قانون سازی کے ضمن میں اپنا یا حکومتی رویہ
عمران خان صاحب کے اندازِ حکومت کو دیکھتے ہوئے اکثر غالبؔ کا ’’کھیل بچوں کا ہوا…‘‘یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔بدھ کے دن تو مگر حد ہی ہوگئی۔
قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس طلب کرنے سے عمران حکومت اکثر خائف رہتی ہے۔وہاں ہوئے شور شرابے کو وقت کا زیاں سمجھتی ہے اور ہمہ وقت اس خواہش میں مبتلا کہ نئے قوانین صدارتی آرڈیننس کے ذریعے متعارف کروادئیے جائیں۔حکومتی امور چلانے کے لئے فقط وزیر اعظم سیکرٹریٹ کو متحرک رکھا جائے۔
اس خواہش کی تکمیل مگر ممکن نہیں۔ہمارا آئین پارلیمان پر انحصار کا تقاضہ کرتا ہے۔اس آئین کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم کے لئے ایک بااختیار’’امیر المومنین‘‘ والی فیصلہ سازی ممکن ہی نہیں۔احتساب کے خوف سے دبکی اپوزیشن اگر پارلیمان کے اختیار کو بھلابھی دے تو متحرک عدلیہ کی جانب سے سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔بسااوقات ان سوالات کی وجہ سے ایوان ہائے اقتدار میں بھونچال جیسی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔سازشی کہانیوں کا سیلاب اُمڈ آتا ہے۔پراسرار سرگوشیاں سنجیدہ موضوعات پر مدلل مکالمے کو ناممکن بنادیتی ہیں۔
بھارت کے ساتھ مستقل تنائو اور افغانستان وایران کی ہمسائیگی کی وجہ سے پاکستان کا ایک بہت ہی خاص Geo Strategicمقام ہے۔اس Profileکی وجہ سے آرمی چیف کا عہدہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔اس عہدے کے ضمن میں تعیناتی اور مدت ملازمت میں توسیع جیسے سوالات کو بہت سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔
اسلام آباد بنیادی طورپر ’’بابو‘‘ لوگوں کا شہر ہے۔اگست 2019میں جس انداز میں وزیر اعظم کے دستخطوں کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اعلان ہوا اس نے یہاں موجود کئی سرونگ اور ریٹائرڈ سرکاری افسروں کو حیران کردیا۔ان میں سے ہر شخص نے Processکی یاد دلائی۔وزارتِ دفاع سے جاری ہوئی ’’سمری‘‘ کا ذکر کیا اور اس کی روشنی میں صدارتی فرمان کے اجراء کی یاد دلائی۔ عمران حکومت کمال بے اعتنائی سے ان معاملات کو نظرانداز کرتی رہی۔
بالآخر نومبر کے آخری دنوں میں سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر ہوگئی۔اسی پٹیشن کے نتیجے میں پارلیمان کی اہمیت ’’دریافت‘‘ ہوئی۔تقاضہ ہوا کہ آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت ملازمت سے جڑے سوالات کو ہمیشہ کے لئے طے کردینے کو ایک نئے قانون کی ضرورت ہے۔حکومت کی نمائندگی کرتے وکلاء نے انتہائی عاجزی سے مذکورہ قانون کی ضرورت کا اعتراف کیا اور سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ مئی 2020کے اختتام تک مطلوبہ قانون سازی ہوجائے گی۔
سپریم کورٹ کو یقین دلانے کے بعد مگر حکومت نے پارلیمان سے فوری بنیادوں پر رجوع کرنا ضروری نہ سمجھا۔ سرگوشیوں میں بلکہ اس کے اہم وزراء نے یہ کہانی پھیلانے کی کوشش کی کہ ’’نجانے کیوں‘‘ طیش میں آکر سابق چیف جسٹس صاحب اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہی روز قبل حکومت کو ایک ’’حساس‘‘ معاملے میں مشکل میں ڈال گئے ہیں۔
کھوسہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی چیف کے عہدے کی بابت سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے پر ’’نظرثانی‘‘ کی درخواست کردی گئی۔اس درخواست کو غور سے پڑھیں تو ہم جیسے قانونی باریکیوں سے نابلد افرادبھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ درحقیقت درخواست ’’نظرثانی‘‘ کی نہیں۔اصل خواہش یہ ہے کہ تین رکنی بنچ کے فیصلے کو کسی طرح غیر مؤثر قرار دیا جائے۔
میںاس بحث میں الجھنے کو ہرگز تیار نہیں کہ عمران حکومت کو تین رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف ’’نظرثانی‘‘کی درخواست دائر کرنا چاہیے تھی یا نہیں۔اس کے دائر ہوجانے کے بعد مگر بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس درخواست پر حتمی فیصلے کاانتظار کیا جاتا ہے۔
