افغانستان کی پولیس نے کہا ہے کہ ایک سابق رکن پارلیمنٹ مرسل نبی زادہ اور ان کے محافظ کو دارالحکومت کابل میں ان کے گھر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
اتوار کو ہونے والے اس حملے میں ان کے بھائی اور ایک دوسرا سکیورٹی گارڈ زخمی بھی ہو گئے ہیں۔
32 سالہ مرسل نبی زادہ ان چند خواتین ممبر پارلیمنٹ میں سے ایک تھیں جو اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے کابل میں ہی رہی تھیں۔
مرسل نبی زادہ کے قریبی ساتھیوں نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئےانھیں ’افغانستان کے لیے لڑنے والی نڈر چیمپیئن‘ قرار دیا جنھوں نے ملک چھوڑنے کے موقع کو ٹھکرا کر کابل میں رہتے ہوئے ہی حالات کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دی۔
کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے مرسل نبی زادہ کے قتل کی تفتیش کے حوالے سے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے واقعے کی سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات شروع کردی ہیں۔
افغانستان میں سابق قانون ساز مریم سلیمان خیل نے کہا کہ مرسل نبی زادہ ’خطرات کا بے خوفی سے سامنا کرنے والی، مضبوط اور باہمت خاتون تھیں جو خدشات کے باوجود ہمیشہ حق اور سچ کے لیے اپنے مؤقف پرڈٹی رہیں۔‘
A true trailblazer – a strong, outspoken woman who stood for what she believed in, even in the face of danger. Despite being offered the chance to leave Afghanistan, she chose to stay and fight for her people. We have lost a diamond, but her legacy will live on. Rest in peace. https://t.co/g0HjMPicl5
— Mariam Solaimankhil (@Mariamistan) January 15, 2023
انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’افغانستان چھوڑنے کا موقع ملنے کے باوجود، انھوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ رہنے اور ان کے (حقوق کے) لیے لڑنے کا انتخاب کیا۔‘
افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار سے تعلق رکھنے والی مرسل نبی زادہ سنہ 2018 میں کابل سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں تھیں اور طالبان کے اقتدار پر قبضے تک اسی عہدے پر رہیں۔
وہ پارلیمانی دفاعی کمیشن کی رکن تھیں اور انسانی وسائل کے فروغ اور تحقیق کے ادارے میں کام کرتی تھیں۔
یورپی پارلیمنٹ کی رکن حنا نیومن نے ان کے قتل سے متعلق کہا کہ ’میں اداس اور ناراض ہوں اور چاہتی ہوں کہ دنیا جان لے کہ انھیں تو اندھیرے میں مارا گیا لیکن طالبان دن کی روشنی میں صنفی امتیاز کا اپنا نظام بنا رہے ہیں۔‘
افغانستان کی سابقہ مغربی حمایت یافتہ حکومت کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار عبداللہ عبداللہ نے مرسل نبی زادہ کو ’عوام کی نمائندہ اور خادم‘ کے طور پر بیان کیا اور کہا کہ وہ افسردہ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مجرموں کو واقعی سزا دی جائے گی۔
خیال رہے کہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے وہاں خواتین کو عوامی خدمات کے تقریباً تمام شعبوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
افغانستان میں نمایاں پیشہ ورانہ ملازمتوں میں آنے والی بہت سی خواتین طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