فیچرز

شہنشاہ اکبر کی ’آیا‘ ماہم انگہ: مغل سلطنت کی طاقتور ترین خاتون جن کے زوال کا باعث ان کا بیٹا بنا

Share

ماہم انگہ مغل شہنشاہ ہمایوں کے رضاعی بھائی ندیم خان کی بیوی تھیں اور اسی رشتے سے اُن کی بھابھی تھیں۔

شیر شاہ سوری سے شکست کے بعد ہمایوں اور ان کی بیوی حمیدہ بانو بیگم سیاسی حمایت کے لیے فارس (ایران) گئے تو ندیم خان اُن کے ساتھ تھے۔ اپنے دو بیٹوں قلی خان اور ادھم خان کے ساتھ ساتھ ان کی بیوی کے ذمے مغل سلطنت کے شیرخوار وارث اکبر کی دیکھ بھال بھی تھی۔

اگرچہ ماہم انگہ نے اکبر کو دودھ نہیں پلایا مگر وہ ان کو دودھ پلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والی دس خواتین کی سربراہ تھیں۔

ان میں جیجی انگہ بھی شامل تھیں، جن کے شوہر شمس الدین محمد خان عرف اتگا خان (رضاعی باپ) نے ایک بار ہمایوں کی جان بچائی تھی۔

اکبر نامہ میں ذکر ہے کہ کیسے ’پاکی کے گنبد میں بیٹھنے والی جیجی انگہ، پاک دامنی کا نقاب باندھنے والی ماہم انگہ اور دیگر عورتوں کی مخالفت کی وجہ سے رنجیدہ خاطر تھیں اور ان کے حضرت جہانبانی جنت آشیانی (ہمایوں) سے یہ کہنے پر نہایت دل تنگ تھیں کہ وہ جادو کرتی ہیں کہ شہزادے ان کے سوا کسی کے دودھ کی طرف توجہ نہیں فرماتے۔‘

ذرا آگے چل کر ابوالفضل، اکبر کی زبانی ایک واقعہ لکھتے ہیں۔ ’ایک سال تین ماہ کی عمر کے اکبر تب قندھار میں تھے۔ ایک روز ماہم انگہ کہ اس اقبال کے نئے پودے (اکبر) کی دائگی اور خدمت میں قیام کرتی تھیں، (ہمایوں کے بھائی) مرزا عسکری سے عرض کیا کہ بزرگوں کی رسم ہے کہ جب بیٹے کے پاؤں سے چلنے کا زمانہ پہنچتا ہے، باپ یا بڑا باپ یا وہ شخص کہ جو عرف میں ان کے قائم مقام ہو سکتا ہے اپنی پگڑی کو اتار کر اس بیٹے کے چلنے کے وقت مارتا ہے۔

’حضرت جہانبانی (ہمایوں) تو موجود نہیں ہیں آپ ان کی جگہ بزرگ باپ ہیں مناسب ہے کہ یہ شگون کہ گویا نظربد کا دور کرنے والا ہے، پورا کریں۔ مرزا نے اسی دم اپنی پگڑی اتار کر میری طرف پھینکی اور میں گِر پڑا۔‘   

ہمایوں اپنی سلطنت دوبارہ حاصل کرنے ہندوستان لوٹے تو اکبر 13 سال کے تھے۔ دلی واپسی پر شاہی خواتین تو کابل میں رہیں، ماہم انگہ ان کے ساتھ آئیں۔

اگلے ہی سال ہمایوں کی وفات ہو گئی۔ ماہم انگہ وہیں موجود تھیں جب 14 سالہ اکبر کو ان کے جرنیل بیرم خان نے شہنشاہ کا تاج پہنایا اور خود کو وکیلِ سلطنت (وزیراعظم) مقرر کیا۔

اکبر، بیرم خان
،تصویر کا کیپشنجرنیل بیرم خان نے 14 سال کے اکبر کو شہنشاہ کا تاج پہنایا

