرتی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اتنے ہی پتھروں کی کانیں ہیں یا اس سے زیادہ کیونکہ ایسی کانیں بھی ہوتی ہیں جس میں کام شروع ہوتا تو ہے لیکن اس میں مال نہ ملنے کی وجہ سے اس کان میں کام روک دیا جاتا ہے۔
حامد حسین جنھوں نے حال ہی میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک نئی کان میں کام شروع کیا ہے، اس کان میں دھماکہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں ’کان کے اندر ہم دن میں تین سے چار دھماکے کرتے ہیں۔ دھماکے کے بعد ہم دھواں ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ملبہ نکال کر جائزہ لیتے ہیں کہ کوئی آثار نظر آئے اور اگر کوئی آثار نظر نہ آئے تو اگلے دھماکے کی تیاری کرتے ہیں۔‘
کان کے اندر ڈرل مشین کے ذریعے سوراخ کرنے کے بعد ان سوراخوں میں بارود بھر کر اس کو کنیکشن دیا جاتا ہے اور پھر ان کو بلاسٹ کیا جاتا ہے۔
حامد نے جب اس کنیکشن کو آگ کی چنگاری دی تو ہمیں بھاگ کر کان سے باہر آنا پڑا۔ جس کے کچھ لمحوں کے بعد ہی کئی دھماکے ہوئے اور ہمیں کان کے اندر سے دھواں اٹھتا نظر آیا۔
حامد اور ان کے دوست اب دھواں ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے وہاں کے طور طریقوں کے بارے میں مزید معلومات دیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہاں 100 سے 120 پارٹیاں کام کرتی ہیں۔ جن کے اپنے اپنے چھوٹے کمرے، یا ڈیرہ کہہ لیں، بنا ہوا ہے۔ ہر گروپ میں 7 بندے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک باورچی ہوتا ہے۔ جس کا کام ہمارے کھانے پینے کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ باقی 6 بندے کان کے اندر کام کرتے ہیں جس میں سے 2 کا کام بلاسٹنگ کرنا ہوتا ہے اور باقی بعد میں ملبہ نکالتے ہیں اور یہی ذمہ داری ہم آپس میں بدل رہے ہوتے ہیں۔‘
لیکن ایک کان میں سات شراکت دار نہیں ہوتے بلکہ چھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جو ان کی مالی معاونت کر رہے ہوتے ہیں۔
’ہمیں دو بندے بارود مہیا کرتے ہیں، دو بندے مشین میں ہماری مدد کر رہے ہوتے ہیں، جس میں جنریٹر اور اس کا خرچہ وغیرہ شامل ہیں، ایک بندہ راشن دیتا ہے اور ایک بندے کا کام ہمیں وہ تمام چیزیں یہاں سپلائی کرنا ہوتا ہے۔ کل ملا کر ایک کان میں 13 بندے شریک ہوتے ہیں۔‘
لیکن یہاں کے لوگ ایک اور دلچسپ کام جو کرتے ہیں وہ یہ کہ سال کے آخر میں جو جو لوگ ناکام ہوتے ہیں، انھیں بھی کسی نہ کسی مد میں امداد مل رہی ہوتی ہیں۔
ناصر حسین نے اس بات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ’جن کان میں سے زیادہ مال نکلتا ہے وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ کون کون سی پارٹیاں اب تک ناکام رہی ہیں۔ پھر وہ اپنی استطاعت کے حساب سے لوگوں میں ہی چھوٹے بڑے پتھر بانٹ رہے ہوتے ہیں تاکہ زیادہ نہیں تو ان کا چھوٹا موٹا خرچہ ہی نکل آئے۔‘
’اور ساتھ ہی ساتھ سب کامیاب ہونے والی پارٹیاں گاؤں میں ہماری کمیٹی کو غریب لوگوں کے لیے انھی پیسوں سے امداد دیتی ہیں تاکہ سب کی مدد ہو سکیں۔ اس کے بعد وہ کمیٹی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وہ پیسے حقدار تک پہنچ سکیں۔‘
چھومر بکور کی پہاڑی پر دن بھر مشینوں، دھماکوں اور آس پاس اڑتے پرندوں کی ہر آواز کے ساتھ مزدوروں کی آپس میں خرید و فروخت بھی عام ہے۔
فارغ اوقات میں یہ کان کن یا تو ایک دوسرے سے چھوٹے موٹے پتھروں کی خرید و فروخت کر رہے ہوتے ہیں یا پھر پہاڑ کے مختلف کونوں میں جا کر موبائل سگنلز ڈھونڈ کر گھر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چھومر بکور میں کان کنی والے لوگوں کا تعلق سمائر گاؤں سے ہے اور اس پہاڑ پر صرف سمائر والے ہی کان کنی کر سکتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ سال کے آخر میں جب سارا مال نیچے سمائر میں لایا جاتا ہے تو اس کے لیے بھی ایک نظام بنا ہوا ہے۔
مال نکلنے، اس کی پیکنگ اور اس کو سیل کرنے کے بعد اسے سمائر میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں شیئر ہولڈرز ہوتے ہیں۔ پھر سال کے آخر میں جب سارے کان کن نیچے آ جاتے ہیں تو سب پتھروں کی اوپن بولی ہوتی ہیں۔ جو زیادہ بولی لگائے وہ مال لے جاتا ہے۔
لیکن اس میں بھی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی بولی میں صرف سمائر سے تعلق رکھنے والے ہی بولی لگاتے ہیں اور پہلے خریدار بنتے ہیں۔
پھر اس کے بعد یہی مال ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ہاتھ فروخت ہوتے ہوئے گھروں یا میوزیم کی زینت بنتا ہے یا پھر بیرون ملک قیمتی پتھروں کے فیسٹیولز میں نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن پاکستان میں ان پتھروں کا سفر اس علاقے سے نکلنے کے بعد اکثر پشاور میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔
شاہد خان اور ان کے بھائی گذشتہ دو دہائیوں سے سمائر آ کر دوسری بولی میں شریک ہوتے ہیں اور پھر ان پتھروں کو پشاور لا کر یہاں سے آن لائن یا پھر اپنے پرانے گاہکوں کو بیچتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خریدار یورپ، امریکہ اور چین میں ہوتے ہیں اور یہ پتھر زیادہ تر شو پیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
’انھیں ہم میوزیم پیسز بھی کہتے ہیں۔ جیولری میں تو استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
شاہد خان اور ان کے بھائی نے سالہا سال جمع کیے گئے پتھروں کے نمونوں میں سے کچھ نموتے دکھاتے ہوئے ہماری معلومات میں مزید اضافہ کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ چھومر بکور میں زیادہ تر ایکوا میرین کے پتھر ہی نکلتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فلورائیٹ اور اپیٹیٹائٹ بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
ان پتھروں کی مالیت اس وقت بڑھ جاتی ہیں جب یہ تینوں پتھر ایک ہی پیس میں لگے ملیں۔ پھر ان کی مالیت لاکھوں یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔
چھومر بکور میں ہفتہ گزارنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ یہ کان کن کس طرح زندگی گزارنے کی جستجو میں ہر دن اپنی زندگی کے ساتھ ایک ایسا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں جس میں موت کا خوف بھی ہوتا ہے۔
ہر دن چھومر بکور میں صبح ہوتے ہی ان گنت دھماکوں کی آواز آتی ہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے لیکن یہاں ہر دھماکے کے پیچھے ایک امید ہوتی ہے اور اسی امید پر ان کان کنوں کی دنیا کئی دہائیوں سے قائم ہے۔