یہ سات جون 1962 کی بات ہے، پاکستان کے پانچ نوجوان سائنسدانوں کا ایک گروہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ بلوچستان کے ساحلی علاقے سونمیانی میں جمع ہے۔
مئی 1998 میں بلوچستان میں کیے گئے نیوکلیئر دھماکوں سے 36 سال قبل اُس دن بلوچستان کی سرزمین پر ایک اور سائنسی تجربہ ہونا تھا۔
یہ تمام سائنسدان پاکستان کے پہلے راکٹ کو خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
سورج غروب ہو چکا ہے اور رات کے آٹھ بجنے میں ابھی سات منٹ باقی ہیں۔
پھر کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوتا ہے۔
تھری، ٹو، ون۔۔۔
اور پاکستان کا پہلا راکٹ ’رہبر ون‘ کامیابی سے بالائی فضا میں لانچ ہو کر اپنے بعد آنے والے مزید راکٹس کے لیے ایک رہبر بن جاتا ہے۔
صرف یہی نہیں، اس لانچ کے ساتھ ہی پاکستان مسلم دنیا سمیت جنوبی ایشیا کی وہ پہلی قوت بنا جس نے کامیابی سے خلائی تجربہ سرانجام دیا۔
اب اس واقعے کو 59 سال ہو چکے ہیں مگر اس پراجیکٹ کے ٹیم لیڈر ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کو آج بھی وہ دن اُسی طرح یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔
یہ پراجیکٹ کیسے شروع ہوا، پاکستان یہ مقصد کیسے حاصل کر پایا اور ٹیم کو اس دوران کیا کیا چیلنجز درپیش رہے، یہ میرے وہ سوال تھے جن کی وجہ سے میں چھ دہائیوں بعد اس ٹیم کے ارکان کی تلاش میں نکلا۔
ڈاکٹر طارق جب مسکراتے ہوئے اپنے بذلہ سنج اور باوقار انداز میں گفتگو کرتے ہوئے اس دور کے بارے میں بتا رہے تھے تو خلائی سائنس کے دلدادہ اس صحافی نے خود کو یکایک اُسی دور میں پایا۔
آئیے، آپ بھی میرے ساتھ اس سفر پر چلیے۔
دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہو چکا ہے۔ جنگ کا میدان اب زمین کے بجائے خلا کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ جنگ کی نوعیت بھی اب ایک دوسرے کو ہتھیاروں کے ذریعے نقصان پہنچانے کے بجائے معاشی اور سائنسی میدان میں پیچھے چھوڑ دینے میں بدل چکی ہے۔
روس اور امریکہ ایک دوسرے کو خلائی دوڑ میں نیچا دکھانے کے درپے ہیں۔ امریکہ حیران ہے کہ روس نے خلا میں پہلا انسان پہنچانے میں سبقت کیسے حاصل کر لی؟
یکایک امریکی صدر جان ایف کینیڈی اعلان کرتے ہیں کہ امریکہ (ساٹھ کی) دہائی کے اختتام سے قبل نہ صرف انسان کو چاند پر اتارے گا بلکہ بحفاظت واپس بھی لائے گا۔
اپالو خلائی پروگرام کے منتظم امریکی خلائی ادارے ناسا کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج تھا اور اس کے لیے کئی ایسے اعداد و شمار اور سائنسی ڈیٹا کی ضرورت تھی جو اس وقت اُس کے پاس موجود نہیں تھے۔
اسے بحرِ ہند کے اوپر موجود فضا کی صورتحال کو جاننے کی بھی ضرورت تھی اور جب اُس نے یہ کرنے کی ٹھانی، تو پاکستان کا ستارہ چمک اٹھا۔
سنہ 1961 میں جب پاکستان کے اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان امریکہ کے دورے پر تھے تو اُن کے سائنسی مشیرِ اعلیٰ، نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام بھی اُن کے ہمراہ تھے۔
