Site icon DUNYA PAKISTAN

’خود کو محفوظ نہیں سمجھتا مگر اندر نہیں بیٹھوں گا، میرے خلاف کوئی ایسا کیس نہیں جس میں نااہل کیا جا سکے‘

Share

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ سویلین حکومت کے پاس اگر ذمہ داری ہے تو اختیار بھی ان کے پاس ہی ہونا چاہیے، اگر ذمہ داری جمہوری حکومت کی ہو اور اختیار فوج کے پاس رہے، تو کوئی سسٹم نہیں چل سکتا۔

پاکستان کے لیے نمائندہ بی بی سی کیرولین ڈیویز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ آرمی کے حوالے اُن کا مؤقف گذشتہ برسوں کے دوران تبدیل ہوتا رہا ہے اور اب موجودہ وقت میں وہ اس معاملے پر کیا مؤقف رکھتے ہیں؟

اس کے جواب میں سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کا آرمی کے حوالے سے مؤقف زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔

’پاکستان کی تاریخ میں آدھا وقت فوج نے براہ راست حکومت کی ہے جبکہ آدھا وقت بھٹو اور شریف خاندانوں کا اقتدار رہا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی وجہ سے فوج کے سیاسی کردار کو راتوں رات ختم کرنا ممکن نہیں۔‘

انھوں نے کہا ’لیکن شروعات ایسے ہو سکتی ہے کہ سویلین حکومت کے پاس اگر ذمہ داری ہے تو اختیار بھی ان کے پاس ہی ہونا چاہیے۔‘

اس انٹرویو کے دوران سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد اب وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے ہیں۔

’میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔۔۔ میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتا مگر میں تھوڑی بہت احتیاط برتوں گا، ریلیوں میں خطاب کے دوران میں بلٹ پروف سکرین کا استعمال کروں گا مگر ایسا نہیں ہو گا کہ میں (خوف سے) اندر بیٹھ جاؤں، میں باہر جاؤں گا اور کیمپین کروں گا۔‘

’میرے خلاف ایسا کوئی کیس نہیں، جس میں مجھے نااہل کیا جا سکے‘

جب عمران خان سے سوال کیا گیا کہ آیا ان کو یہ ڈر ہے کہ ان کو نااہل کیا جا سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خلاف ایسا کوئی کیس نہیں، جس میں مجھے نااہل کیا جا سکے۔‘

’میرے خلاف کوئی بھی ایسا کیس نہیں، جس میں مجھے نااہلی کا سامنا کرنا پڑے مگر وہ مجھے نااہل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، میرے خلاف بہت سے کورٹ کیسز ہیں۔ آئے روز وہ میرے خلاف ایک نیا کیس بنا دیتے ہیں۔‘

عمران خان نے کہا کہ اگر ان کو نااہل کر بھی دیا گیا ’تو الیکشن تو ہونے ہیں۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا ایسی صورتحال میں انھوں نے پارٹی کے لیے کوئی لائحہ عمل سوچا ہے اور ان کی غیر موجودگی میں پارٹی کا سربراہ کون ہو گا تو عمران خان نے کہا کہ اس بارے میں ’وقت آنے پر سوچا جائے گا۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے یا انھیں نااہل کر دیا جاتا ہے تو ان کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’ہم مظاہروں کا انعقاد کریں گے۔ ہم پہلے ہی الیکشن کے سال میں ہیں، چنانچہ ہم عوامی مظاہرے کریں گے جیسا کے سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ ہم ماضی میں بھی احتجاج کرتے رہے ہیں اور ہماری تاریخ ہے کہ ہمارے مظاہرے کبھی پرتشدد نہیں ہوئے۔‘

’سب سے پہلے سیاسی استحکام لایا جائے جو جلد از جلد انتخابات سے ہی ممکن ہے‘

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ’معاشی عدم استحکام‘ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ’اس وقت اتنا سیاسی عدم استحکام ہے کہ معاشی استحکام ناممکن ہو چکا ہے جبکہ دوسرا بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی شدت پسندی سے ہے۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اپنے اقدامات کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ نہیں بن رہے کیونکہ آپ دو اسمبلیوں کو تحلیل کر چکے ہیں اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں توانھوں نے جواب دیا کہ ’سیاسی عدم استحکام کا آغاز اس وقت ہوا جب معاشی طور پر بہترین کارکردگی دکھانے والی ایک حکومت کو (تحریک انصاف) سازش کے ذریعے گرائی گئی جس (سازش) کی قیادت ایک آرمی جنرل کر رہے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان معاشی استحکام صرف اور صرف صاف اور شفاف الیکشن کے ذریعے حاصل کر سکتا ہے۔