اکبر انھیں ’خان بابا‘ کہتے تھے اور وہ رشتے میں ان کے پھوپھا بھی تھے۔ جب اکبر کے کہنے پر شاہی خواتین کابل سے آگرہ آئیں تو یہ انگہ ہی تھیں جنھوں نے شہر سے باہر ان کا استقبال کیا۔

بیرم خان، شہنشاہ  سے ماہم انگہ کی قربت سے گھبراتے تھے کیونکہ وہ آہستہ آہستہ نوجوان حکمران پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی تھیں۔

لیکن اس سے پہلے کہ بیرم خان اس بارے میں کچھ کر پاتے، ماہم انگہ نے اکبر کو بیرم خان کو مکہ کی زیارت پر بھیجنے پر آمادہ کیا۔

یوں تکنیکی طور پر (اگرچہ سرکاری طور پر نہیں)  انھیں جلاوطن کر دیا گیا۔ بیرم خان بے اختیار رہ گئے۔ سنہ 1561 میں مبارک خان لوہانی کی قیادت میں افغانوں کے ایک گروہ کے ہاتھوں گجرات سے سفر کرتے ہوئے مارے گئے۔

لوہانی کے والد 1555 میں ماچھی واڑا کی جنگ میں مغلوں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔

دربارِ اکبری میں محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ ’خان خانان (بیرم خان) کے دشمن تو بہتیرے تھے مگر ماہم بیگم، ادھم خان، ان کا بیٹا، شہاب خان، ان کا رشتے کا داماد، اور اکثر رشتہ دار ایسے تھے کہ اندر باہر ہر طرح کی عرض کا موقع ملتا تھا۔‘

’اکبر ان کا اور ان کے لواحقوں کا حق بھی بہت مانتے تھے۔  جو ان میں سے موقع پاتا تھا بات بات پر اُکساتا تھا کہ یہ حضور کو بچہ سمجھتا ہے اور خاطر میں نہیں لاتا۔ بلکہ کہتا ہے کہ میں نے تخت پر بٹھایا۔ جب چاہوں اٹھا دوں اور جسے چاہوں بٹھا دوں۔‘

’خان خانان نے دیکھا کہ دربار کا رنگ بے رنگ ہے تو۔۔۔ عرضی لکھی۔۔۔ کہ جو خانہ زاد اس درگاہ کی خدمت وفا و اخلاص سے کرتے ہیں غلام کے دل میں ہرگز ان کی طرف سے برائی نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’یہاں کام حد سے گزر چکا تھا۔ تحریر کا اثر کچھ نہ ہوا۔۔۔ شہاب الدین احمد خاں باہر وکیل مطلق ہو گئے، ماہم اندر ہی اندر بیٹھی حکم احکام جاری کرنے لگیں۔ اور مشہور کر دیا کہ خان خانان حضور کی غضبی میں آئے۔۔۔ امرا اور ملازم دربار جو آگرہ میں خان خاناں کے پاس تھے۔

’اٹھ اٹھ کر دلی کو دوڑے۔ دامن گرفتہ لوگ اپنے ہاتھ کے رکھے ہوئے نوکر الگ ہو ہو کر چلنا شروع ہوئے یہاں جو آتا ماہم اور شہاب الدین احمد خاں اس کا منصب بڑھاتے۔ جاگیریں اور خدمتیں دلواتے۔‘

اکبر، ادھم
،تصویر کا کیپشنماہم انگہ کے بیٹے ادھم خان اکبر کا استقبال کرتے ہوئے

ابوالفضل اکبر نامہ میں کئی ورق کا ایک فرمان لکھتے ہیں کہ ’دربار سے اس محروم القسمت کے نام جاری ہوا تھا۔ ایک بار شاہی لشکر اور بیرم خان میں لڑائی بھی ہوئی مگر سب مورخ بالاتفاق لکھتے ہیں کہ بیرم خاں کی نیت میں فساد نہ تھا۔۔۔ جب بادشاہی خیمہ کا کلس نظر آیا تو گھوڑے سے اتر پڑا۔‘

