جمالیات

اداکارہ رتنا پاٹھک: ‘بالی ووڈ فلموں پر بائیکاٹ کے بادل منڈلا رہے ہیں، دنیا بھر میں انڈین مذاق بن کر رہ گئے ہیں’

Share

اداکارہ رتنا پاٹھک شاہ نے بالی ووڈ فلموں کے بائیکاٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘آج پوری دنیا میں انڈین مذاق کا موضوع بن چکے ہیں۔’

’سارہ بھائی بمقابلہ سارا بھائی‘ میں اپنے کردار کے لیے مداحوں میں خاص طور پر شہرت رکھنے والی رتنا پاٹھک شاہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں بری چیزوں کو پیچھے چھوڑ دینا چاہیے۔‘

بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں رتنا پاٹھک شاہ نے کہا کہ ’یہ دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہمارے پاس تین ہزار سال پرانی خوبصورت تہذیب ہے۔ ہمیں خوبصورت آرٹ اور روایت کو فروغ دینا چاہیے اور بُری چیزوں کو پیچھے چھوڑنا چاہیے۔‘

بالی ووڈ فلموں کے ’بائیکاٹ‘ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں اچھی فلمیں بنانے کی فکر ہونی چاہیے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ آپ نے کیا پہنا ہے؟ کیا کہا؟ آپ کا کیا مطلب تھا؟ کس کی توہین ہوئی؟ کیسے؟‘ انھوں نے سوال اٹھایا کہ آیا اس ماحول میں آرٹ زندہ رہ سکتا ہے؟‘

رتنا پاٹھک شاہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ اپنے بیانات کی وجہ سے وہ کئی بار تنازعات کی زد میں بھی آئیں۔

گذشتہ ماہ ممبئی میں ایک کتاب کی رونمائی کے دوران انھوں نے ایس ایس راجا مولی کی فلم ’آر آر آر‘ کو ایک ’رجعت پسند’ مووی قرار دیا۔

انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے شاہ رخ خان کی فلم ’پٹھان‘ کے ایک گانے کے تنازع پر کہا کہ ‘یہ احمقانہ وقت ہے، لوگوں کے پاس کھانا نہیں ہے لیکن انھیں دوسروں کے کپڑوں سے پریشانی ہوتی ہے۔‘

رتنا پاٹھک نے ’لِپ اسٹک انڈر مائی برکھا‘، ‘سارا بھائی بمقابلہ سارا بھائی’، ‘کپور اینڈ سنز’، ‘تھپڑ’ اور ‘خوبصورت’ جیسی فلموں اور سیریلز میں کردار ادا کیے ہیں۔ حال ہی میں وہ فلم ‘کچھ ایکسپریس’ میں نظر آئی ہیں۔

India

پہلی گجراتی فلم سائن کر لی

چار دہائیوں تک انڈین سنیما اور تھیٹر کا حصہ رہنے والی رتنا پاٹھک شاہ نے 65 سال کی عمر میں اپنی مادری زبان گجراتی کی فلم میں پہلا قدم رکھا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ گجراتی زبان کے ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے کی ان کی دیرینہ خواہش تھی لیکن اس سے قبل انھیں کوئی دلچسپ آفر نہیں ملی تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ اور مشہور اداکارہ دینا پاٹھک اور ان کی خالہ نے کئی گجراتی ڈراموں اور فلموں میں کام کیا۔

رتنا پاٹھک شاہ کا کہنا ہے کہ انھیں ان فلموں میں کبھی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ ان میں قدامت پسندانہ خیالات، شوخ رنگ اور بہت ساری ’میلو ڈراما‘ یعنی سنسنی خیز تھیں اور وہ ان فلموں کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھیں۔

رتنا پاٹھک کے مطابق انھیں کافی عرصے سے اچھےسکرپٹ کا انتظار تھا جو اب ختم ہو گیا ہے اور وہ گجراتی فلم ‘کچھ ایکسپریس’ کا حصہ بن سکتی ہیں۔