عمران خان سے سوال کیا گیا کہ ان کے پاس کیا معاشی منصوبہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے سیاسی استحکام لایا جائے جو جلد از جلد انتخابات ہی سے ممکن ہے۔‘

’دوسرے نمبر پر سخت فیصلے کیے جائیں جیسا کہ قانون کی مکمل حکمرانی۔ سرمایہ کار گڈ گورننس کی وجہ سے آتے ہیں جو قانون کی حکمرانی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ اس وقت طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں۔‘

’ایسی صورتحال میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آ سکتی۔ پاکستان کی معاشی بحالی لے لیے سرمایہ کاری لانا ضروری ہے۔‘

’کبھی مغرب پر الزام عائد نہیں کیا کہ انھوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی‘

عمران خان سے سوال کیا گیا کہ جب وہ مغرب خصوصاً امریکہ پر سازش کا الزام لگاتے ہیں اور امریکہ مخالف جذبات کو عوام میں ابھارتے ہیں تو ایسے میں مغربی ممالک ان پر کیوں اعتماد کریں گے اور کیوں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار ہوں گے؟

اس پر انھوں نے کہا کہ ’میں نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی پالیسی پر تنقید کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں امریکہ مخالف ہوں۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’میرا ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ پاکستان کے تمام مغربی ممالک خصوصاً امریکہ سے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں۔‘

ان سے سوال ہوا کہ ماضی میں آپ نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ انھیں نے آپ کو مارنے کی کوشش کی۔ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی مغرب پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انھوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔‘

آئی ایم ایف کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں، ورنہ ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ڈیفالٹ کی صورت میں ملک کو بہت نقصان ہو گا۔ ’سوال یہ ہے کہ کیا اس حکومت میں اتنی صلاحیت ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔‘

’کراچی میں اچھی تنظیم نہیں تھی‘

جب ان سے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوکل الیکشن تھا۔‘

’بلدیاتی انتخابات میں مقامی سطح پر اچھی تنظیم سازی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں بہت ہی بنیادی معاملات ہوتے ہیں، قومی سطح کا ایجنڈا نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے اعتراف کیا کہ ’کراچی میں ہمارے پاس مضبوط تنظیم نہیں تھی‘ تاہم انھوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ پیپلز پارٹی صرف دھاندلی کے نتیجے ہی میں جیت سکتی ہے۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

’طالبان کی واپسی کے بعد ان پر توجہ نہیں دی گئی‘

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی چالیس ہزار کے قریب جنگجو اور ان کے خاندانوں کو پاکستان واپس جانے کا کہا گیا۔

’ان جنگجوؤں اور ان کے اہلخانہ کے ساتھ کیا کرنا ہے اس معاملے پر تمام سٹیک ہولڈرز بشمول سویلین گورنمنٹ اور آرمی متفق تھی۔ پلان یہ تھا کہ ان کو پاکستان میں ریہیبیلیٹیٹ کریں گا مگر بدقسمتی سے اس وقت کے آرمی چیف پولیٹیکل انجینیئرنگ میں مصروف ہو گئے اور کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مجوزہ ریہیبلیٹیشن اب تک نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ سے شدت پسندی کا خطرہ بڑھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں 50 فیصد سے زیادہ بڑھی ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اگر ہم حکومت میں ہوتے تو یہ صورتحال نہیں ہوتی۔

انھوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی میں مختلف دھڑے ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ ان میں تفریق کرے کہ کون سے دھڑے تشدد ترک کر سکتے ہیں اور ریہیبیلیٹ ہو سکتے ہیں۔

’ان میں سے کچھ کی بحالی ممکن ہے اور باقی رہ جانے والوں کے خلاف ریاست طاقت کا استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن طاقت کا استعمال آخری راستہ ہونا چاہیے۔‘

Exit mobile version