ڈاکٹر طارق مصطفیٰ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ اُس وقت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ تھے اور ٹریننگ کی غرض سے امریکہ میں مقیم تھے۔
وہ اسی دوران صدر ایوب اور ڈاکٹر عبدالسلام کے امریکہ کے دورے کو اچھا اتفاق قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان فی الفور خلائی دوڑ میں شامل ہو گیا۔
بی بی سی سے انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کہ امریکہ میں قیام کے دوران ایک دن اُنھیں ڈاکٹر عبدالسلام کا فون آیا۔
’طارق، صبح واشنگٹن میں ایک اہم میٹنگ ہے اور تم نے پہنچنا ہے۔ مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ لفٹ لے کر آؤ یا جہاز میں آؤ، بس تم نے پہنچنا ہے۔ ‘
اگلے دن وہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ واشنگٹن میں ناسا کے دفتر پہنچے۔
وہاں حکام نے اس پاکستانی وفد کے سامنے بحرِ ہند کے اوپر موجود فضا کے متعلق ڈیٹا نہ ہونے کی مشکل رکھی۔
ناسا نے پیشکش کی کہ وہ بحرِ ہند کے آس پاس کے ممالک کو راکٹ ٹیکنالوجی فراہم کرنے کو تیار ہیں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس راکٹ سے جو بھی ڈیٹا حاصل ہو گا، اس کا تبادلہ ناسا کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔
یہ سُن کر ڈاکٹر عبدالسلام ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کی جانب مڑے اور پنجابی میں کہا، ’طارق، تیرا کی خیال اے؟‘
اُنھوں نے فوراً پنجابی میں جواب دیا: ’ایہہ تے ساڈا خواب پورا ہو جائے گا۔‘
پنجابی میں ہونے والی اس گفتگو کو ناسا کے عہدیدار سمجھ تو نہ سکے لیکن اُنھوں نے مزاج سے اندازہ لگاتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام سے کہا کہ ’ینگ مین لُکس ویری کین‘ (نوجوان بہت پُرجوش معلوم ہو رہا ہے۔)
ناسا کے حکام نے اسی دن ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کو اپنے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے ملک کے دوسرے کونے میں بحرِ اوقیانوس کے کنارے واقع والپس آئی لینڈ راکٹ رینج بھیج دیا، جہاں اُنھیں تمام آلات اور سامان کے متعلق بریفنگ دی گئی۔
پوری رات وہ اپنی رپورٹ مرتب کرتے رہے اور اگلے دن وہ دوبارہ واشنگٹن میں ناسا کے دفتر میں دوبارہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ اپنی رپورٹ کے ساتھ پہنچے۔
اسی دن ناسا نے پاکستان سے کہا کہ اگر آپ ہامی بھریں، تو ہم یہ پروگرام شروع کر سکتے ہیں۔
اور اُس کے صرف نو ماہ بعد ہی سونمیانی میں نہ صرف راکٹ رینج بھی بنا لی گئی بلکہ رہبر سیریز کے اولین راکٹ لانچ بھی کر دیے گئے۔
انڈیا نے یہ کارنامہ اس کے 15 ماہ بعد نومبر 1963 میں انجام دیا۔
ٹیم کی ترتیب اور راکٹ رینج کا قیام
ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ ٹیم اکٹھی کریں۔ اُن کے ساتھ ڈاکٹر سلیم محمود (جو بعد میں سپارکو کے چیئرمین رہے) بھی ٹریننگ پر امریکہ میں موجود تھے۔
تین مزید سائنسدانوں احمد ضمیر فاروقی (پاکستان ایئر فورس)، محمد رحمت اللہ (محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر) اور سکندر زمان (بعد میں چیئرمین سپارکو بنے) کو بھی امریکہ بلوا لیا گیا اور یہ مختصر سی ٹیم اپنے کام میں جُت گئی۔
