چند مہینوں سے کبھی کبھار محض شک ہورہا تھا۔اب مگر یقین آنا شروع ہوگیا ہے کہ میرا دماغ کھسک گیا ہے۔کچھ دن قبل عمران خان اور ان کے سیاسی مخالفین نے ایک دوسرے کو حیران وپریشان کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے بساطِ سیاست پر ’’نیند اڑادینے والی‘‘ چالیں چلیں۔’’سینئر تجزیہ کار‘‘ مشہور ہونے کی وجہ سے مجھے ان کی وجوہات اور عواقب کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے تھا۔میرے ذہن میں لیکن ستیہ جیت رائے کی منشی پریم چند کے افسانے سے متاثر ہوکر بنائی فلم -شطرنج کے کھلاڑی- کے مناظر گھومنا شروع ہوگئے۔سلطنت اودھ کا زوال یاد آیا جبکہ ہمارے ایوان ہائے اقتدار میں واجد علی شاہ پیا جیسے افراد بھی موجود نہیں جو اپنی ہزیمت کو شاعری اور موسیقی میں تخلیقی تجربات کے ذریعے بھلانے کی کوشش کرتے نظر آئیں۔
پیر کی صبح خلاف معمول دیر سے اٹھا۔صبح کے تقریباََ دس بجے تھے ۔ملازم مجھے بیدار ہوا دیکھ کر چائے کا پیالہ لایا تو اطلاع دی کہ ہمارے گھر میں صبح ساڑھے سات بجے سے بتی نہیں ہے۔اسلام آباد میں اکثر ’’مین ٹینس‘‘ کے بہانے صبح نو بجے سے دوپہر تک بجلی غائب ہوجاتی ہے۔فرض کرلیا کہ ایسا ہی معاملہ ہوگا۔بالآخر اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا تو خبر ملی کہ اب کی بار اسلام آباد ہی نہیں ہمارے ملک کے ہر شہر اور قصبے میں بجلی میسر نہیں۔ ’’نیشنل گرڈ‘‘ نام کی کوئی شے ہوتی ہے۔وہاں کوئی ’’فالٹ‘‘ ہوا ہے۔ہمارے گھروں کو بجلی فراہم کرنے والا نظام اس کی وجہ سے مفلوج ہوگیا ہے۔بجلی کے وزیر خرم دستگیر خان سے منسوب ایک ٹویٹ پر بھی نگاہ پڑی۔موصوف اس کے ذریعے ’’یقین دہانی‘‘ نشر کرتے سنائی دئے کہ نظام بحال ہونے میں بارہ سے زیادہ گھنٹے نہیں لگیں گے۔
دریں اثناء ہمارے ہاں لگا یوپی ایس بھی تھک کر بند ہوچکا تھا۔قلم اور کاغذ اٹھاکر لان میں چلا گیا۔سردی سے کپکپاتے ہوئے کالم لکھ دیا۔ہاتھ سے کالم لکھ کر میں ٹائپ کرنے کو واٹس ایپ کے ذریعے ایک معاون کو بھجواتا ہوں۔اسے لکھے ہوئے دو صفحات موبائل فون کے ذریعے بھیج دئے تو کافی انتظار کے بعد میری سکرین پر سیاہ رنگ کی فقط ایک ٹک نمودار ہوئی۔واٹس ایپ استعمال کرنے کے عادی جانتے ہیں کہ ایسی ٹک اس امر کا اظہار ہوتی ہے کہ میرا پیغام ہوا میں تو چلا گیا ہے مگر منزل مقصود تک ابھی نہیں پہنچا۔پریشان ہوکر مسلسل اپنا فون چیک کرتا رہا۔تقریباََ دو گھنٹوں کی اذیت کے بعد دوسری ٹک بھی نمودار ہوگئی۔ وہ مگر نیلی نہیں تھیں جو اطمینان دلاتی ہیں کہ جسے پیغام بھیجا تھا اس نے اسے دیکھ لیا ہے۔بالآخر ساڑھے چار بجے کے قریب اطمینان نصیب ہوا۔ میرے معاون نے جانے کیسے اپنے فون کو چارج کیا اور میرے لکھے مسودے کو ٹائپ کرکے مجھے پروف ریڈنگ کے لئے بھجوادیا۔کالم کا دفتر پہنچ جانا یقینی محسوس ہواتو میرا فون فارغ ہوگیا۔اسے چارج کرنے کا وسیلہ میسر نہیں تھا۔اسے بستر پر پھینکا اور کمبل میں گھس کرسوگیا۔
