Site icon DUNYA PAKISTAN

روپے کی ریکارڈ تنزلی کہاں جا کر رُکے گی اور ڈالر کی قدر میں بے تحاشا اضافے کے کیا اثرات ہوں گے؟

Share

جمعرات کے دن پاکستان میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں اچانک تیزی سے کمی ہوئی جس سے صرف دو دن قبل ہی پاکستان میں زرِ مبادلہ کی ایکسچینج کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا کیپ ختم کر دیا جائے گا۔

جمعرات کے روز کاروبار کے اختتام پر ایک ڈالر کی قیمت تقریبا 25 روپے اضافے کے ساتھ 255 روپے پر بند ہوئی جو ایک دن میں روپے کی قدر میں کمی کا نیا ریکارڈ ہے۔

ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو ایک معاشی بحران کا سامنا ہے جس میں زرمبادلہ ذخائر بھی چار ارب ڈالر سے کم رہ چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب دیکھ رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے ڈالر کا ریٹ فکس رکھنے کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے اور اب آئی ایم ایف کی شرط مان لی ہے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ مزاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔

حکومت آئی ایم ایف کو مالی مدد کے لیے منا پائے گی یا نہیں، اس سے قبل پاکستان میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے معیشت اور ایک عام آدمی پر کتنے گہرے اثرات پڑیں گے اور آیا روپے کی قدر بحال ہو بھی سکتی ہے؟

’حکومت نے اسحاق ڈار کی پالیسی کو ترک کر دیا‘

عزیر یونس اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں ڈائریکٹر پاکستان انیشیٹیو ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں تبدیلی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت نے اسحاق ڈار کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے جس کی وجہ ان کے مطابق آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا۔‘

’آئی ایم ایف کو آن ٹریک لانا ضروری ہے۔‘

ثنا توفیق عارف حبیب سکیورٹیز لمیٹڈ میں لیڈ اکانومسٹ اور سینیئر تجزیہ کار ہیں۔ وہ عزیر یونس سے اتفاق کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کی چند شرائط کو پورا کرنا ضروری تھا۔ ان میں سے ایک کرنسی ایڈجسٹمنٹ تھی۔ آئی ایم ایف کا ایک مطالبہ تھا کہ کرنسی فری فلوٹ ہونی چاہیئے۔‘

’پچھلے کچھ عرصے میں ہم نے دیکھا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کوئی قابل قدر تبدیلی نہیں ہو رہی تھی حالانکہ ملک کے زرمبادلہ ذخائر انتہائی کم ہو رہے تھے، ترسیلات زر میں کمی ہوئی۔‘

ثنا توفیق کہتی ہیں کہ ’ان حالات میں روپے کی قدر میں کمی نہ ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ کرنسی کو مینیج کیا جا رہا ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ’اس کی وجہ سے زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ پڑا اور مارکیٹ میں ڈیفالٹ کی باتیں ہونا شروع ہو گئیں۔

معاشی تجزیہ کار اور ایکیومن فنڈ کی ریجینل مینیجنگ ڈائریکٹر عائشہ خان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہم پاکستانی تاریخ کے سخت ترین عدم استحکام کے دور میں سے گزر رہے ہیں اور لگتا نہیں کہ حکومت کی اس حوالے سے کوئی حکمتِ عملی موجود ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ بوکھلاہٹ میں اقدامات کیے جاتے ہیں اور جب چیزیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں تو کوئی اور اقدام کر لیا جاتا ہے، جس سے یہ واضح نہیں ہو رہا کہ حقیقت میں حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ بڑھنے کو کسی درست سمت میں قدم تصور نہیں کیا جا سکتا اور ہم اس وقت درست سمت سے کہیں دور ہیں۔‘

کیا روپے کی قدر مستحکم ہو سکے گی؟

اہم سوال یہ ہے کہ ڈالر کا ریٹ کہاں جا کر رکے گا؟

عزیر یونس کی رائے تھی کہ ’جمعے کے دن ڈالر کے ریٹ میں مذید اضافہ ممکن ہے۔ جب تک انٹر بینک اور ان فارمل مارکیٹ کا گیپ ختم نہیں ہوتا، شاید اضافہ ہو گا۔‘

ان کے مطابق ’جب بینک خود انٹربینک ریٹ پر لوگوں کو کرنسی بیچنا شروع کر دے، تو وہ کرنسی کا پیک ہو گا۔ ابھی 255 پر بھی کوئی نہیں بیچ رہا۔‘

ڈالر کی قدر میں ایک دن کے ریکارڈ اضافے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے عزیر یونس کا کہنا تھا کہ اس کا ایک مثبت پہلو تو یہ ہے کہ حکومت آخر کار آئی ایم ایف کی شرائط ماننے پر راضی ہو گئی ہے۔

ثنا توفیق کا بھی یہی ماننا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت آئی ایم ایف کی ضرورت ہے۔

’پاکستان کے پاس زرمبادلہ ذخائر اب چار ارب ڈالر سے بھی کم ہیں جو ایک ماہ کی درآمدات کے لیے بھی کافی نہیں ہیں۔‘

ان کے مطابق ’جب تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کم ہیں، روپیہ دباؤ میں رہے گا۔‘