’خود بکتر سے تلوار کھول کر گلے میں ڈالی، پٹکے سے اپنے ہاتھ باندھے، عمامہ سر سے اتار کر گلے میں لپیٹا۔ خیمہ کے پاس پہنچے تو خبر سن کر اکبر بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ خان خانان نے دوڑ کر سر پاؤں پر رکھ دیا اور رونے لگے۔‘

’بادشاہ بھی ان کی گودوں میں کھیل کر پلے تھے۔ آنسو نکل پڑے۔ اٹھا کر گلے سے لگایا اور دست راست پر پہلو میں بٹھایا۔ خود ہاتھ کھولے۔ دستار سر پر رکھی۔ ایک ساعت کے بعد اکبر نے کہا کہ خان بابا اب صورتیں تین ہیں پہلی یہ کہ حکومت کو جی چاہتا ہے تو چند یری و کالپی کا ضلع لے لو۔ وہاں جاؤ اور بادشاہی کرو۔‘

دوسری یہ کہ مصاحبت پسند ہے تو میرے پاس رہو، جو عزت و توقیر تمہاری تھی اور اس میں فرق نہ آئے گا۔

اور تیسری یہ کہ حج کا ارادہ ہو تو بسم اللہ، روانگی کا سامان خاطر خواہ ہو جائے گا۔ چندیری تمہاری ہو چکی۔ محاصل تمہارے گماشتے جہاں کہو گے پہنچا دیا کریں گے۔

خان خاناں نے عرض کی اب عمر آخر ہوئی کوئی ہوس باقی نہیں۔ تمنا ہے تو یہی ہے کہ آستانہ الٰہی پر جا پڑوں اور حضور کی عمر و دولت کی دعا کیا کروں۔

غرض حج کی بات قائم ہو گئی۔ حضور نے خلعت خاص اور خاصہ کا گھوڑا عنایت کیا۔ حاجی محمد خاں سیستانی تین ہزاری امیر، ان کا مصاحب اور قدیمی رفیق تھا۔ بادشاہ نے فوج دے کر رستہ کی حفاظت کے لیے ساتھ کیا۔‘

’سلیم شاہ کے محلوں میں ایک کشمیرن بی بی تھی۔ اس سے سلیم شاہ کی ایک بیٹی تھی۔ وہ خان خاناں کے لشکر کے ساتھ حج کو چلی تھی۔ وہ خان خانان کے بیٹے مرزا عبدالرحیم کو بہت چاہتی تھی۔ اور وہ لڑکا بھی اس سے بہت ہلا ہوا تھا اور خان خانان اپنے فرزند یعنی مرزا عبدالرحیم سے لڑکی کی شادی کرنا چاہتا تھا۔‘

’اس بات کی افغانوں کو بہت خار تھی۔ ایک دن مغرب کے وقت کشتی سے نماز کے لیے اترے۔ مبارک خاں لوہانی 30، 40 افغانوں کو لے کر سامنے آئے۔ ظاہر یہ کیا کہ ملاقات کو آئے ہیں۔ بیرم خان نے مروت و اخلاص سے پاس بلا لیا۔ اس نامبارک نے مصافحہ کے بہانے پاس آ کر پشت پر ایک خنجر مارا کہ سینہ کے پار نکل آیا۔ ایک اور ظالم نے سر پر تلوار ماری کہ کام تمام ہو گیا۔‘

لوگوں نے نامبارک سے پوچھا کہ کیا سبب تھا جو یہ غضب کیا، کہا کہ ماچھی واڑا کی لڑائی میں ہمارا باپ مارا گیا تھا ہم نے اس کا بدلہ لیا۔‘

اکبر، ادھم خان
،تصویر کا کیپشناکبر نے حکم دیا کہ ادھم کو 10 فٹ اونچائی سے پھینکا جائے۔ ان کے زندہ بچنے پر اکبر نے حکم دیا کہ ادھم کو ایک بار پھر سر کے بل چھت سے پھینکا جائے۔ اس بار ادھم خان بچ نہ پائے

