ہماری اشرافیہ اور اُس کی معصومانہ عیاشیاں
’’ایلون مسک، جو کہ دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک ہے، نے 2014 سے 2018 تک صرف تین فیصد سے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔دوسری طرف ،ایبر کرسٹین ہےجو شمالی یوگنڈا کے بازار میں معمولی سی تاجر ہے اور چاول، آٹا اور لوبیافروخت کرکےبمشکل 80 ڈالر ماہانہ منافع کماتی ہے اور چالیس فیصد کی شرح سےٹیکس ادا کرتی ہے۔‘‘
یہ اُس رپورٹ کا پہلا جملہ ہے جو آکسفیم نے حال ہی میں شائع کی ہے ۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں ایک فیصد امیر ترین افرادنے دنیا کی تمام نئی دولت کے تقریباً دو تہائی حصےپر قبضہ کیا،ارب پتیوں کی دولت میں یومیہ 2.7 بلین ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہے،کھانا بنانے اورتوانائی کی کمپنیوں نے 2022 میں اپنے منافع کو دگنا کیااور اپنی کمپنی کے دولت مند حصہ داروں کو 257 بلین ڈالر کا منافع ادا کیاجبکہ اسی دوران دنیا کے80 کروڑ سے زیادہ افراد رات کوبھوکے سو ئے۔دنیا میں امرا اپنی دولت پر جتنا ٹیکس دیتے ہیں اُس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر ایک ڈالر جو ٹیکس کی مد میں اکٹھا ہوتا ہے اُس میں سے صرف چار سینٹ دولت ٹیکس کے ہوتے ہیں جبکہ دنیا کے نصف ارب پتی ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں انہیںوراثت پر کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتااور یوں وہ دولت اُن کے بچوں کو باآسانی منتقل ہوجاتی ہے ۔اگر دنیاکے ارب پتیوں اور کھرب پتیوں سے صرف پانچ فیصد تک ہی حقیقی ٹیکس وصول کرلیا جائے تو سال کے پونے دو کھرب ڈالر اکٹھے ہوجائیں گے جن سے دنیا کے دو ارب افراد کو غربت کی دلدل سے باہر نکالا جا سکتا ہے ۔
آکسفیم کی رپورٹ پڑھ کردوبارہ اِس بات پر یقین پختہ ہوجاتاہے کہ یہ دنیا نا انصافی پر کھڑی ہے ، انسان جتنی جلدی اِس حقیقت کو قبول کر لےاتنا ہی سکھ میں رہے گا مگر فی الوقت اِس رپورٹ کا فلسفیانہ پہلو زیر بحث نہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ اِس نا انصافی سے نجات کیسے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ظاہر ہے کہ اِس کا کوئی فوری اور مستقل حل نہیں ، یہ ایک جہد مسلسل ہے اورہمارے جیسے ممالک میں تو یہ کام اور بھی مشکل ہے مگر آکسفیم کی رپورٹ میں اچھی بات یہ ہے کہ اِس میں محض نا انصافی کی نشاندہی نہیں کی گئی بلکہ مسئلے کاکچھ نہ کچھ حل بھی پیش کیا گیاہے جو ایسا ناقابل عمل بھی نہیں۔حکومتوں کو صاحب ثروت افراد کی دولت اور ’غیر متوقع منافع‘ پر ٹیکس عائد کردینا چاہئے ، اِس کے بعدایک فیصد امیر ترین افرادکی آمدنی پر ساٹھ فیصد تک ٹیکس وصول کرنا چاہئےتاکہ دولت کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی ہو اور پھر اِن ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی کو صحت ، تعلیم اور غربت ختم کرنے کے منصوبوں پر خرچ کرنا چاہئے ۔