یہ انتظار کئے بغیرحکومت نے ’’اچانک‘‘ گزرے برس کے آخری دن قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس نئے سال کے پہلے دن طلب کرلئے۔اسلام آباد میں مقیم رپورٹرز انتہائی جائز وجوہات کی بنیاد پر اس ضمن میں دکھائی غیرمعمولی عجلت کی ’’حقیقی وجوہات‘‘ جاننے کو بے چین ہوگئے۔ ’’ذرائع‘‘ سے رجوع کرنے کے بعد ہر رپورٹر نے بالآخر ’’دریافت‘‘ کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کو یقینی بنانے کے لئے ایک قانون تیار کرلیا گیا ہے۔وفاقی کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس بدھ کی صبح ہنگامی بنیادوں پر بلایا گیا۔ ہمیں باور یہ کروایا گیا کہ مذکورہ اجلاس میں متعلقہ قانون کی منظوری دی جائے گی۔یہ منظوری ہوتے ہی بدھ کی شام مجوزہ قانون قومی اسمبلی سے منظوری کے لئے پیش کردیا جائے گا۔قانون سازی کے لئے مروجہ قواعدوضوابط و اپنی اکثریت کی بنیاد پر معطل کرتے ہوئے عمران حکومت بدھ کی شام ہی قومی اسمبلی سے وفاقی کابینہ کا بھیجا مسودہ منظور کروالے گی۔
بدھ کی سہ پہر میںپارلیمان ہائوس پہنچا تو وہاں رپورٹرز کا غیر معمولی ہجوم تھا۔میرے ساتھیوں کی اکثریت بہت اشتیاق سے ’’نئے قانون‘‘ اور اس کی منظوری کی منتظر تھی۔ میں ان دنوں ایک گوشہ نشین صحافی ہوں۔رپورٹروں کے روایتی تجسس اور بے چینی سے محروم ہوچکا ہوں۔ 1985سے مگر ہر پارلیمان کا روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ کیا ہے۔اس تجربے کی روشنی میں چند نوجوان دوستوں سے عرض کرتا رہا کہ اگر حکومت واقعتاًبدھ ہی کی شام ’’نئے قانون‘‘ کو قومی اسمبلی سے منظورکروانے پر ڈٹی ہوتی تو وزیر اعظم ذاتی طورپر اسمبلی میں آ تے۔قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے قبل حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جاتا۔وہاں حکومتی بنچوں پر بیٹھے افراد کو واضح ہدایات دی جاتیں کہ ’’نئے قانون‘‘کو بدھ ہی کی شام ہرصورت منظور کروانا ہے۔مارے احترام کے ساتھیوں نے مجھ سے بحث سے گریز کیا۔ان کی اکثریت مگر اپنے ’’ذرائع‘‘ سے فراہم ہوئی خبر کے بارے میں انتہائی پراعتماد تھی۔میں سرجھکائے پریس گیلری میں چلا گیا۔
اپوزیشن کی بدھ کے اجلاس میں حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ان میں سے کئی ایک نے بلکہ پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے ڈپٹی سپیکر سے گلہ کیا کہ اراکین کو اسلام آباد پہنچنے کے لئے مناسب وقت نہیں دیا گیا۔کراچی،کوئٹہ اور دیگر شہروں میں کئی اراکین ایئرپورٹ پر بیٹھے اسلام آباد جانے والے جہازوں میں نشست حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومتی بنچوں پر حاضری بھی متاثر کن نہیں تھی۔’’ذرائع‘‘ مگر صحافیوں کو بدھ کے روز ہی ’’نئے قانون‘‘ کی منظوری کے لئے تیار کرتے رہے۔بدھ کی شام مگر یہ ہونہ سکا۔ شنید اب یہ ہے کہ مذکورہ قانون جمعہ کی صبح قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔
نظر بظاہر عمران حکومت اس امر پر ڈٹی ہوئی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے واجب اور طویل مشاورت کے بجائے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر قومی اسمبلی سے ’’نئے قانون‘‘ کو قواعد وضوابط معطل کرتے ہوئے عجلت میں منظور کروالیا جائے۔متحرک وزراء کی اکثریت بہت اعتماد اور کافی رعونت سے یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو قانونی بنیادوں پر یقینی بنانے والے ایکٹ آف پارلیمان کی منظوری میں ’’رخنہ اندازی‘‘ کی ’’ہمت‘‘ سے محروم ہیں۔قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد مجوزہ قانون سینٹ سے بھی بآسانی پاس ہوجائے گا۔
میری عاجزانہ رائے میں ایک اہم عہدے کی بابت قانون سازی کے ضمن میں اپنایا حکومتی رویہ طویل المدتی بنیادوں پر طفلانہ اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ بہتر یہی ہوتا کہ پارلیمان اپنی ’’اجتماعی بصیرت‘‘کو نہایت سنجیدگی سے بروئے کار لاتے ہوئے ریاستِ پاکستان کے ایک اہم ترین منصب پر تعیناتی اور مدت ملازمت والے سوالات سے جڑے معاملات کو ہمیشہ کے لئے طے کرنے والی قانون سازی کرتی۔
ان دنوں پارلیمان میں بھاری بھر کم تعداد میں موجودگی کے باوجود ہماری اپوزیشن جماعتیں یقینا پریشان اور بدحال نظر ا ٓرہی ہیں۔ان کی صفوں میں انتشار ہے۔انہیں ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کی اُمیدیں ہیں۔ ’’قبل از وقت انتخابات‘‘ کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔یہ اپوزیشن شاید ہر صورت ’’اسی تنخواہ‘‘ پر ’’جی حضوری‘‘کو تیار ہوگی۔وقت مگر ایک سا نہیں رہتا۔عمران حکومت کو یاد رکھنا ہوگا کہ اس کی قوت واختیار کا اصل منبع فقط پارلیمان ہے۔وہ پارلیمان کو اجتماعی اعتبار سے بے توقیر بنائے گی تو اس کا حتمی خمیازہ اسے ہی بھگتنا ہوگا۔اپوزیشن کو نہیں۔