کافی لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ڈیمنشیا اور الزائمرکے متعلق بھی کچھ لکھوں۔ ویسے تو میں کئی برس پہلے الزائمر اور ڈیمنشیا کے متعلق کالم لکھ چکا ہوں جس میں ڈیمنشیا کے متعلق میں نے اہم معلومات فراہم کی تھیں۔ تاہم میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے اب بھی بہت سارے لوگوں کو ڈیمنشیا کے متعلق اتنی معلومات نہیں ہے جتنی کہ انہیں ہونی چاہیے۔
1994کی بات ہے جب میری دوسری نوکری لندن کے گرینچ بورومیں ڈیمنشیا پراجیکٹ میں ہوئی تھی۔ جہاں چار سال ڈیمنشیا پراجیکٹ میں کام کرکے ڈیمنشیا کے متعلق کافی کچھ سیکھا تھا۔اس ڈیمنشیا پراجیکٹ میں مجھے ان لوگوں کے ساتھ تھیراپی کے علاوہ ان کے رشتہ داروں کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ رکھنا پڑتا تھا۔ڈیمنشیا پراجیکٹ نے مجھے کئی تربیتی کورسیز میں بھی بھیجا جہاں سے ڈیمنشیا کے متعلق میرے معلومات میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
ڈیمنشیا ایک عالمی عارضہ ہے۔لیکن یہ بات اکثر زیادہ تر دولت مند ممالک میں دیکھا جاتا ہے، جہاں لوگوں کی عمر کافی ہوجاتی ہے یا لوگ زیا دہ دیر تک زندہ رہتے ہیں۔الزائیمر مرض دماض میں ہوتا ہے جس سے دماغ کے سیل یا تو سکڑتنے لگتے ہیں یا پھر وہ ناکارہ ہوجاتے ہیں جس سے انسان کی یادداشت جانے لگتی ہے۔ اس مرض کا اب تک کوئی علاج نہیں ہے حالانکہ سائنسداں اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔تاہم ڈیمنشیاکے لیے کچھ دوائیاں دستیاب ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیمنشیا میں بہترین دیکھ بھال اورمختلف تھیراپی ہی زیادہ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
لیکن دسمبر 2022 میں نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نے ا لزائمر میں دماغ کی تباہی کو کم کرنے والی پہلی دوا” لیکانیماب” کو اہم قرار دیا جس سے الزائمر مریضوں کو فائدہ مند اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس خبر سے لاکھوں ڈیمنشیا کے مریضوں اور ان کے رشتے داروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔نئی دوا کی تحقیقی پیش رفت کئی دہائیوں کی ناکامی کو آخر کارختم کرتی ہے اوراس طرح الزائمر کے علاج کے لیے ایک مثبت باب کا آغاز ہوا۔اس دوا کا نام (Lecanemab)لیکانیماب ہے جو بیماری کے ابتدائی مراحل میں کام کرے گی۔
مایوسی اور پریشانی سے بھرے طبی شعبے کے لوگ اس آزمائشی نتائج کو ایک فاتحانہ موڑ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ معروف محققین میں سے پروفیسر جان ہارڈی نے کہا کہ یہ یہ ایک تاریخی بات ہے اور ہم پر امید ہیں کہ ہم الزائمر کے علاج کا آغاز دیکھ رہے ہیں۔وہیں یونورسیٹی آف ایڈنبرا سے تعلق رکھنے والی پروفیسر تارا اسپائرز جونز نے کہا کہ نتائج ایک بہت بڑی بات ہے کیونکہ ہمارے پاس طویل عرصے سے ناکامی کی شرح 100فی صد رہی ہے۔تاہم سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کے درمیان لیکانیماب کے حقیقی دنیا کے اثرات کے بارے میں بحث جاری ہے۔
ابتدائی مرحلے میں بڑے پیمانے پر لیکانیماب دوا کی ٹرائل کے لئے الزائمر مرض کے ساتھ 1,795رضاکار شامل تھے۔جنہیں ہر پندرہ روز پر لیکانیماب دئے جاتے تھے۔ جس کے نتائج سانفرانسکو میں الزائمر کی بیماری پر ہونے والی کانفرنس میں پیش کیے گئے اورجس کی تفصیل نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئے۔ اعداد و شمار کا پہلے ہی امریکہ میں ریگولیٹر کی طرف سے جائزہ لیا جارہا ہے جو جلد ہی فیصلہ کریں گے کہ لیکانیماب کو وسیع تر استعمال کے لیے منظور ی دی جائے۔وہیں دو معروف فارماسیو ٹیکل کمپنیاں ایسائی اور بیوجن 2023میں دوسرے ممالک میں بھی منظوری کا عمل شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
