مشرقی یروشلم میں یہودیوں کی عبادت گاہ پر حملے کے نتیجے میں کم از کم سات افراد ہلاک اور 10 زخمی ہوئے ہیں۔
یہ واقعہ دو روز قبل مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین شہر میں اسرائیلی فوج کے حملے میں نو فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد ہوا ہے۔
جمعرات کو جنین پر اسرائیلی حملہ حالیہ برسوں میں شہر میں ہونے والے سب سے مہلک حملوں میں سے ایک تھا۔
ادھر پولیس کے مطابق اس یہودی آبادکاری میں عبادت کی غرض سے جمع ہونے والے افراد جب عبادت گاہ سے باہر نکل رہے تھے تو ان پر حملہ آور نے فائرنگ کر دی جس کے بعد پولیس کی جانب سے اسے ہلاک کر دیا گیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق حملہ آور مشرقی یروشلم سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان تھا۔
اسرائیلی پولیس کے مطابق حملہ آور رات 8 بج کر 12 منٹ پر عبادت گاہ میں داخل ہوا اور حاضرین پر فائرنگ کی۔
غزہ میں حماس کے ترجمان حازم قاسم نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’یہ کارروائی جنین میں قابضین کے جرائم کا جواب اور قابضین کے مجرمانہ اقدامات کا قدرتی ردعمل ہے۔‘ اسلامی جہاد تنظیم نے بھی اس حملے کا خیر مقدم کیا ہے تاہم کسی فلسطینی گروپ نے تاحال اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
موقع پر موجود فرانزک ٹیمیں ایک سفید گاڑی کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہیں جو ممکنہ طور پر حملہ آور چلا رہا تھا۔
’حملہ آور نے بظاہر فرار کی کوشش کی‘
نامہ نگار برائے مشرق وسطی ٹام بیٹ مین کا تجزیہ
ہم اس یہودی عبادت گاہ کے قریب ہیں جسے پولیس نے اپنے گھیرے میں لے کر بند کر دیا ہے۔ ہر طرف مسلح سکیورٹی فورسز اور ایمبولینسیں نظر آ رہی ہیں اور اوپر ہیلی کاپٹر بھی گردش کر رہا ہے۔
سڑک کے بیچ و بیچ ایک تباہ شدہ کار کھڑی ہے۔ گاڑی کی ونڈ شیلڈ پر گولیوں کے سوراخ ہیں۔
پولیس کا فرانزک اہلکار اپنے سر پر ٹارچ لگا کر گاڑی کا جائزہ لے رہا ہے۔ وہ ہمیں پیچھے ہٹنے کا کہتے ہیں۔
ایک عینی شاہ نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے سڑک پر مسلح حملہ آور کو دیکھا تھا۔ سکیورٹی اہلکار ان کا پیچھا کر رہے تھے جب انھیں ایک پولیس افسر کی گولی لگی اور انھوں نے ہوا میں فائر کیا۔
یہ جگہ عبادت گاہ سے کچھ ہی فاصلے پر ہے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور نے فرار کی کوشش کی تھی۔
ہمیں قریبی فلسطینی علاقوں سے بھی آوازیں سننے کو ملیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہاں کے رہائشیوں اور اسرائیلی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
اس حملے کو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافے کی علامت قرار دیا گیا ہے اور اس نے خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان وسیع تر تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔
جمعے کو جس عبادت گاہ پر حملہ کیا گیا وہ ’پیغمبر یعقوب‘ کے محلے میں واقع ہے، جہاں ایک اسرائیلی آبادکاری ہے۔
تاہم ’پیغمبر یعقوب‘ محلہ یروشلم کے ایک حصے میں واقع ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق فلسطینی علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔
یروشلم کا یہ حصہ 1967 سے اسرائیل کے قبضے میں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس نے اسے اپنے علاقے میں شامل کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ یروشلم کے اس حصے کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کو تسلیم نہیں کرتا اور اب بھی یروشلم کے پورے مشرقی حصے کو فلسطینیوں کی ملکیت سمجھتا ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ حملہ آور مشرقی یروشلم میں رہنے والا ایک فلسطینی تھا۔
غزہ میں اس حملے کی خبر پر سڑکوں پر ایک بے ساختہ جشن منایا گیا۔
خیال رہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن آئندہ چند روز میں اسرائیل اور فلسطین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے حملے کی مذمت کی ہے۔
حملے پر برطانیہ، امریکہ اور اقوام متحدہ کا مذمتی بیان
یہودیوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہولوکاسٹ میموریل ڈے کے موقع پر ہوا ہے۔ یہ دن جرمنی میں نازی دور میں 60 لاکھ یہودیوں کے قتل کے سوگ میں منایا جاتا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’یہودیوں کی عبادت گاہ پر ہولوکاسٹ میموریل ڈے اور سبت کے روز حملہ پریشان کن ہے۔ ہم اپنے اسرائیلی دوستوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ ’امریکہ اس دہشتگرد حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔‘
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سے فون پر بات کی ہے اور انھیں حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بنیامن نتن یاہو کے علاوہ متنازع قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن غفیر نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا ہے۔ بن غفیر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل کی گلیوں میں امن واپس لائیں گے تاہم ایسا نہ ہونے پر لوگ بظاہر ان سے ناراض ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گٹیریز کی ترجمان کے مطابق انھوں نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں میں پُرتشدد واقعات کے اضافے پر کافی پریشان ہیں۔ ’یہ مزاحمت ظاہر کرنے کا وقت ہے۔‘
خیال رہے کہ اسرائیل نے 1967 کے دوران مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مشرقی یروشلم کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور اب یہ پورے شہر کو اپنا دارالحکومت تصور کرتا ہے۔ تاہم عالمی سطح پر اکثریت ان ممالک کی ہے جو اسے تسلیم نہیں کرتے۔
فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ مشرقی یروشلم مستقبل میں اس کی آزاد ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