چھ بجے کے قریب آنکھ کھلی تو خیال آیا کہ بازار سے موم بتیاں خرید کر روشنی کا بندوبست کیا جائے۔اس ارادے سے بھاری جیکٹ پہن کر گھر سے نکل رہا تھا تو لوہے سے بنائی کڑاہی میں کوئلے ڈال کر اس کے گرد بیوی اور بچیاں صحن میں بیٹھی نظر آئیں۔چاند ذرا روشن تھا۔بیگم صاحبہ نے اطلاع دی کہ وہ موم بتیاں خریدنے بازار کا پھیرالگاچکی ہیں۔ہمارے گھر کے قریب واقع مارکیٹ سے مگر وہ آٹھ سے زیادہ میسر نہ ہوئیں۔ ان بتیوں کو اس نے رات کو استعمال کرنے کیلئے بچارکھا ہے۔میں ان میں سے اپنے کمرے کے لئے دو موم بتیاں لے سکتا ہوں۔اس کے دلائے اطمینان کے باوجود بازار کی جانب روانہ ہوگیا۔وہاں زیادہ تر دوکانیں بند ہوچکی تھیں۔ایک مشہور ریستوران کے مالک میرے دیرینہ شناسا ہیں۔انہوں نے اطلاع دی کہ گاہکوں کی کثیر تعداد نے مارکیٹ میں موجود دوکانوں پر فقط موم بتیوں کی خرید ہی نہیں کی۔کئی خاندانوں نے بھاری مقدار میں چپس اور بسکٹوں کے پیکٹس بھی خریدے۔ ’’ہنگامی حالات‘‘ کی طوالت کے خوف سے اسلام آباد کے مکین بنیادی ضرورت کی اشیاء ’’ذخیرہ‘‘ کرنے کی فکر میں مبتلا تھے۔
مارکیٹ کی داخلی سمت پر موجود پیٹرول پمپ پر گاڑیوں کی خلاف معمول طویل قطار بھی نظر آئی۔اخبار نویس کے جبلی تجسس سے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو دریافت ہوا کہ قطار میں کھڑے افراد یہ طے کرچکے ہیں کہ ’’مین گرڈ میں فالٹ‘‘ فقط بہانہ ہے۔درحقیقت حکومت بجلی بنانے کے لئے درکار تیل کے ممکنہ ’’قحط‘‘ سے گھبرا گئی ہے۔عام صارف کو بھی اب پیٹرول کی شدید کمی کا عذاب بھگتنا ہوگا۔ گاڑیوں کے علاوہ ایک اور قطار بھی تھی اس میں کھڑے افراد اپنے جنریٹروں کو رواںرکھنے کیلئے آئندہ دنوں کے استعمال کے لئے ڈیزل خریدنا چاہ رہے تھے۔
جو مناظر دیکھے ان کی وجوہات جاننے پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے میرے کھسکے ذہن میں 1965ء کے برس کے دوران مشاہدے میں آئے مناظر گھومنا شروع ہوگئے۔6ستمبر1965ء کی صبح لاہور پر بھارتی افواج حملہ آور ہوئی تھیں۔اس کے نتیجے میں 17دنوں تک پاک-بھارت جنگ ہوئی۔اس جنگ کے دوران ہم اپنے گھر کی کھڑکیوں کوبوریوں اور اخبارات سے ڈھانپنے کے بعد لالٹین جلاکر کمروں کو روشن رکھتے تھے۔جنگ بندی ہوجانے کے کئی ہفتے بعدبھی ’’شہری دفاع‘‘کی ’’مشقیں‘‘ جاری رہیں۔ ان کے دوران ہم قندقیں کھودنا اور ان میں پناہ لینے کی عادت اپنانے کی کوشش کرتے۔
میرے منہ میں خاک۔پیر کے دن مشاہدے میں آئے مناظر کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں میرے وسوسوں بھرے دل میں یہ خیال جم سا گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم لاشعوری طورپر ان دنوں ’’ہنگامی حالات‘‘ میں زندہ رہنے کی مشق سے گزررہے ہیں۔حکمرانوں کو ایسے عالم میں ہمارے دلوں میں امید زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہوتی ہے۔
شہباز شریف صاحب نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کامل دس برس تک اپنے بارے میں یہ تاثر پھیلایا کہ وہ ’’ہنگامی حالات‘‘ بھاپنتے ہی بھرپور توانائی سے متحرک ہوجاتے ہیں۔ان کے اندازِ حکمرانی کو اگرچہ میں نے شاذ ہی سراہا۔اسے ’’ٹاپ ڈائون گورننس‘‘ کا اظہار ٹھہراتے ہوئے تنقید کا نشانہ ہی بناتا رہا۔گزشتہ برس کے اپریل میں وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز صاحب نے مگر اپنی ذات سے وابستہ شہرت بہت تیزی سے کھودی ہے۔گزشتہ کئی دنوں تک لاہور ہی میں خود کو ’’محصور‘‘کئے محسوس ہوئے ہیں۔