ماہم انگہ نائب سلطنت بن گئیں

بیرم خان کے قتل کا مطلب یہ تھا کہ ماہم انگہ مغل دربار میں تقریباً بے مثال اثر و رسوخ استعمال کر سکتی تھیں۔

بہت سے رئیسوں نے ماہم انگہ سے وفاداری کا عہد کیا اور بدلے میں کافی انعامات پائے۔ وہ ذہین اور قابل تھیں۔ شاہی گھرانہ اور حرم ان کے ہاتھ میں تھا، سو جلد ہی اکبر کے درباری معاملات کو سنبھال لیا۔

وہ نوعمر شہنشاہ کی سیاسی مشیر اور مغل سلطنت کی ممکنہ طور پر دوسری طاقتور ترین شخصیت بن گئیں۔

خواتین کے لیے مسجد اور مدرسہ بنوایا

ماہم انگہ نے 1561 میں خیرالمنازل کے نام سے صرف خواتین کے لیے ایک عمارت تعمیر کروائی جس میں مسجد اور مدرسہ تھے۔

تاریخی عمارات پر لکھنے والے برون گھوش کا ماننا ہے کہ ہمایوں کے دین پناہ قلعے (اب پرانے قلعے) کے عین سامنے اور شیر شاہ سوری کے لال دروازے کے فوری بعد تعمیر یہ عمارت ماہم انگہ کے عزائم کی عکاس ہے۔ صدردروازے پر فارسی زبان میں اس مفہوم کے الفاظ ابھرے ہوئے ہیں:

’جلال الدین محمد (اکبر) کے عہد میں عفت مآب ماہم بیگ (انگہ) نے تعمیر کی اور نیک شخص شہاب الدین احمد خان (انگہ کے داماد) نے اس نیک کام میں مدد کی۔‘

گھوش لکھتے ہیں کہ ’اوپری منزل پر مدرسے کے کمرے اور صحن پردے کے پیچھے ہیں جن سے اشارہ ملتا ہے کہ مدرسہ صرف لڑکیوں کے لیے اور مسجد صرف خواتین کے لیے تھی۔

صحن کے درمیان میں حوض کبھی پانی سے بھرا رہتا اور وضو کے لیے استعمال ہوتا ہو گا۔ مینار نہیں ہیں۔ دیواروں پر وسط ایشیا کی طرز کی نقاشی اور نیلی ٹائلیں ہوں گی۔خطاطی کے بھی آثار ہیں۔‘

بھول بھلیاں
،تصویر کا کیپشنماہم انگہ اور ادھم خان کی تدفین دلی کے اس 16ویں صدی کے مقبرے میں ہوئی جسے ’بھول بھلیاں‘ بھی کہتے ہیں

ماہم انگہ کا زوال

ماہم انگہ کا زوال ان کے اپنے عمل سے نہیں بلکہ ان کے بیٹے کے ذریعے ہوا۔

جہاں ماہم انگہ اپنی حمایت میں اضافہ کر رہی تھیں، ادھم خان ان کی محنت کا پھل کھا رہے تھے۔ انھیں شہنشاہ اکبر تک براہ راست رسائی حاصل تھی اور زندگی بے فکر تھی۔

ماہم انگہ کی بدولت ادھم خان مغل فوج کے جنرل بنے۔ سال 1561 میں مغل فوج نے سارنگ پور کی لڑائی میں مالوا فتح کیا مگر ادھم خان نے زیادہ ترمال غنیمت اپنے پاس رکھا۔

اکبر نے ماہم انگہ کے کہنے پرادھم خان کو سزا تو نہ دی  مگر اس علاقے کی کمان پیر محمد خان کو سونپ دی۔

نومبر 1561 میں، اکبرنے اپنے پسندیدہ جنرل جیجی انگہ کے شوہر اتگا خان کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ اس اقدام نے  ماہم انگہ کو ناراض کیا۔

