مشکل فیصلے کیے تو حکومت اگلے دو ہفتوں میں بھاگ جائے گی، شوکت ترین
سابق وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) پروگرام پر دستخط اس لیے نہیں کر رہی کیونکہ ان کے ذخائر کم ہو گئے ہیں، ملکی آمدنی کم اور اخراجات دُگنے ہوگئے، اگر مشکل فیصلے کیے تو میرا خیال ہے کہ حکومت اگلے چند ہفتوں میں بھاگ جائے گی۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شوکت ترین نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ برس مارچ میں مہنگائی کی شرح 12.2 فیصد چھوڑ کر گئی تھی جو آج 25فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی گروتھ منفی ہوگئی ہے، ملک میں صنعتیں بند ہورہی ہیں، مہنگائی کا جواز بنا کر ہماری حکومت کو ہٹایا گیا۔
شوکت ترین نے دعویٰ کیا کہ 17 سال میں سب سے زیادہ گروتھ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہوئی تھی۔
سابق وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ ملک کی برآمدات منفی 16 فیصد ہیں، زرمبادلہ منفی 19 فیصد ہیں، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری میں پہلی بار دسمبر میں 17 کروڑ ڈالر لوگوں نے پیسے نکالے ہیں، پاکستان میں پیسے آنہیں رہے بلکہ جارہے ہیں۔
انہوں نے عالمی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 79 فیصد سرمایہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان غلط سمت میں جارہا ہے، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری 57 فیصد پچھلے سال سے کم ہیں۔
شوکت ترین نے کہا کہ حکومت ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قرضہ لے رہی ہے، پچھلے 6 ماہ کے دوران حکومت نے 60 کھرب 50 ارب قرضہ لیا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے 4 سال میں 190 کھرب قرضہ لیا جس پر حکومت شور مچا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کاروبار بند ہورہے ہیں تقریباً 5 ہزار 700 کنٹیبر بندرگاہ پر کھڑے ہیں جن کی ادائیگی نہیں ہورہی، 4 سے 5 ارب ڈالر لیٹر آف کریڈٹ روک دی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ شپنگ لائن، ایئرلائن، پروفٹ زرمبادلہ کا ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر رُکا ہوا ہے، ترکش ایئرلائن کو 24 ارب ڈالر دینے ہیں، اسٹیٹ بینک کے ذخائر 4 ارب 30 کروڑ ڈالر آگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز گورنر اسٹیٹ بینک نے پریس کانفرنس کے دوران حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، جہاں انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں ڈالر نہیں آرہے۔
یاد رہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا تھا کہ ملک کو ڈالر کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں اشیائے خوردونوش اور صنعتی خام مال کی درآمدات پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ملکی ذخائر کی موجودہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک میں ایک ماہ کی اوسط درآمدات کا احاطہ کرنے کے لیے بھی مناسب مقدار میں ڈالر موجود نہیں ہیں۔
شوکت ترین نے کہا کہ وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر آرہے ہیں لیکن سعودی وزیر خارجہ نے بھی قرضہ مشروط کر دیا ہے، ورلڈبینک نے ایک ارب 10 لاکھ ڈالر بھی روک لیے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام پر دستخط اس لیے نہیں کر پا رہی کیونکہ ان کے ذخائر کم ہو گئے ہیں، پاکستان نے چند ماہ پہلے کہا تھا کہ ملک کا مالی خسارہ 4.6 فیصد سے 4.9 فیصد پر آجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
سابق وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا کہ اس وقت پاکستان کی آمدنی کم ہوگئی ہے اور اخراجات دُگنے ہوگئے ہیں کیونکہ پاکستان کی توانائی کی کھپت ماہانہ 123 ارب زیادہ ہوگئی ہے، اس لیے پاکستان کو ٹیکس سمیت پی ڈی ایل، ٹیرف بڑھانا ہے، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول نہ کیا جائے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ انہیں مشکل فیصلوں پر سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی، میرے نزدیک اگلے چند ہفتوں میں حکومت بھاگ جائے گی، ان کی پچھلی حکومت نے خزانے کا بیڑہ غرق کرکے گئی تھی جس پر ہمیں آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑا تھا۔