مولانا قہر لدھیانوی
حضرت مولانا قہر لدھیانوی گزشتہ ہفتے انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے علمبردار تھے اور ان کی ساری عمر مسلمانوں کے تمام فرقوں میں رواداری اوراختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی تبلیغ میں بسر ہوئی۔ مولانا فروعی مسائل پربحث مباحثے اور مناظرے کو اسلام اور مسلمانوں کیلئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی نسل کو اگر مذہب سے برگشتہ ہونے سے بچانا ہے تو پھر علما کو دین کی بنیادی چیزوں کو باہمی اتحاد کی بنیاد بنانا ہوگا تاہم دین کے بنیادی اصولوں کے سلسلے میں وہ کسی قسم کے سمجھوتے کے قائل نہیں تھے اور اس ضمن میں ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے چنانچہ اس عظیم مقصد کے لئے وہ کئی مرتبہ جیل بھی گئے۔ جن میں سے چارمرتبہ تو انہیں دیوبندی، بریلوی تنازع میں پرجوش کردار ادا کرنے پر جیل جانا پڑا مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ مولانا مرحوم و مغفور نے اسلام کے جن بنیادی مسائل کی تبلیغ و ترویج کواپنی زندگی کا مشن بنایا ان میں مسئلہ نور وبشر، رفع یدین اور آمین بالجہر وغیرہ کے مسائل شامل تھے۔ حضرت مولانا نے متعدد تصانیف بھی قلمبند کیں جن میں امرود درود مردود، اشکال فی بطن ابطال اور زحمت در مسئلہ تہہ بند کے علاوہ ”مسائل طہارت“ شامل ہیں۔ مولانا نے جنوبی افریقہ کے ممالک کے بھی کئی دورے کئے اور جن علاقوں میں مسلمانوں کی کوئی اکادکا مسجد نظر آتی تھی حضرت مولانا کی مساعی ٴ جمیلہ سے وہاں فی کس مسلمان کے حساب سے علیحدہ علیحدہ مسجد تعمیر ہوئی۔ مولانا قہر لدھیانوی کی وفات سے ایک عظیم خلا پُر ہو گیا ہے۔ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
غلیل طوفانی
جناب غلیل طوفانی کی وفات سے پاکستان کے سیاسی حلقوں کو جس بے پناہ صدمے سے دوچار ہونا پڑا ہے وہ اتنا قابل فہم نہیں کیونکہ غلیل طوفانی کی ساری عمر بنیادی حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد میں بسر ہوئی اور اس کے لئے انہیں کئی بار جیل بھی جانا پڑا تاہم انہوں نے جیل کی صعوبتوں کا مردانہ وارمقابلہ کیا کیونکہ مرحوم کے لئے جیل کوئی نئی چیز نہیں۔ وہ سیاست کے خار زار میں قدم رکھنے سے پہلے اکثر دیوانی اور فوجداری مقدمات میں جیل جایا کرتے تھے۔ مرحوم نے جن بنیادی حقوق کے حصول کے لئے عمر بھر جدوجہد کی ان میں ریاست کے خلاف جدوجہد کے حق کو تسلیم کرنا سرفہرست تھا چنانچہ ان کی ہر تقریر ریاست اور بانی ریاست کے خلاف ہوتی تھی۔ مرحوم قیام پاکستان سے پہلے کانگریس سے وابستہ تھے اور دو قومی نظریے کے سخت خلاف تھے، پاکستان بننے کے بعد وہ علاقائیت پر یقین رکھتے تھے یا پھر بین الاقوامیت کے پرچارک تھے اور انہوں نے مرتے دم تک اپنی یہ دونوں حیثیتیں قائم رکھیں۔ ان کی وفات سے قومی سیاست میں جو خلا پیدا ہواہے وہ پُر ہونا مشکل ہے کیونکہ ایسی شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں اور نہ ہی پیدا ہونی چاہئیں!
جناب اقتدار دائمی
جناب اقتدار دائمی کی وفات سے مقتدر حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ مرحوم کا ایمان تھا کہ اقتدارِ اعلیٰ صرف خدا کی ذات ہے اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ اقتدارِ اعلیٰ اللّٰہ کی طرف سے انہیں ودیعت ہوا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا ان تک پہنچا ہے۔ مرحوم نے اپنی مقتدرانہ زندگی کا آغاز ڈپٹی کمشنری سے کیا اور سارے علاقے میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ انہوں نے جوں جوں اقتدار کی منزلیں طے کیں وہ اس نتیجے پر پہنچتے چلے گئے کہ عوام کا قلع قمع کئے بغیر اقتدار قائم رکھنا ممکن نہیں سو انہوں نے اپنی اس پالیسی کے نتیجے میں پاکستان پر مسلسل حکومت کی۔ وہ دنیا بھر کے صاحبانِ بست وکشاد کی غلطیوں سے سبق سیکھتے تھے جن کے نتیجے میں ان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ ان کی اس احتیاط ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے ان پیشروؤں کی غلطیوں کو نہیں دہرایا بلکہ ان کی جگہ نئی غلطیاں کیں اور یہ ذرا سی لغزش ان کے زوال کا باعث بھی بنی! رفتیہ وَلے نہ از دِل ما
قارون بہرام
قارون بہرام بہت بڑے سرمایہ دار تھے مگر اللہ نے انہیں بہت فیاض بنایا تھا۔ وہ غربا میں لاکھوں روپوں کے چیک تقسیم کرتے مگر کمزور حافظے کی بنیاد پر ان پر سائن کرنا بھول جاتے۔ ان کی دریا دلی کا یہ عالم تھا کہ ان کی دولت کا سراغ لگانے کیلئے حکومتی عملے کے ارکان جب گاہے گاہے ان کے پاس آتے تو وہ انکے سامنے نوٹوں کے ڈھیر لگا دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ان حلقوں میں بہت مقبول تھے۔ وہ خود کو عام عوام جیسا قرار دیتا تھے،ایک عام آدمی سے خود کو Identify کرنے کیلئے اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قربانی دی یعنی ایک روز چپ چاپ ہو گیا حالانکہ ڈاکٹروں کاپورا بورڈ اور میز پر لاکھوں روپوں کی ادویات تھیں۔ اللہ اللہ ایسے خدا ترس لوگ ہمارے درمیان اب کہا ں ہیں؟