’ایک بار آئی ایم ایف کا نائنتھ ریویو مکمل ہو جائے تو ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کا قرضہ ریلیز ہونے کی توقع ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ رقم تو بہت زیادہ نہیں ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ کامیابی سے ریویو مکمل ہونے کے بعد باقی جگہوں سے جن میں دوست ممالک شامل ہیں سے پیسے آنا شروع ہو جائیں گے۔‘

’انٹرنیشنل کریڈٹ ایجنسیز سے اگر پیسے ملنا شروع ہو جاتے ہیں تو روپے کی قدر اسی مالی سال کے دوران ہی بحال بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کا دارومدار مالی امداد کی ٹائمنگ پر منحصر ہو گا۔‘

’اس مالی سال میں دو اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی قرضوں کی ادائیگی بھی باقی ہے اور اس کے لیے بھی ڈالر درکار ہیں لیکن زرمبادلہ ذخائر اس لیول پر نہیں کہ ہم اس ادائیگی کو افورڈ کر سکیں۔‘

عائشہ خان کے مطابق ’جن چیزوں سے ڈالر حاصل کیے جاتے ہیں، وہ بہت محدود ہیں جبکہ ہمارا بہت بڑا خرچہ ڈالرز میں ہوتا ہے جس میں قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات بھی ہیں جنھیں ہم کنٹرول نہیں کر پا رہے۔ ایسی صورت میں ایکسچینج ریٹ صرف ایک ہی سمت میں یعنی اوپر جا سکتا ہے، اور یہ کہاں جا کر رکے گا، اس کے حوالے سے پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔‘

روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی کے کیا اثرات ہوں گے؟

ثنا توفیق کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کے معیشت پر منفی اثرات ہوں گے۔

’سب سے پہلے تو امپورٹر پر دباؤ آتا ہے۔ پہلے ہی امپورٹ پر کافی پابندیاں ہیں۔ انتظامی کنٹرول کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں کمی سے بنیادی اشیا کی درآمد بھی مشکل ہو جائے گی۔‘

عزیر یونس کے مطابق ’مہنگائی میں تقریبا 35 اضافہ ہو گا۔ پیٹرول مہنگا ہو گا، بجلی مہنگی ہو گی، گیس مہنگی ہو گی۔‘

’جتنی بھی اشیا امپورٹ ہوتی ہیں، چائے، گھی، دالیں۔۔۔ یہ سب ڈالر میں امپورٹ ہوتی ہیں اور ان سب کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کیا جائے گا اور پیر تک کسی حد تک ہمیں قیمت اور مارکیٹ پر اثرات واضح ہو جائیں گے۔‘

ثنا توفیق کہتی ہیں کہ ’بین الاقوامی مارکیٹ کا بھی ملک میں مہنگائی پر اثر ہو گا۔ اس وقت اگرچہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتیں کم ہیں لیکن اگر ان میں اضافہ ہوا تو اس کا گہرا اثر پڑے گا۔‘

ثنا کا کہنا ہے کہ ’اب منی بجٹ اور نئے ٹیکسز کی بھی توقع ہے۔ نائنتھ ریویو کو کامیاب کروانے کے لیے حکومت کو جو فیصلے لینا ہیں، وہ لینے پڑیں گے۔‘

روپے کی قدر میں کمی کے معیشت پر اثرات کے حوالے سے عائشہ خان کا کہنا تھا کہ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا کیونکہ ہر چیز جو ہم استعمال کر رہے ہیں وہ سب باہر سے آ رہی ہیں اور ڈالر اوپر جانے سے ان سب کی قیمتیں اوپر جائیں گی۔

سوشل میڈیا ردعمل: ’اسحاق ڈار مفتاح اسماعیل سے معافی مانگ لیں‘

پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی ڈالر اور روپیہ ٹرینڈ کرتا رہا۔ ایسے میں جہاں کئی لوگ معیشت اور مہنگائی پر پڑنے والے اثرات پر بات کرتے نظر آئے وہیں اکثریت نے اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی کے بعد ان دعووں پر سوال اٹھایا جن میں انھوں نے ڈالر کا ریٹ دو سو روپے تک لانے کی بات کی تھی۔

علی معین نوازش نے لکھا کہ ’مسلم لیگ ن کو اسحاق ڈار کی معاشی پالیسی سے زیادہ کسی نے نقصان نہیں پہنچایا۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’حالات اس قدر خراب نہیں ہوتے اگر مفتاح اسماعیل ہی وزیر خزانہ رہتے اور حکومت کو اتنی قلیل مدت میں دوسری بار مشکل فیصلے نہ کرنا پڑتے۔‘

سعد نامی صارف نے لکھا کہ ’گذشتہ دس ماہ میں پاکستان عوام کی قوت خرید تقریبا تیس فیصد تک کم ہو جانے کے بعد سمجھ آئی کہ 2013 سے 2017 تک اسحاق ڈار کا ڈالر کا ریٹ سو روپیہ رکھنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی جادوگر تھے بلکہ اس کی وجہ اس وقت سی پیک اور آئی ایم ایف سے ملنے والی مدد تھی۔‘

تاہم ایک اور صارف نے لکھا کہ ’اسحاق ڈار پر تنقید تو ہوتی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ایکسچینج ریٹ پالیسی پر عمل درآمد سٹیٹ بینک کا کام ہوتا ہے۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’اسحاق ڈار کو چاہیئے کہ مفتاح اسماعیل سے معافی مانگ لیں۔‘

Exit mobile version