Site icon DUNYA PAKISTAN

’تھرمل امیجنگ‘ ٹیکنالوجی کیا ہے اور اس نے خیبرپختونخوا میں شدت پسند کارروائیوں میں کیا کردار ادا کیا؟

Share

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں روز بروز اضافے کے پیشِ نظر اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی پولیس کی صلاحیت بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

گذشتہ کارروائیوں کے دوران ٹی ٹی پی کی جانب سے افغانستان سے لائے گئے جدید اسلحے، جن میں مخصوص تھرمل سائٹس شامل ہیں، کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔

یہ تھرمل سائٹس عام طور پر پیچیدہ فوجی کارروائیوں میں استعمال ہوتی ہیں تاہم ٹی ٹی پی کے پاس یہ تھرمل سائٹس دراصل نیٹو افواج کے انخلا کے بعد آئی ہیں۔

اس کے پیشِ نظر اب صوبے کے کچھ اضلاع میں پولیس کو بھی تھرمل سائٹس فراہم کر دی گئی ہیں۔

ابتدائی طور پر یہ ٹیکنالوجی صوبے کے ان اضلاع میں پولیس کو فراہم کی گئی ہے جہاں حالیہ دنوں میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی سے شدت پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کی جا سکیں گی۔

پولیس ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر یہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس اسلحہ بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں پولیس کو فراہم کیا گیا ہے۔

سال 2002 کے بعد سے پاکستان میں شدت پسندوں کی جانب سے جن ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے ان میں ریموٹ کنٹرول دھماکے، آئی ای ڈیز، خود کش جیکٹس، کلاشنکوف سے فائرنگ اور بعض علاقوں میں راکٹس کا استعمال شامل ہے تاہم اس مرتبہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے جانے کے بعد شدت پسندوں کی جانب سے جو حملے شروع ہوئے ہیں ان میں یہ جدید اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ دنیا بھر میں یہ ٹیکنالوجی کافی عرصے سے استعمال کی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں یہ ایک طرح سے نئی ٹیکنالوجی سمجھی جا رہی ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے۔

،تصویر کا کیپشنافغانستان میں بگرام بیس کے باہر ایک شخص امریکی اور نیٹو افواج کی جانب سے چھوڑی گئی چیزیں فروخت کر رہا ہے

تھرمل امیجنگ کا استعمال

پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ پہلی مرتبہ خیبر پختونخوا کے کچھ اضلاع میں پولیس کو ہتھیاروں کے لیے تھرمل امیجنگ یا تھرمل سائٹ اور سنائپر گنز فراہم کر دی گئی ہیں۔

خیبر پختونخوا کے انسپیکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے چند روز پہلے پشاور پریس کلب میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’یہ باعث تشویش ہے کہ گذشتہ چند کارروائیوں میں شدت پسندوں کی جانب سے تھرمل سائٹس جیسے ہتھیار استعمال ہونے کے شواہد ملے ہیں۔

’یہ شواہد ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، لکی مروت، ٹانک اور مردان میں ملے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق یہ جدید اسلحہ وہ ہے جو نیٹو افواج افغانستان میں چھوڑ کر گئے ہیں اور یہ اسلحہ پھر شدت پسندوں کے ہاتھ لگا۔

انھوں نے بتایا کہ پولیس کو یہ جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے بارے میں گذشتہ دنوں کور کمانڈر اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے ایک میٹنگ میں فیصلہ کیا۔

اس بارے میں پولیس حکام سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے تصدیق کی کہ یہ ٹیکنالوجی مختلف اضلاع کو فراہم کر دی گئی ہے تاہم اس متعلق تفصیلات حکام نے تاحال نہیں بتائیں۔

افغانستان میں یہ ٹیکنالوجی گذشتہ چند سال سے استعمال کی جا رہی تھی جب اس جنگ زدہ ملک میں امریکی اور اتحادی افواج موجود تھیں تاہم اس ٹیکنالوجی کے پاکستان آنے کے واضح شواہد پہلے سامنے نہیں آئے تھے۔

اب پہلی مرتبہ اعلٰی سطح پر پولیس نے تصدیق کی ہے کہ یہ ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھوں میں آئے ہیں۔

تھرمل امیجنگ یا سائٹ کیا ہے؟

ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو جسم سے نکلنے والی حرارت کی شناخت کرتی ہے جس سے اس جسم کا سکیچ واضح ہو جاتا ہے، جسے پھر کسی بھی ہتھیار سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی اندھیرے میں بھی آسانی سے دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔

دفاعی امور کے ماہر اور تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے ٹرانسمیٹر سے ایسی شعائیں نکلتی ہیں جو سامنے کسی جسم کو چھو کر واپس آتی ہیں اور اس جسم کے درجہ حرارت کے بارے میں بتاتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والی دور بین کی طرح ہوتی ہے جو ٹینکوں اور آرمڈ پرسنل کیریئرز میں بھی لگی ہوتی ہیں۔‘

محمود شاہ کے مطابق افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ زیادہ مقدار میں افغانستان کے شہر قندھار میں رکھا گیا لیکن وہاں مارکیٹ سے کچھ اگر کسی کے ہاتھ لگا ہو تو وہ بہت کم تعداد میں ہو گا۔

پولیس کے پاس اب کتنا اسلحہ ہے؟

ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے علاقے میں یہ اسلحہ فراہم کیا گیا اور انھیں اس کے استعمال کی تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں بنیادی طور پر اندھیرے میں بھی دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور جب اسے وہ آن کرتے ہیں تو انھیں سکرین میں رات کے وقت بھی دن کی طرح سب کچھ نظر آتا ہے اور وہ سنائپر گن کے ساتھ فائر کرتے ہیں جو کافی فاصلے سے بھی کام کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے بہت سہولت میسر آئی ہے کیونکہ اس سے رات کی تاریکی میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔‘

اس بارے میں خیبر پختونخوا پولیس کے سابق سینیئر افسر سید اختر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ہر قسم کا اسلحہ خریدا اور اس کے ساتھ سکیورٹی فورسز کی خدمات حاصل کی گئیں جو ان پولیس اہلکاروں کو دہشت گردی کے خلاف تربیت دیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کے پاس  جدید اسلحے اور تربیت کی کمی نہیں، اس کا سارا انحصار ہر ضلع کے پولیس کمانڈر پر ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں کو کیسے تیار کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہر ضلع کی سطح پر پولیس، ایلیٹ فورس، انسداد دہشت گردی فورس بھی ہے اس لیے کمانڈر کی مہارت اور قیادت کی قابلیت زیادہ اہم ہوتی ہے۔‘

سید اختر علی کا مزید کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں کچھ اہلکاروں کی تربیت میں کمی ہو سکتی ہے لیکن ان علاقوں میں پاکستان آرمی، فرنٹیئر کور اور فرنٹئیر کانسٹیبلری موجود ہے اور یہ اس جنگ میں گذشتہ دو دہائیوں سے نبرد آزما ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ان کے درمیان مربوط رابطے ہیں اور اگر یہ اسی طرح سے جاری رہے تو وہاں پولیس اپنے اہداف ضرور حاصل کر سکے گی لیکن اس کے لیے ایپکس کمیٹی کو فعال کیا جائے اور رابطوں کو مؤثر بنایا جائے۔‘

جدید اسلحے سے شدت پسند کتنے مضبوط ہوئے؟

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی اور شدت پسند تنظیم داعش کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

ان میں ٹی ٹی پی نے زیادہ تر حملے سکیورٹی فورسز اور پولیس پر کیے جبکہ داعش کی جانب سے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ’ٹی ٹی پی یا دیگر مسلح گروہ بھی کمزور اور کم تعداد میں ہیں اور یہ پاکستان کی باقاعدہ اور منظم فورس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت فیصلہ کر لے تو سکیورٹی فورسز ان کے خلاف بھرپور کارروائی کر کے ان کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سنائپر گنز اور تھرمل امیجنگ کا استمعال کوئی زیادہ مشکل نہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز اس میں بہت مہارت رکھتے ہیں جبکہ دوسری جانب شدت پسندوں کے پاس بھی اسلحہ ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو تلاش کر کے حملے کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی فوج یا پولیس اس اسلحے کو صحیح طریقے سے استعمال کرے اور اگر حکومت ایک مرتبہ فیصلہ کر لے اور سستی کا مظاہرہ نہ کرے تو ان شدت پسندوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔‘

واضح رہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعوے کیے ہیں کہ انھوں نے ان کارروائیوں میں سنائپر اور لیزر گنز کا استعمال کیا۔

اس کے علاوہ گذشتہ سال تنظیم کی جانب سے جاری ویڈیوز میں شدت پسندوں کی تربیت کے دوران بھی مختلف قسم کا اسلحہ دیکھا گیا تھا۔ ان میں امریکی اسلحہ ایم 24 سنائپر رائفل اور ایم 4 تریجیکون سکوپ اور ایم 16 اے 4 رائفل جس پر تھرمل سکوپ لگی ہوئی ہے، دیکھی گئی ہیں۔

Exit mobile version