سب سے پہلا مرحلہ پاکستان میں راکٹ رینج کے قیام کا تھا جو اس وقت تک یہاں پر موجود نہیں تھی۔
اس کام کے لیے صدر ایوب خان نے تجویز دی کہ سونمیانی میں واقع فوج کی آرٹلری رینج کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں پر افرادی قوت کے رہنے کا انتظام اور دیگر سہولیات پہلے سے موجود تھیں۔
اس تجویز کو قبول کیا گیا اور فوراً اس آرٹلری رینج کو پاکستان کی پہلی راکٹ رینج میں بدلنے کا کام شروع کر دیا گیا۔
سائنسدانوں کو اس کام کے لیے امریکہ میں تیاری کروائی گئی اور ناسا کی جانب سے ہی ساز و سامان مہیا کیا گیا۔
چھ مہینوں کے اندر ناسا کے ڈپوز میں موجود امریکی فوج کے فاضل سامان میں سے راکٹ چلانے کے لیے ضروری سامان تلاش کیا گیا اور اسے امریکہ کی والپس آئی لینڈ راکٹ رینج میں اکٹھا کیا گیا۔
پھر پاکستانی سفارتخانے کے مالیاتی مشیر وزیر علی شیخ کی ذمہ داری لگائی گئی کہ یہ سامان پاکستان پہنچایا جانا ہے۔
سامان میں موجود حساس آلات ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کی ایک گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر گاڑی پاکستان بھیج دی گئی۔
تمام سامان مارچ 1962 تک پاکستان پہنچ گیا اور تب تک راکٹ لانچ کی ذمہ دار ٹیم نے فوج کے انجینیئرنگ شعبے کی مدد سے مل کر آرٹلری رینج کو راکٹ لانچ کے لیے موزوں شکل دے دی تھی۔
تجربہ کیا تھا؟
تجربہ یہ کرنا تھا کہ راکٹ کے ذریعے فضا میں 50 سے 100 میل کی بلندی پر سوڈیم کے بخارات چھوڑے جائیں جنھیں سورج کے غروب ہونے کے بعد افق کے نیچے سے آنے والی سورج کی روشنی سے منعکس ہونا تھا اور اس کے بعد بھولاڑی، لسبیلہ، حب اور کراچی ایئرپورٹ کے مقام پر کیمرے نصب کیے گئے جنھوں نے بیک وقت، بغیر ایک سیکنڈ کے وقفے کے، اُن بخارات کی تصاویر لینی تھیں۔
اس مقصد کے لیے پاکستانی فضائیہ کے طیاروں میں استعمال ہونے والے جاسوس کیمروں کو زمین پر نصب کر دیا گیا اور ان کو آپس میں منسلک کر کے بیک وقت تصاویر لینا ممکن ہو پایا۔ فضائیہ سے احمد ضمیر فاروقی کو شامل کرنے کے پیچھے یہی مقصد تھا۔
ان بخارات کی تصاویر کا بغیر کمپیوٹر کی مدد کے طویل حسابات کے ذریعے تجزیہ کیا جانا تھا جس سے بالائی فضا کے درجہ حرارت اور وہاں پر ہواؤں کا رخ معلوم ہو جاتا، جس کی ناسا کو اپالو پروگرام کے لیے ضرورت تھی۔
اس ٹیم کے رکن اور بعد میں پاکستان کے سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم محمود بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دن ٹیم میں بے چینی، جوش، جذبے اور خوشی کے جذبات کا ایک امتزاج موجود تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ رہبر ون راکٹ تین مرحلوں پر مشتمل راکٹ تھا اور ہر مرحلے کی کامیاب تکمیل کے بعد ٹیم کو خوشی بھی ہوتی اور اضطراب بھی کہ اگلا مرحلہ کیسا رہے گا، مگر یہ تجربہ کامیاب رہا۔
اُس رات یہ تمام سائنسدان خوشی کے باعث سو پائے یا نہیں؟ اس سوال پر ڈاکٹر سلیم محمود ہنس دیے۔
’اس رات بھی ہم لوگ جلدی سو گئے تھے کیونکہ اس راکٹ لانچ کے بعد ہمیں اگلا راکٹ چار دن بعد 11 تاریخ کو ہی لانچ کرنا تھا۔‘