فلم میں ان کا کردار ایک ’جدید ساس‘ کا ہے جو اپنی بہو کا ساتھ دیتی ہیں۔

رتنا پاٹھک کہتی ہیں کہ ’سنیما میں ساس اور بہو کے رشتے کو مرضی کا رنگ دیا گیا ہے اور انھیں قدامت پسندی کے روپ میں دکھایا گیا ہے۔‘

وہ گجراتی سنیما کے کلچر میں تبدیلی کی خواہاں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سنیما میں ہر صوبے کے لوگ دقیانوسی تصور کیے جاتے ہیں۔ ان سب کو بے وقوف بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ کون ہوشیار ہے؟ صرف فلم کا ہیرو۔ اور ہیرو کا کوئی صوبہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے مسٹر وویک کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔۔‘

لیکن انھیں یہ یقین ہے کہ انڈین سنیما بدل رہا ہے اور وہ اس پر خوش ہیں۔

ہندوستانی سنیما تبدیلی میں

رتنا پاٹھک شاہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ہندی سنیما میں کنفیوژن کا دور ہے اور کوئی یہ نہیں سمجھ پا رہا ہے کہ ناظرین کیا پسند کریں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ فلم ساز اب بھی 1990 اور 2000 کی دہائی کا سنیما بنا رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ناظرین اسے پسند کریں گے۔ وہیں ’جنوبی انڈین سنیما کچھ نیا لے کر آ رہا ہے اور ناظرین اسے پسند کر رہے ہیں۔

ان تبدیلیوں سے گزرتے ہوئے بالی ووڈ کو بھی کچھ چیلنجز کا سامنا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ فلم انڈسٹری ابھی تک کورونا وبا کے جھٹکے سے باہر نہیں نکل پائی ہے اور فلم انڈسٹری پربائیکاٹ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

رتنا پاٹھک شاہ کہتی ہیں کہ ’آپ (فلم) نہیں دیکھتے، دوسرے لوگوں کو پسند نہیں، اس لیے وہ اگلی بار فلم دیکھنے نہیں جائیں گے۔ کوئی بھی فلم تب ہی ہٹ ہوتی ہے جب ناظرین اسے بار بار دیکھنے جاتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ شاید اس لیے کہ کسی کے پاس بار بار مہنگے ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’آئیے اس قسم کا آرٹ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سامعین اسے کتنا قبول کرتے ہیں، ثقافتی آرٹ بنائیں اور پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔‘

رتنا پاٹھک شاہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ لوگ اسے ہضم کریں گے کیونکہ اس میں جھوٹ ہے۔ لوگ اس کے برعکس کرتے ہیں جسے ہم رسموں کے طور پر مانتے ہیں۔

ان کے مطابق ’یہ منافقت ہمارے ملک میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے اور اسے اتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ مجھے پریشان کرتا ہے۔‘

ماحول کو بدلنے پر زور دیتے ہوئے، وہ کہتی ہیں، ’ملک میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پیچھے مڑ کر دیکھ رہے ہیں، بالکل وہی کریں جو پہلے تھا، ذات کو اہمیت دو، اس طرح لڑو، عورتوں کو پردے میں گھر میں بند کرو۔

ان کے مطابق یہ قدامت پسندی کا دور ہے، ایک خطرناک وقت ہے۔ ’مجھے خوشی ہے کہ اس ماحول میں میں ‘کچھ ایکسپریس’ جیسے ترقی پسند سنیما کا حصہ ہوں۔‘

ویرل شاہ کی ہدایت کاری میں بننے والی ’کچھ ایکسپریس‘ میں رتنا پاٹھک شاہ کے ساتھ مانسی پاریکھ، دھرمیندر گوہل، درشیل سفاری اور ویراف پٹیل بھی اہم کرداروں میں ہیں۔ فلم 6 جنوری کو سنیما گھروں میں ریلیز کی گئی ہے۔