متحرک ’’ذہن سازوں‘‘ کی چالیں
گزشتہ ہفتے عمران خان صاحب کی جبلت پر حاوی ’’فاسٹ بائولر‘‘ انگڑائی لے کر بیدار ہوا۔ سیاست کی پچ پر انہوں نے یکے بعد دیگرے چند چالیں چلیں اور اپنے مخالفین کو بوکھلا دیا۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کی تحلیل یقینی بنانے کے بعد انہوں نے عندیہ یہ بھی دیا کہ تحریک ا نصاف کے اراکین قومی اسمبلی ایوان میں لوٹ سکتے ہیں۔ واحد مقصد ان کی واپسی کا محض دو صوبوں کی اسمبلیوں کے لئے نہیں بلکہ ملک بھر میں قبل از وقت عام انتخاب یقینی بنانا ہوگا۔ وزیر اعظم نے اس ضمن میں مزید لیت ولعل برتا تو ان کے نامزد کردہ صدر -عارف علوی- شہباز شریف کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو مجبور کردیں گے۔
اپنے مخالفین کی بوکھلاہٹ میں اضافے کے لئے سابق وزیراعظم کے ’’ترجمانوں‘‘ نے دعویٰ یہ بھی کیا کہ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے کم از کم 15اراکین اسمبلی ان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔مذکورہ روابط ٹھوس پیغام یہ دے رہے ہیں کہ شہبازشریف اعتماد کے ووٹ کے لئے بندے پورے نہیں کر پائیں گے۔یوں نئے انتخاب کے لئے وفاق میں بھی عبوری حکومت کی تشکیل لازمی ہوجائے گی۔اس ضمن میں ’’مشاورت‘‘ کا حق فی الوقت تحریک انصاف سے باغی ہوئے راجہ ریاض کو میسر ہے۔سپیکر قومی اسمبلی نے انہیں آئینی اعتبار سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تسلیم کررکھا ہے۔تحریک انصاف اس بندوبست سے خوش نہیں۔عمران خان صاحب کے وفادار اراکین قومی اسمبلی اپنی بھاری بھر کم تعداد کی بنیاد پر قائد حزب اختلاف کا منصب راجہ صاحب کے سپرد کرنے کو تیار نہیں۔
عمران خان صاحب کی جارحانہ حکمت عملی کے تحت اختیار کردہ پالیسیوں نے ان کے دیرینہ ناقدوں کو بھی یہ تسلیم کرنے کو مجبور کردیا کہ عام انتخاب کو مزید مؤخر کرنا اب موجودہ حکومت کے لئے ممکن نہیں رہا۔وہ رواں برس کے اکتوبر میں نہیں بلکہ اپریل-مئی کے مہینوں میں منعقد ہوتے نظر آرہے ہیں۔
سیاسی عمل میں برتری دکھانے والے پتے مگر کبھی ایک ہی فریق کے پاس نہیں ہوتے۔ عمران خان صاحب نے اپنے مخالفین کو حیران کردینے والے پتے کھیل دئے تو سپیکر قومی اسمبلی کے منصب پر بیٹھے سیاست کے کائیاں کھلاڑی راجہ پرویز اشرف بھی متحرک ہوگئے۔منگل کی شام انہوں نے ’’اچانک‘‘ تحریک انصاف کے مزید 35اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے اپنے دفتر میں جمع ہوئے استعفے منظور کر لئے ہیں۔
میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ راجہ پرویز اشرف گزشتہ برس کے اپریل میں اپنے دفتر پہنچے استعفوں کی بابت رنجیت سنگھ سے منسوب ’’ایہہ منظور تے ایہہ نامنظور‘‘ والا رویہ کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔تخت یا تختہ والی سیاست میں ’’اصول‘‘ ہمیشہ بے وقعت ہوجاتے ہیں۔ہمارے ہاں کہنے کو ایک ’’تحریری آئین‘‘ موجود ہے۔نظر بظاہر وہ ہر ریاستی ادارے اور منصب کی ’’حدود‘‘ کا واضح انداز میں تعین کرتا ہے۔آئین کا اطلاق کرتے ہوئے تاہم ’’تشریح‘‘ کے بہانے من مانیوں کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔اس ضمن میں فقط راجہ پرویز اشرف ہی کو موردالزام ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔حال ہی میں ریاست کے چند ’’دیگر‘‘ ستونوں نے بھی ’’تشریح‘‘ کی آڑ میں عجب تماشے لگائے ہیں۔
’’اصولوں‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے منگل کی شام جو فیصلہ لیا وہ تحریک انصاف کی حالیہ پیش قدمیوں سے بوکھلائے فریق کو بہت بھایا ہے۔سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کو وہ ’’چیک میٹ‘‘ بتاکر سوشل میڈیا پر اجاگر کررہے ہیں۔سیاسی امور کا ’’سینئر تجزیہ کار‘‘ مشہور ہونے کی وجہ سے میرا فرض تو بنتاہے کہ بدھ کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے میں اپنی ’’دانش‘‘ استعمال کرتے ہوئے ’’اب کیا ہوگا‘‘ والا منظر نامہ سوچنے کی کوشش کروں۔