ڈیمنشیا کیا ہے؟ ڈیمنشیا چھتری کی مانند ایک مثال ہے جو دماغ پر اثر انداز ہونے والے اعصابی عوارض کی ایک حد کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ڈیمنشیا کی 200سے زیادہ قسمیں ہیں لیکن ان میں پانچ سب سے زیادہ عام ہیں۔ الزائمر کی بیماری، ویسکولر ڈیمنشیا، لیوائی بوڈیز ڈیمنشیا، فرنٹوٹیمپورل ڈیمنشیا اور مخلوط ڈیمنشیا۔اس کے علاوہ شراب زیادہ پینے سے دماغ کو نقصان پہنچنا، ینگ اون سیٹ ڈیمنشیا، ہنٹنگٹن بیماری، اور پارکنسن بیماری بھی عام ہیں۔ کچھ لوگوں میں مختلف قسم کے ڈیمنشیا کا امتزاج ہو سکتا ہے اور ان کو عام طور پر مخلوط ڈیمنشیا کہا جا تا ہے۔عام طور پر ڈیمنشیا کی تشخیص دماغ کے سٹی اسکین یا پھر یادداشت کی کمزوری یا بھولنے کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کس قسم کی ڈیمنشیا کی تشخیص ہوتی ہے اور دماغ کا کون سا حصہ متاثر ہوتا ہے،اس کے لیے ہر فرد کو اپنے طور پر ڈیمنشیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آئیے اب ڈیمنشیا کا کیا سبب ہے اسے جانتے ہیں۔ دماغ اعصابی خلیات (نیورون) سے بنا ہوتا ہے جو پیغام بھیج کر ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ڈیمنشیا جب دماغ کے اعصابی خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے تو جس کے نتیجے میں پیغامات دماغ سے اور مؤثر طریقے سے نہیں بھیجا جا سکتا ہے۔جوجسم کوعام طور پر کام کرنے سے روکتا ہے۔اسی لیے ڈیمنشیا کے مریضوں کو ہم دھیرے دھیرے کمزور اور لاچار دیکھتے ہیں۔ جس سے ان لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے صبر اور قابل لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے جو ڈیمنشیا مریضوں کی ضرورت کو سمجھ سکے اور ان کی اچھے طور پر دیکھ بھال کر سکے۔
برطانیہ میں پچھلے کئی برسوں سے ڈیمنشیا مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کی دیکھ بھال اور مزید امداد کے لیے کئی چیریٹی مہم چلا رہی ہیں۔ جس کے لیے چھوٹے بڑے پیمانے پر لوگ فنڈ اکھٹا کرتے ہیں اور حکومت بھی ڈیمنشیا کے لیے تعاون دیتی ہے جس سے سے کئی پراجیکٹ بھی چلائے جاتے ہیں۔ جن میں ڈے سینٹر، ڈیمنشیا کئیر ہوم، رشتہ داروں سے بات چیت کے لیے فون سروس وغیرہ کافی اہم ہیں۔
الزائمر سوسائٹی کی اطلاع کے مطابق برطانیہ میں لگ بھگ 944,000سے زیادہ افراد ڈیمنشیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے تقریباً 42,000ایسے کم عمر لوگ ہیں جن کی عمر 65سال سے کم ہے۔ جیسے جیسے کسی شخص کی عمر بڑھتی جاتی ہے، اسی طرح ان میں ڈیمنشیا پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2025تک برطانیہ میں ڈیمنشیا کے شکار افراد کی تعداد 10لاکھ سے زیادہ ہوجائے گی۔ تاہم تشخیص کی شرحیں بہتر ہورہی ہے لیکن اب بھی بہت سارے لوگ جنہیں ڈیمنشیا ہے، ان کی تشخیص نہیں ہوپاتی ہے۔
برطانیہ میں 433,000 سے زیادہ لوگ care home کیر ہوم (جہاں لوگ مزید دیکھ بھال کے لئے رہتے ہیں) میں رہتے ہیں۔ ان کیر ہوم میں رہنے والے 80%فی صد لوگ یا تو الزائمر یا ڈیمنشیا مرض کے شکار ہیں۔ یہ ایک بد بخت، ظالمانہ اور غلط سمجھنے والی حالت ہے جس سے زیادہ تر رشتہ دار ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ہزاروں لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کے لئے ایک بہت ہی مشکل فیصلہ یا قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ایک مطالعہ کے مطابق اپنے والدین اور رشتہ داروں کے لئے کیر ہوم یا ان کی دیکھ بھال کا انتظام کرنا ان کی زندگی کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے جو کہ ایک نئے مکان کو خریدنے یا پھر طلاق کے طریقہ کار سے گزرنے سے بھی زیادہ ذہنی دباؤ کا باعث ہوتا ہے۔
میں نے ڈیمنشیا مریضوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں ان کی حالت کو دیکھ کر نہ صرف دُکھی ہو جا تا ہوں بلکہ میری آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔ تمام سہولیت اور آرام پہونچانے کے باوجود ڈیمنشیا مریض کی حالت سدھرنے کی بجائے بگڑتی چلی جاتی ہے۔ اس حالت میں مریضوں کے رشتہ داروں کی حالت گوں نا گوں ہوتی ہے اور ان کا رشتہ دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔ وہ ان حالات میں نہ صرف بے بس ہوتے ہیں بلکہ لاچار بھی ہوتے ہیں۔الحمداللہ لیکانیماب دوا سے جہاں کچھ حد تک ڈیمنشیا کے مریضوں کی حالت بہتر ہوگی وہیں اس سے رشتہ داروں کو راحت بھی ملے گی۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہم سبھوں کو اس مرض سے محفو ظ رکھیں اور جو لوگ اس مرض کے شکار ہیں ان کے رشتہ داروں کو ایسے مریض کی دیکھ بھال کرنے کی ہمت،قوت اور صبر عطاکرے۔ آمین۔