Site icon DUNYA PAKISTAN

متحدہ عرب امارات نے 2 ارب ڈالر قرض کی مدت میں توسیع کردی

Share

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو دیے گئے 2 ارب ڈالر کے قرض کی مدت میں توسیع کردی ہے۔

وزیر خزانہ نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ ’ابوظبی نے 2 ارب ڈالر قرض کی مدت میں توسیع کا فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے باعث کیا‘۔

انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ ’وزیراعظم نے سرکاری دورے کے دوران صدر متحدہ عرب امارات سے قرض کی مدت میں توسیع پر بات چیت کی تھی‘۔

اس پیش رفت سے آگاہ کرنے کے علاوہ اسحٰق ڈار نے اپنی ٹوئٹ میں ’پاک ۔ متحدہ عرب امارات دوستی زندہ باد‘ کا نعرہ بھی درج کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا جس کے دوران اماراتی صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے پاکستان کو دیے گئے 2 ارب ڈالر کے قرض کی مدت میں توسیع کے ساتھ مزید ایک ارب ڈالر قرض دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔

وزیر اعظم نے امارات کے دورے کی دعوت پر صدر محمد بن زاید کا شکریہ ادا کیا اور دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان برادرانہ تعلقات پر تبادلۂ خیال کیا اور توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا تھا۔

اماراتی صدر نے شہباز شریف کا خیر مقدم کیا اور پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔

وزیر اعظم کے ہمراہ متحدہ عرب امارات جانے والے اعلیٰ سطح کے سرکاری وفد میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی شامل تھے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم کاعہدہ سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا متحدہ عرب مارات کا یہ تیسرا دورہ تھا۔

وزیر اعظم کے دورے سے 2 روز قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی متحدہ عرب امارات کے صدر سے ملاقات کی تھی جس میں عسکری اور دفاعی امور زیر بحث آئے تھے اور دونوں نے باہمی دفاعی تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا تھا۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ڈالر نہ آنے کی وجہ سے 6 جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 4.34 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے تھے جو فروری 2014 کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر کی کم ترین سطح ہے۔

ملک کو ڈالر کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں اشیائے خورونوش اور صنعتی خام مال کی درآمدات پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ملکی ذخائر کی موجودہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک میں ایک ماہ کی اوسط درآمدات کا احاطہ کرنے کے لیے بھی مناسب مقدار میں ڈالر موجود نہیں ہیں۔

Exit mobile version