سوشل میڈیا وہ جگہ ہے جہاں کوئی بھی کسی بھی وقت ٹرولنگ کی زد میں آسکتا ہے۔ چاہے پھر وہ نامور شخص ہو یا پھر کوئی عام آدمی۔ اکثر تو ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی بھی سوشل میڈیا صارف آپ کی ویڈو یا آپ سے منسلک کوئی مواد اپنے اکاونٹ پر ڈالتا ہے جو وائرل ہو جاتا ہے جس کے بعد آپ کی ٹرولنگ شروع ہو جاتی ہے۔
حال ہی میں ’موٹیویشنل سپیکر‘ قاسم علی شاہ کی چند ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس کے بعد ان کی ٹرولنگ شروع ہو گئی۔ یہ ٹرولنگ اس وقت شروع ہوئی جب انھوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی اور اگلے ہی روز وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے چند کلپ سیاسی سپوٹرز کو تب تک پسند آئے جب تک وہ ان کے لیڈر کے تعریف تک محدود تھے۔ لیکن ملاقاتوں کے بعد ان کے چند ایسے کلپس بھی سامنے آئے جن میں وہ بظاہر عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں جس کے بعد سے انھیں شدید ٹرولنگ کا سامنا ہے جو ان کے مطابق ان تک نہیں رکا بلکہ ان کے بچے کو بھی ٹرول کیا جا رہا ہے۔
’میں نے کون سا جرم کر دیا ہے، مجھے بتائیں؟‘
اس حوالے سے ایک ویڈیو کلپ بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ ان کے بیٹے نے انھیں کال کر کے کہا کہ ’میری پوری کلاس پاپا مجھے بُلی کر رہی ہے، تیرے باپ نے کیا کیا ہے‘۔
اس کے بعد وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے قاسم علی شاہ نے پوچھا کہ ’میں نے کون سے جرم کر دیا ہے، مجھے بتائیں؟ یار کسی کے درد کو محسوس کر کے دیکھیں‘۔
اس کلپ کے وائرل ہونے کے بعد کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ’کسی بھی بچے کو ٹرول کرنا غلط ہے‘۔
یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں ٹرول کیے جانے والے شخص کے ساتھ ساتھ اس کے بچوں اور خاندان کو بھی ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ ماضی میں زیادہ تر ایسے واقعات کی مثالیں دیکھیں تو ان کا سرا بھی سیاست سے ہی جا کر ملتا ہے۔ سیاست میں اختلاف رائے رکھنے یا عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا ایک عام سی بات بنتی جا رہی ہے جس سے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔
’میرے گھر میں دو مرتبہ نامعلوم افراد گھسے‘
ماضی کی ان مثالوں میں صحافی عاصمہ شیرازی بھی شامل ہیں۔ اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے رپورٹنگ کرنا ان کا فرض ہے لیکن اگر وہ رپورٹ کسی مخصوص پارٹی کے حق میں نہ ہو تو انھیں ٹرول کیا جاتا ہے۔
بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ٹرولنگ کا یہ سلسلہ کئی سالوں سے چل رہا ہے اور اس میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ ’میرے اور حامد میرے کے گھروں کا پتہ تک ان لوگوں نے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا تھا جس کے بعد میرے گھر میں دو مرتبہ نامعلوم افراد گھسے۔ ہمیں اور ہمارے خاندان کے لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے لیکن ہم نے کبھی پلٹ کر کسی کو جواب نہیں دیا۔‘
عاصمہ شیرازی کے علاوہ دیگر صحافی بھی اکثر ٹرولنگ کی زد میں رہتے ہیں۔ لیکن ماضی میں ان تمام کیسز میں ان لوگوں اور ان کے بچوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر مختلف قسم کے الزامات بھی لگائے گئے۔
ٹرولنگ کے اثرات
سوشل میڈیا پر بچوں اور فیملی کی ٹرولنگ کے بڑھتے ہوئے منفی رجحان کے بارے میں زیادہ تر سوشل میڈیا ماہرین کا یہ خیال ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ایسی مثالیں بڑھتی جا رہی ہیں جو معاشرے کے لیے نقصان دے ہیں اور ایسے رویوں کے اثرات نفسیاتی طور پر ٹرولنگ کا نشانہ بننے والے پر پڑتے ہیں۔
اس بارے میں ماہر نفسایات ریحا آفتاب کا کہنا ہے کہ ’جب کوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہے تو پھر انسان لوگوں کے لیے ایک چیز بن جاتا ہے۔ ہر شخص سوشل میڈیا پر اپنی ذہنیت، زبان اور مرضی کے مطابق بات کرتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے ہر قسم کا شخص استعمال کرتا ہے۔ اس لیے وہاں اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کمنٹ کرتے ہوئے تمیز اور تہذیب سب بھول جاتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب ٹرولنگ خواتین اور بچوں تک پہنچ جاتی ہے تو آپ دیکھیں گے ان پر ہر قسم کے کمنٹ بھی کیے جاتے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ٹرولنگ کرنے والا شخص یہ نہیں سوچتا ہے کہ اس سب سے ان کی زندگی مزید مشکل بن جاتی ہے جس کا ذاتی زندگی پر بھی بہت گہرا اثر پرتا ہے۔ آپ کی عزت خراب ہوتی ہے۔ آپ کی فیملی، جس میں بچے بھی شامل ہیں ان پر برا اثر پڑتا ہے۔ تو ہر جگہ پر وہ بندہ صدمے سے دوچار ہوتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’ایسے واقعات سے بچے خصوصی طور پر زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کے لیے چیزوں کو سمجھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس سے نفسیاتی طور پر بچوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان کے اندر ڈر اور خوف بیٹھ جاتا ہے، جیسا کہ سوتے ہوئے برے خواب آ سکتے ہیں، وہ واقعہ یا باتیں آپ کو ہر وقت تنگ کر سکتی ہیں، انسان ڈرا ڈرا رہتا ہے، لوگوں سے ملنا اور گھر سے نکلنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ وہ تمام اثرات ہیں جو اس شخص کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔‘