بدھ کی صبح سے رات گئے تک روایتی اور سوشل میڈیا کی تمام تر توجہ فواد چودھری کی گرفتاری پر مرکوز رہی۔ اس توجہ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے میں گھبرا گیا۔پیغام یہ ملا کہ 2011ء سے ہم پر نازل ہوئی اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم پریشان کن حد تک شدید تر ہورہی ہے۔شہباز گل اور اعظم سواتی کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا اس کے بارے میں عمران مخالفین کا رویہ نسبتاََ مدافعانہ تھا۔ فواد چودھری کی گرفتاری کو لیکن وہ سینہ پھلاکر جائز اور واجب ٹھہرارہے ہیں۔ باقی صدیقی کی غزل میں بیان کردہ ’’داغ دل‘‘ انہیں شدت سے یاد آئے۔ چودھری صاحب کا اپنے مخالفین کی بھد اڑانے کے لئے اپنایا رویہ ایسے ردعمل کا واحد سبب نہیں تھا۔خود کو’’ٹکر کے لوگ‘‘ پکارنے والے عاشقان عمران خان کو ان کی ’’اوقات‘‘ یاد دلانے کی کوشش بھی ہوتی رہی۔ یوں کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کی جارہی ہے کہ ’’ٹکر کے لوگوں‘‘ کی بھد اڑاتے ہوئے تحریک انصاف کے دیرینہ مخالف ریاستی جبر پر مبنی ’’سسٹم‘‘ کی بالادستی کو بھی تسلیم کررہے ہیں۔ فقط اس امر کی بابت خوش ہیں کہ ’’سسٹم‘‘ اب عمران خان کے حامیوں کا ’’مکو ٹھپنے‘‘ کی جانب راغب ہوگیا ہے۔
اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوا میں اگرچہ یہ سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ عمران خان برسراقتدار ہوں یا ان کے مخالفین،علی وزیر جیسے سیاسی کارکن مستقل ’’سسٹم‘‘ کی ز د میں رہتے ہیں۔چند برس قبل کراچی میں نقیب اللہ محسود نام کا خوبرو نوجوان ’’دہشت گرد‘‘تصور ہوتے ہوئے پولیس کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا۔پولیس کے ایک دبنگ افسر رائو انوار اس کے قتل کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے۔موصوف کئی دنوں تک گرفتاری سے بچنے کے لئے ’’زیر زمین‘‘ چلے گئے۔ بالآخر بہت عزت واحترام کے ساتھ خود کو ’’بابا رحمتے‘‘ کہلوانے کے شوقین ثاقب نثار کے روبرو سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔طویل عدالتی عمل کے بعد رواں ہفتے کے آغاز میں بے گناہ قرار پائے ہیں۔ان کی عدالت سے تسلیم شدہ ’’بے گناہی‘‘ پشتون نوجوانوں پر مبنی ایک تنظیم کو چراغ پا بنائے ہوئے ہے۔ بدھ کے روز وہ اس ضمن میں اپنی مایوسی کا ا ظہار کرنا چاہ رہے تھے۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر توجہ رکھنے کے باوجود میں جان نہیں پایا کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں مایوسی کا اظہار کس انداز میں ہوا ہے۔
میرے آبائی شہر لاہور کی آبادی اب دو کروڑ کو چھوتی بتائی جارہی ہے۔ وہاں ’’اندرون شہر‘‘ سے کامل کٹا ایک علاقہ زمان پارک بھی ہے۔یہاں کے مکین بہت خوش حال ہیں۔نامی گرامی ’’اشرافیہ‘‘ ہیں۔عمران خان صاحب گزشتہ کئی مہینوں سے وہاں موجود اپنے آبائی گھر میں ’’پناہ گزین‘‘ ہیں۔گزرے برس کے نومبر کے ابتدائی دنوں میں وزیر آباد میں ہوئے قاتلانہ حملے کے بعد وہ ٹانگ پر لگے زخموں کی وجہ سے شہر شہر جاکر اپنے حامیوں کو بھرپور انداز میں متحرک نہیں کرسکتے۔ منگل کی شام سے مگر افواہ پھیلی کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہوجانے کے بعد ’’سسٹم‘‘ اب انہیں گرفتار کرنا چاہ رہا ہے۔ عاشقان عمران ممکنہ گرفتاری کی مزاحمت کے لئے زمان پارک میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ میں ان کے جذبے کو دیانتداری سے سراہتا ہوں۔صحافی کی جبلت مگر یہ سوال اٹھانے کو بھی مجبور کررہی ہے کہ لاہور کی آبادی کے تناظر میں زمان پارک میں جمع ہوا ہجوم اپنی تعداد کے اعتبار سے کس تناسب کا حامل ہے۔