16 مئی 1562 کو ادھم خان نے اپنے  ساتھیوں کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوکر انھیں قتل کر دیا۔ ادھم اس کے بعد زنانہ (اندر) کی طرف بھاگے، جہاں ایک خواجہ سرا نعمت نے روکا۔

اسی اثنا میں  تمام افراتفری اور خوف و ہراس میں مبتلا لوگوں کی چیخوں سے اکبر نیند سے بیدار ہو گئے تھے۔ باہر نکلے اور ادھم کو پکڑ لیا۔

ادھم نے اپنے جرم کی وضاحت کی کوشش کی، لیکن اکبر نے مکا مار کر گرا دیا۔

اس کے بعد ادھم کو ایک منزلہ عمارت کی چھت سے پھینکنے کا حکم دیا جس کی اونچائی تقریباً 10 فٹ تھی۔ ادھم  گرنے  کے بعد بھی زندہ تھے۔

اکبر نے حکم دیا کہ ادھم کو ایک بار پھر سر کے بل چھت سے پھینکا جائے۔ اس بار ادھم خان بچ نہ پائے۔

اکبر نے خود یہ خبر ماہم انگہ کو دی، جنھوں نے مبینہ طور پر جواب دیا، ’تم نے اچھا کیا۔‘ لیکن ادھم خان کی موت نے ان پر بہت اثر کیا اور کچھ ہی عرصے بعد ان کی وفات ہو گئی۔

ماہم انگہ کے دوسرے بیٹے قلی خان شاید ان تمام سرگرمیوں کا حصہ نہیں تھے، اکبر کے دور میں سکون سے جیتے رہے۔

تصویر
،تصویر کا کیپشن’بھول بھلیاں‘ نامی اس عمارت کے اندر راستہ بھولنے کا ذکر سر سید احمد خان نے بھی کیا ہے

بھول بھلیاں

اکبر نے اپنی رضاعی ماں ماہم انگہ اور اپنے رضاعی بھائی ادھم خان کی تدفین کے لیے ایک مقبرہ بنانے کا حکم دیا۔

1830 میں ایک انگریز افسر نے اس مقبرے کو اپنی رہائش گاہ بنایا اور قبریں ہٹا دیں۔ یہ ایک ریسٹ ہاؤس، پولیس سٹیشن اور پوسٹ آفس کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا۔

یہ ہندوستان کے وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ کرزن تھے جنھوں نے مقبرے کو بحال کیا۔ ان کی کوششوں سے ادھم خان کی باقیات واپس اس مقام پر پہنچ گئیں۔ تاہم ماہم انگہ کی باقیات کبھی نہیں مل سکیں۔

دلی کے جنوبی علاقے مہرولی میں قطب مینار کے شمال میں یہ مقبرہ چونے اورپتھر کا ہے۔

آثارالصنادید میں سرسید احمد خان اس عمارت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’اس کی ایک دیوارمیں زینہ ہے۔ برج کی دیوار اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کے اردگرد پھر آسکتے ہیں۔‘

’اس میں ایک مقام پر ایسا دھوکہ رکھا ہے کہ آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ جس راستے کو میں جاتا ہوں، اسی راستے سے نیچے اتروں گا حالانکہ برخلاف اس کے کہ نیچے اترنے کا راستہ ایک کونے میں نظرسے پوشیدہ ہے۔‘

’اسی راستے پر آن پڑتا ہے اور پھر اوپر چڑھ جاتا ہے اور اسی سبب سے بھول بھلیاں یعنی مقام گم گشتگی اس کا نام مشہورہو گیا ہے۔‘

مغل حکمرانی میں بننے والے پہلے مقبروں میں سے ایک، شاہی حجم کا حامل، مگر کسی قسم کے نقش ونگار سے عاری اور راہ بھولنے یا گم کرنے کی علامت، یہ مقبرہ شاید یہاں دفن ہونے والی ان شخصیات کے زوال کا استعارہ ہے جو تیسرے شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دربار میں سب سے طاقتور تھیں۔