پاکستان

’پہلے ایک روٹی پر پیاز رکھ کر کھا لیتے تھے، اب وہ بھی ممکن نہیں‘: پاکستان میں پیاز کی قیمت کو پر کیوں لگے؟

Share

باورچی خانے میں کام کے دوران پیاز کاٹنے کا مرحلہ انتہائی تکلیف دہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ پیاز کے چھلکے اتارنے کے ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو لڑی کی صورت میں بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اب یہی پیاز پاکستانی صارفین کو گذشتہ کچھ عرصے سے ہر بار خریداری کے وقت آٹھ آٹھ آنسو رونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ سالن کا لازمی جزو سمجھے جانے والے ایک کلو پیاز کی قیمت پاکستان میں 220 سے 250 روپے تک ہے۔

پیاز صرف کھانے میں ذائقے کے لیے ہی نہیں بلکہ سالن کی مقدار بڑھانے میں بھی مددگار رہتے ہیں۔

ہوشربا مہنگائی میں جہاں بڑے گوشت کی قیمت 800 روپے فی کلو سے زیادہ ہے وہیں کئی متوسط گھرانوں میں سالن کی مقدار بڑھانے کے لیے بھی پیاز کے ذریعے شوربہ یا گریوی بڑھا کر سب کے لیے پورا کرنا بھی آزمودہ ٹوٹکا رہا ہے۔

اور اگر بات پاکستانی کھانوں کی کی جائے تو سالن کی لگ بھگ ہر ریسیپی کا آغاز ہی پیاز سے ہوتا ہے۔

پشاور کی سبزی منڈی میں مزدوری کرنے والے غلام خان سے جب ہم نے پیاز کی بڑھتی قیمتوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا: ’ہم مزدور کہاں جائیں، پہلے کوئی سالن نہیں ملتا تھا تو ایک پیاز کے ساتھ ہی دن کی روٹی کھا کر گزر بسر کر لیا کرتے تھے۔

’مگر اب ایک 200 گرام کے پیاز کے عوض ہی دکاندار 40  سے 50 روپے مانگ لیتا ہے۔ حالانکہ یہی کھانا کچھ عرصے پہلے تک مجھے دس، بارہ روپے میں پڑتا تھا۔‘

پیاز

پاکستان کے مختلف صوبوں میں اس وقت پیاز کے الگ الگ ریٹ ہیں۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اس وقت پیاز سب سے مہنگا ہے اور فی کلو 250 سے 260 روپے میں دستیاب ہے۔

اسی طرح خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں اس کی قیمت 230 سے 250 روپے کے درمیان ہے۔ کراچی میں چھوٹا پیاز 230 جبکہ بڑا پیاز 240 روپے کے ریٹ پر دستیاب ہے۔

اسی طرح پنجاب کے شہر لاہور میں پیاز کا ریٹ 220 سے 240 روپے کے درمیان ہے۔

’پیاز خریدنا کیسے چھوڑ دیں‘

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خاتون سحرش ناز نے نمائندہ بی بی سی محمد کاظم کو بتایا کہ انھوں نے رواں ہفتے آخری بار پیاز 260 روپے فی کلو میں خریدا۔ ’ہر ہفتے بازار جانے پر اس کا نیا ریٹ ملتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پیاز توایک بنیادی ضرورت ہے، یہ تو ہر سالن میں پڑتا ہے اور ایسی ضرورت ہے جس کی خریداری چاہتے ہوئے بھی نہیں بچائی جا سکتی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ حکمرانوں کی انتہائی غفلت ہے کہ ایک بنیادی چیز کی قیمت اس حد تک بڑھ چکی ہے۔‘

کوئٹہ ہی سے تعلق رکھنے والی مشال نعیم نے بتایا کہ پیاز کی قیمت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ یہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گیا ہے۔

انھوں نے گلہ کیا کہ ’کوئی کچھ نہیں سوچ رہا ہے۔ بس حکمران مہنگائی پر مہنگائی کیے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ غریب لوگ کس طرح گزارا کریں گے۔‘

پیاز

مگر پیاز کیوں مہنگا ہوا؟

پیاز کے کاشتکار اور آڑھتی اس کا سبب گذشتہ سال میں آنے والے سیلاب کو قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر لگی فصل کو نقصان پہنچا اور وہ ضائع ہوئی۔

ان کے مطابق صورتحال میں بہتری آئندہ ایک ماہ میں متوقع ہے جب پیاز کی نئی فصل پاکستان میں دستیاب ہو گی۔

اسی صورتحال کے پیش نظر اس وقت پاکستان میں تاجکستان اور ایران سے آنے والا پیاز بھی دستیاب ہے جو قیمت میں پاکستانی پیاز سے لگ بھگ 20 روپے فی کلو کم میں دستیاب ہے۔

زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل عبدالرحمان بازئی نے بتایا کہ ’بلوچستان میں پیاز کی پیداوار پانچ لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہے۔

’عمومی طور پر اگست سے اکتوبر کے درمیان پاکستان میں پیاز کی ضرورت کو بڑی حد تک بلوچستان پورا کرتا ہے جبکہ 15 نومبر کے بعد سندھ میں حیدرآباد اور ہالہ کی فصل ملکی ضرورت کو پوری کرتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال بلوچستان اور سندھ دونوں میں پیاز کی فصل کو نقصان پہنچا جس کے باعث پیاز کی قلت پیدا ہو گئی۔

انھوں نے کہا جب پنجاب اور خیبرپختونحوا کی فصل مارکیٹ میں آئے گی تو قیمتوں میں کمی ممکن ہو پائے گی۔

پیاز
،تصویر کا کیپشناس وقت درآمدی پیاز بھی پاکستان میں فروخت ہو رہا ہے جو پاکستانی پیاز کی نسبت لگ بھگ 20 روپے فی کلو کم قیمت ہے

ایف پی سی سی آئی کے بلوچستان سے ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور وزیر علیٰ بلوچستان کے کوآرڈینیٹر اختر کاکڑ نے بتایا کہ جہاں پیاز کی فصل کو پہنچنے والے نقصان سے طلب اور رسد میں بہت زیادہ فرق آیا وہاں اس وقت ایران سے بھی پیاز کی درآمد میں کمی ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جہاں ایران نے پیاز کی برآمدی ٹیکس میں اضافہ کیا ہے وہاں ایران سے بڑی مقدار میں پیاز اب افغانستان بھی جا رہا ہے جس کے باعث اب ایران سے پاکستان کے لیے پیاز کم آ رہا ہے۔

ضلع مستونگ کے علاقے کھڈکوچہ سے تعلق رکھنے والے کاشتکار عبدالعلیم خان نے بتایا کہ دیگر لوگوں کی طرح ان کی پیاز کی فصل بھی گذشتہ سال مون سون کی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے تباہ ہوئی تھی۔ ’ہم نے اپنی اراضی پر جو پیاز کاشت کیا تھا اس کا صرف ایک حصہ بچ گیا اور تین حصہ تباہ ہو گیا۔‘

وجوہات جو بھی ہوں پشاور کی سبزی منڈی میں موجود غلام خان نے ہماری موجودگی میں ریڑھی پر پڑے پیازوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ ’صورتحال اتنا جلدی بدل جائے گی مجھے یقین نہیں تھا۔‘