تناسب کا تقاضہ کرتے ہوئے یاد آتا ہے کہ پاکستان ہی کا ایک شہر گوادر بھی ہے۔ہمارے یار چین نے وہاں قائم بندرگاہ کو خطیر سرمایہ کاری سے جدید تر بنایا۔ہمیں یہ خواب دکھائے گئے تھے کہ چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے جدید تر ہوئی بندرگاہ گوادر کوکراچی کے مقابلے کا شہر بنانا شروع ہوجائے گی۔وہاں لنگر انداز ہوئے جہازوں سے عالمی منڈی سے جو درآمدات وبرآمدات ہوں گی وہ گوادر کو چین کے سنکیانگ صوبے کے ساتھ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘کے عنوان سے جوڑدیں گی۔ گوادر کے شہری مگر عورتوں اور بچوں سمیت کئی ہفتوں تک سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔ انہیں پینے کے لئے پانی درکار تھا۔ اس امر کو بھی یقینی بنانا تھا کہ ان کا ساحل دیگر ممالک اور شہروں سے آئے دیوہیکل کشتیوں سے محفوظ رہے جو گوادر کے پانیوں میں موجود جھینگوں اور مچھلیوں کی مختلف اقسام کو مزید افزائش کے قابل بھی نہیں رہنے دیتیں۔ مذکورہ احتجاجی تحریک کاملاََ بنیادی انسانی حقوق کے حصول پر ا نحصار کئے ہوئے تھی۔نام نہاد ’’علیحدگی پسند‘‘ اور پرتشدد تحریک سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔دین ومذہب کے جذبات پر مبنی جماعت اسلامی کے ایک مقامی رہ نما مذکورہ تحریک کے قائد تھے۔ ’’سسٹم‘‘ نے وہ تحریک مگر اب دبادی ہے۔مولوی ہدایت اللہ بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔گوادر کے حقوق کے لئے چلائی تحریک اور اس کے خلاف ’’سسٹم‘‘ کا متحرک ہونا ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں لیکن بھرپور توجہ حاصل نہیں کرپایا جو زمان پارک میں جمع ہوئے جذباتی ہجوم یا فواد چودھری کی گرفتاری کو میسر ہے۔
رائو انوار کے ’’باعزت بری‘‘ ہوجانے کی وجہ سے ابھرے جذبات اور گوادر کے حالیہ واقعات کو ذہن میں رکھوں تو میڈیا پر چھائے رحجانات کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ ان دونوں واقعات کے بارے میں خود کو بے بس ولاچار محسوس کرتے پاکستانی پنجاب تک محدود ہوتے ہوئے شوروغوغا کی بابت کیا سوچ رہے ہوں گے۔یہ تصور کرنے کو وہ کیا حق بجانب نہیں ہوں گے کہ لاہور،اسلام آباد اور کراچی میں بیٹھ کر میڈیا کا بیانیہ تشکیل دینے والے ان کے جذبات پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔فرض کیا ان کے دلوں میں وہی سوچ ابھررہی ہے جس کا مجھے خدشہ ہے تو ’’قومی اور ملی یکجہتی اور یگانگت‘‘ کی فضا کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟
سندھ میں بھی حال ہی میں ریکارڈ بناتی بارشوں کی وجہ سے جو تباہی ہوئی اسے عالمی اداروں نے بھی مناسب حد تک جان لیا ہے۔روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے نازل ہوئی مہنگائی اور کساد بازاری کے باوجود خوشحال ممالک کے چند صاحب دل افراد اور ادارے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے ’’کچھ‘‘کرنا چاہ رہے ہیں۔ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں لیکن اس جانب توجہ ہی نہیں دی جارہی۔ہماری ریاست کو ’’دیوالیہ‘‘ ہونے سے بچانے کو بے چین ’’ماہرین معیشت‘‘ فقط ایک ہی مطالبہ دہرارہے ہیں اور وہ یہ کہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر کو بازار کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے۔آئی ایم ایف کی عائد کردہ تمام تر شرائط سرجھوکاکر قبول کرلی جائیں تانکہ بازار میں ’’رونق‘‘ لگے۔ جس ’’رونق‘‘ کی امید باندھی جارہی ہے وہ میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے پاکستانیوں کے کیا کام آئے گی؟اس سوال کا تسلی بخش جواب جناتی انگریزی میں معاشیات کی ’’مبادیات‘‘ ہم جاہلوں کو سمجھانے والے فراہم کرنے کا تردد ہی نہیں فرمارہے۔