رینج کے مشکل حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک مشکل مقام تھا اور ہر وقت گرمی کے ساتھ ساتھ سانپوں اور بچھوؤں کے خطرے کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ایک دن تو وہ کنٹرول روم میں داخل ہوئے تو سامنے میز پر ایک سانپ پہلے ہی اپنی جگہ لیے ہوئے تھا۔ چارو نا چار ٹیم وہاں سے الٹے پاؤں واپس ہوئی اور پھر لوگوں کو بلا کر سانپ کو وہاں سے نکلوایا گیا۔
لیکن ان حالات کے باوجود کام جاری رہا اور تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
ناسا کی اپنی ضرورت پوری ہوئی اور پاکستان نے ناسا کی اس پیشکش کا فائدہ اٹھا کر خود کو خلائی دوڑ میں ایشیا کا سرِفہرست ملک ثابت کر دیا۔
اس حوالے سے امریکی خلائی ادارے ناسا نے بی بی سی اردو کو خصوصی طور پر اپنے آرکائیوز میں سے سات جون 1962 کی وہ پریس ریلیز فراہم کی جس میں اس کامیاب راکٹ تجربے کا تذکرہ ہے۔
اس پریس ریلیز میں تفصیلی طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ تجربہ ناسا اور سپارکو کے درمیان باہمی مفاد کی خلائی تحقیق کے پروگرام کے تحت کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اس پریس ریلیز میں والپس آئیلینڈ اور ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر میں پانچوں پاکستانی سائنسدانوں کی تربیت کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
اپنے ہی ملک میں راکٹوں کی تیاری
رہبر راکٹ لانچ کے لیے مدد اور سامان امریکہ نے فراہم کیا مگر اس کے بعد پاکستانی سائنسدانوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ ملک میں خود ہی راکٹس تیار کیے جائیں؟
اس معاملے کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق مصطفیٰ بتاتے ہیں کہ امریکہ مفت راکٹس فراہم کرنے کے لیے تیار تھا مگر پاکستان اپنے راکٹس بنانا چاہتا تھا۔
چنانچہ جاپان اور فرانس کے سروے کیے گئے اور بالآخر فرانس کی ٹیکنالوجی زیادہ موزوں قرار پائی۔
فرانس سے ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے پاکستانی سائنسدانوں کو فرینچ زبان سکھائی گئی اور خصوصی طور پر کراچی اور فرانس میں کورسز کروائے گئے تاکہ وہ فرانسیسی انجینیئرز سے گفتگو کر کے ٹیکنالوجی سمجھ سکیں۔
اس کے بعد کراچی میں ماڑی پور کے مقام پر راکٹس کی تیاری کا پلانٹ لگایا گیا، جہاں سے تیار ہونے والے راکٹس سے 1969 میں پاکستان نے تجربے شروع کیے، جنھیں شہپر سیریز کہا گیا۔
پھر کیا ہوا؟
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر آنے والے برسوں میں پاکستان اس خلائی دوڑ میں اتنا پیچھے کیوں رہ گیا؟
پاکستان نے حالیہ برسوں میں چین کی مدد سے کئی سیٹلائٹس لانچ کی ہیں۔ تو ایک ایسا ملک جو خود اپنا راکٹ لانچ کر رہا تھا، اب سیٹلائٹس لانچ کرنے کے لیے چین پر منحصر کیوں ہے جبکہ پڑوسی ملک انڈیا چاند اور مریخ تک اپنے خلائی مشنز بھیج رہا ہے؟
اس کے جواب میں ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کا مؤقف یہ ہے کہ سپارکو کو اتنے وسائل نہیں دیے گئے اور پاکستان کی توجہ مختلف وجوہات کی بنا پر دفاعی جانب زیادہ رہی۔