سچی بات مگر یہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف کی جانب سے ہوئے فیصلے کے برسرعام آنے کے بعد میرے ذہن میں فقط ایک فلم کے مناظر گھوم رہے ہیں۔جو فلم مجھے مسلسل یاد آرہی ہے نام ہے اس کا ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘۔بھارتی بنگال سے ابھرے شہرئہ آفاق تخلیق کارستیہ جیت رائے نے اسے بنایا تھا۔مرکزی خیال اس فلم کا اردو کے مہا لکھاری منشی پریم چند کے لکھے ایک افسانے سے مستعار لیا گیا تھا۔
مجھے گماں ہے کہ آپ کی اکثریت نے اگر ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ فلم نہیں دیکھی تب بھی منشی پریم چند کا لکھا افسانہ غالباََ پڑھ رکھا ہوگا۔ان دونوں سے نابلد افراد کے لئے مگر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مذکورہ افسانہ اور فلم واجد علی شاہ کی ’’سلطنت اودھ‘‘ کے زوال کے تناظر میں تخلیق ہوئے تھے۔ برطانوی استعمار کی ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ گنگ وجمن کے پانیوں سے مالا مال ہوئی سلطنت ہتھیانے کو بہت سرعت سے آگے بڑھ رہی تھی۔واجد علی شاہ مگر ان کی چالوں سے بے نیاز اپنے دربار کو دورِ حاضر کے تھیڑکی صورت دئیے ہوئے تھا۔ ’’منظوم ڈرامہ‘‘ نما اصناف تیار کرتے ہوئے انہیں دربار میں بطورہدایت کار،اداکار اور موسیقار پیش کرتا رہا۔
کامل انتشار اور معاشی دیوالیہ کے گرداب میں پھنسے اس ماحول میں مگر دو کردار تھے۔وہ زوال پذیر اشرافیہ کے حقیقی نمائندہ تھے۔’’شطرنج کی بازی‘‘ آپا دھاپی کے دنوں میں بھی ان کی اولین ترجیح تھی۔اپنے گرد ابھرتے بحران وگرداب سے قطعاََ غافل اور لاتعلق رہے۔
راجہ پرویز اشر ف نے جس شام ’’چیک میٹ‘‘ والی چال چلی اس دن پاکستان کا سٹاک ایکسچینج 30مہینوں کے طویل وقفے کے بعد ریکارڈ بناتے مندے کی زد میں آیا۔بازار کے حقائق پر نگاہ رکھنے والے دعویٰ کررہے ہیں کہ مذکورہ مندے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے کم از کم 200ارب روپے ’’ڈوب‘‘گئے۔ سیاسی عدم استحکام ریکارڈ بناتے اس مندے کی بنیادی وجہ بیان کیا جارہا ہے۔مذکورہ عدم استحکام کا حقیقی سبب مگر دورِ حاضر کی ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ یعنی آئی ایم ایف ہے۔عالمی معیشت کا حتمی نگہبان ادارہ پاکستان سے تقاضہ کررہا ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ہمارے روپے کی قدر کو بازار کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے۔پاکستان ایک ’’منی بجٹ‘‘ بھی تیار کرے جو قومی خزانے کے لئے اربوں روپے کے مزید محاصل کا حصول یقینی بنائے۔ان کا حصول یقینی نہ بنایا گیا تو ریاست پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ نہیں پائے گی۔
گردن کے تقریباََ بہت قریب پہنچے دیوالیہ کی حقیقت کو لیکن سفاکانہ بے نیازی سے نظرانداز کئے ہوئے سیاسی منظر نامے پر چھائے ہمارے ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ نت نئی چالوں سے ایک دوسرے کی ’’نیند اڑانے‘‘میں مصروف ہیں۔روایتی اور سوشل میڈیا پر متحرک ’’ذہن ساز‘‘ اپنے پسندیدہ فریق کی چلی چال پر دادو تحسین کا شوروغوغا برپا کئے ہوئے ہیں۔ایسے عالم میں ’’اب کیا ہوگا‘‘ والے سوال کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنا میرے لئے ممکن نہیں۔’’سینئر تجزیہ کار‘‘ کا لاحقہ اپنی شناخت کے لئے مجھے اب تہمت محسوس ہونا شروع ہوگیا۔میر تقی میرؔ کی دلی چھوڑ کر اودھ میں اختیار کردہ گوشہ نشینی یاد آرہی ہے اور غالبؔ کے وہ خطوط بھی جو 1857کے ایام میں ’’ہائے دلی،وائے دلی۔بھاڑ میں گئی دلی‘‘کی دہائی مچارہے تھے۔