آکسفیم کی رپورٹ نے بلاشبہ عالمی ناانصافی کا پردہ چاک کیا ہے مگر دنیا کے امیر ممالک بہرحال اپنے عوام کو تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور انصاف جیسی بنیادی سہولتیں قدرے بہتر طریقے سے فراہم کررہے ہیں جو پاکستان جیسے ممالک میں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔وجہ وہی ہے کہ یہاں کی اشرافیہ نے وسائل پر قبضہ کر رکھا جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے آٹھ سو امیر ترین خاندان جو ایکسپورٹ کے کاروبار میں ہیں ، حکومت کو بلیک میل کرکے سالانہ ایک ارب ڈالر کی سبسڈی ہتھیا لیتے ہیں ،یہ سبسڈی انہیں بجلی اور گیس کے رعایتی نرخوں کی صورت میں دی جاتی ہے ۔دوسری مثال عالیشان کلبوں کی ہے جن سے ہماری اشرافیہ کے شاہانہ طرز زندگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اسلام آباد کلب 353 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور یہ قیمتی زمین حکومت نے صرف27ہزارروپے سالانہ کرائے پر دے کر رکھی ہے جبکہ لاہور جمخانہ کے پاس 128 ایکڑ زمین ہے جو شہر کے قلب میں واقع ہے اور اس کا سالانہ کرایہ فقط 5 ہزار روپے ہے ،باقی شہروں کے سول اور فوجی کلب اِس کے علاوہ ہیں جو شاید کھربوں روپیوں کی حکومتی سبسڈی پر پل رہے ہیں ۔ایک ایسا ملک جو کشکول اٹھائے پوری دنیا میں پھر رہا ہو، جو ایک ایک ڈالر کے لئے دوسری حکومتوں کی منتیں کررہا ہو اور جہاں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہوں وہاں ریاست کا اشرافیہ پر کھربوں روپے خرچ کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اگرآپ کا کوئی ضرورت مند دوست یا رشتہ دار آپ سے کاروبار کے لئے ادھار مانگے تو آپ میں سے اکثر لوگ شایداِس امید پرقرض دے دیںکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے لیکن اگر وہ شخص قرض لینے کے بعد اُن پیسوں کو عیاشی میں لٹا دے تو کیا آپ اسے دوبارہ قرض دیں گے ؟ یقینا ً نہیں ۔ ایسا ہی حال ہمارا ہے ۔ ہم نے اشرافیہ پر ٹیکس عائد کرنے کی بجائے اسے کھربوں روپے کی چھوٹ دی ہوئی ہے ، ایسے میں جب آئی ایم ایف یا کوئی عالمی ادارہ ہمیں کہتا ہے کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کرو، اُس کے بعد قرض کی بات کرناتو ہم کہتے ہیں کہ یہ بات ہماری غیرت اور حمیت کے خلاف ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں ڈکٹیشن دے۔ ہماری غیرت اور حمیت کا یہ حال ہے کہ ہم نے بہت جذبے سے کہا تھا کہ ایٹم بم بنائیں گے، چاہے گھا س ہی کیوں نہ کھانی پڑے ، اب گھاس کھانے کا وقت آگیا ہے تو مسئلہ کیاہے!
ہماری معیشت اِس سے پہلے بھی کئی مرتبہ مشکلات کا شکار رہی مگر جو حالات اِس وقت ہیں وہ میں نے پہلے نہیں دیکھے۔پہلے مانگ تانگ کر ہمارا کام چل جاتا تھا لیکن اب ایسے کام نہیں چلے گا، اب یہ تمام عیاشیاں بند کرنی ہوں گی،ارب اور کھرب پتیوں کی جائیدادوں پر ٹیکس عائد کرنا پڑے گا، ہر قسم کے کلبوں کو دی جانے والی رعایت ختم کرنی ہوگی،امیر ترین افراد کو ایکسپورٹ کے نام پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینی ہوگی اور یہ تمام پیسے اکٹھے کرکے صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں پر خرچ کرنا ہوں گے ۔یہ کوئی انوکھے اور ناقابل عمل کام نہیں ، دنیا کے کئی ممالک نے یہ کام کئے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں ، مسئلہ صرف سیاسی ارادے کا ہے ، آج ہم چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ کرنے سے پہلے بھی خوفزدہ ہوکرسوچتے ہیں کہ نہ جانے اِس کا سیاسی رد عمل کیا ہوگا، اِس خوف کے زیر اثر کوئی کام نہیں ہوسکتا ، ہماری قیادت کو اِس خوف سے جان چھڑانا ہوگی ۔