خود ڈاکٹر طارق مصطفیٰ بھی سیکریٹری دفاعی پیداوار ڈویژن رہ چکے ہیں اور 1994 میں حکومتِ پاکستان سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
اُنھیں اور ڈاکٹر سلیم محمود کو سنہ 71 کی جنگ میں ریڈار ٹیکنالوجی کی مدد سے انڈین بحری جہازوں کو دھوکہ دے کر پاکستانی بحری جہازوں کو محفوظ رکھنے پر بحریہ کے اعزازی کمانڈر کا اعزاز دیا جا چکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اس خلائی دوڑ میں ایسے ہی موقعے کا فائدہ اٹھا کر شامل ہو گیا تھا لیکن ملک کے پاس اس حوالے سے ویژن نہیں تھا کہ پاکستان نے بالائی فضا کے بعد باقاعدہ خلا میں بھی قدم رکھنے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کے پاس اس حوالے سے کہیں زیادہ مالی وسائل اور سائنسی دماغ اور سہولیات موجود تھیں جس کی بنا پر وہ آج اس جگہ تک جا پہنچے ہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹر سلیم محمود کے نزدیک اس حوالے سے انڈیا اور پاکستان کا موازنہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
اُن کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کی اپنی قومی ترجیحات ہیں اور پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اب راکٹ لانچنگ ٹیکنالوجی تیار کرنے پر فنڈز خرچ کرے۔
ڈاکٹر سلیم محمود کہتے ہیں کہ جو وسائل دستیاب ہیں، اُن کے ذریعے سپارکو نے موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی، ماحولیاتی آلودگی، قدرتی وسائل اور آبی ذخائر وغیرہ کی مانیٹرنگ جیسے اہم مسائل پر زیادہ توجہ دی اور اس کے لیے سپارکو کی ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا گیا۔
دسمبر 1979 میں وہ سپارکو (جو اس وقت ایک کمیٹی تھا) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تھے اور اس کو دستیاب فنڈز ناکافی ہونے کے باعث وہ سپارکو چھوڑ گئے تھے۔
پھر اُن کے مطابق جنرل ضیا الحق نے اُنھیں اگلے ہی سال دوبارہ سپارکو آنے کے لیے کہا۔
ڈاکٹر سلیم محمود کے مطابق اس موقع پر اُنھوں نے جنرل ضیا کے سامنے تجاویز رکھیں جن میں فنڈز، اختیارات اور سپارکو کی حیثیت بڑھا کر اسے کمیشن کا درجہ دینا تھا، جن کی ضیا الحق نے مکمل طور پر منظوری دی۔
وہ 15 دسمبر 1980 کو سپارکو کے چیف ایگزیکٹیو افسر کے طور پر واپس آئے اور اپریل 1981 میں جب اسے کمیشن کا درجہ دیا گیا، تو اس کے پہلے چیئرمین کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
بطور سابق سپارکو چیئرمین وہ بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق خود ذاتی طور پر خلائی تحقیق میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس دور میں سپارکو کو فنڈز اور اختیارات کی کوئی کمی نہیں رہی۔
تاہم اُن کے مطابق آئندہ سالوں میں وہ معاملہ برقرار نہیں رہا۔
’ملک کا پہلا خلائی پراجیکٹ کافی پرعزم اور پرجوش تھا جسے آگے چلائے رکھنے کے لیے مسلسل کام کی ضرورت تھی جو آئندہ سالوں میں اس رفتار سے نہیں ہو سکا، لیکن کام کی بنیاد کو ضائع نہیں ہونے دیا گیا۔
یہ سوالات بی بی سی نے ای میل کے ذریعے سپارکو کی موجودہ انتظامیہ کے سامنے بھی رکھے ہیں تاہم تاحال کوئی مؤقف موصول نہیں ہوا ہے۔
عثمانی سلام ’برادران‘
ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق مصطفیٰ بتاتے ہیں کہ وہ خود تھیوریٹکیل سائنسدان تھے، انجینیئر نہیں، اس لیے اس پورے پروگرام میں اُن کا کردار اعلیٰ سطحی نوعیت کا تھا جس میں بین الاقوامی سطح پر رابطہ کاری شامل ہے کیونکہ وہ بین الاقوامی سطح پر مشہور شخصیت تھے۔
بعد میں ڈاکٹر عبدالسلام کو سپارکو کا اعزازی چیئرمین بھی بنایا گیا۔
اس دور میں ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین تھے۔
ڈاکٹر طارق بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عشرت عثمانی کے درمیان سائنسی ترقی کے لیے ہم آہنگی اتنی زبردست تھی کہ اُنھیں لوگ ’عثمانی سلام برادران‘ کہا کرتے تھے۔
اس راکٹ مشن میں ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی کے کردار پر پاکستان میں کم ہی بات ہوتی ہے۔
ڈاکٹر طارق بتاتے ہیں کہ انتظامی طور پر اس پورے پروگرام میں ڈاکٹر عشرت عثمانی نے اہم کردار ادا کیا اور وہ کہتے تھے کہ ’تم لوگ آئیڈیاز لے کر آؤ، بیوروکریسی کو بوتل میں لانا (فنڈز نکلوانا) میرا کام ہے۔‘
وہ ایک دلچسپ واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر عثمانی کو کراچی میں ڈرگ روڈ پر نیا دفتر دیا گیا تو یہ تجویز دی گئی کہ دفتر کا پارکنگ لاٹ پیچھے کی جانب بنایا جائے۔
مگر ڈاکٹر عثمانی کا کہنا تھا کہ پارکنگ لاٹ سڑک کی جانب ہونا چاہیے تاکہ ہر آتے جاتے شخص کو چمکتی ہوئی گاڑیاں نظر آئیں، لوگوں کے ذہنوں میں اٹامک انرجی کے شعبے کا ماڈرن تشخص پیدا ہو اور کوئی اسے غیر اہم شعبہ نہ سمجھے۔
اُن کے مطابق ڈاکٹر عثمانی کی منطق یہ ہوا کرتی تھی کہ چونکہ پاکستان میں لوگ دکھاوے سے کافی متاثر ہوتے ہیں اس لیے سائنسی کام کے ساتھ ساتھ اس کی چمک دمک بھی ہونی چاہیے تاکہ کام میں مالی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
’آپ لوگ انسان تھے یا جن؟‘
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس پروگرام میں امریکی مدد شامل تھی، لیکن یہ پورا کام پاکستانی سائنسدانوں نے ریکارڈ مدت میں انجام دیا۔ ٹیمیں بنائی گئیں، سائنسی دماغوں کو ایک ساتھ اکٹھا کیا گیا اور ہر کسی سے اس کے شعبے اور مہارت کے مطابق مدد لی گئی۔
پاکستانی سائنسدانوں نے دن رات بلوچستان کی چلچلاتی گرمی میں کام کیا کیونکہ ہر کسی کے سر پر بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ پاکستانی راکٹ تجربے کو کامیاب بنانا ہے۔
ڈاکٹر طارق ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ سونمیانی کی آرٹلری رینج کے انچارج میجر بادشاہ نے تجربے کی کامیابی کے بعد اُن سے کہا کہ ’یار آپ لوگوں نے جو وہاں کام کیا ہے، ہم تو اس پر بڑے حیران ہوئے۔‘
’ایک دن تو ہمیں اطلاع ملی کہ اٹامک انرجی والے لڑکے وہاں آ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں، اور چند مہینوں بعد ہمیں پتا چلا کہ وہاں سے راکٹ چھوڑے جا رہے ہیں۔ تو یہ آپ لوگ بتائیں کہ آپ لوگ انسان تھے یا جن؟‘